میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہری شہریت رکھنے والے بیورو کریٹس

دہری شہریت رکھنے والے بیورو کریٹس

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۵ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا گیا ہے کہ 22 ہزار پاکستانی بیوروکریٹس کے پاس دُہری شہریت ہے، جس کے بعد چند دن پہلے سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی نے ایک بل پر غور کیا ہے جس کا مقصد سول سرونٹس کی دہری شہریت پر پابندی لگانا ہے۔ جن سینیٹر صاحب نے یہ بل پیش کیا انہوں نے فرمایا کہ سول سرونٹس ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں جبکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص 2ملکوں کا وفادار رہے۔

قائمہ کمیٹی نے کہا کہ جب ججز اور ارکان اسمبلی دہری شہریت نہیں رکھ سکتے تو بیورو کریٹس پر بھی پابندی عائد کی جائے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں دہری شہریت کے معاہدے والے ممالک کے شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ دینے کی مجوزہ قانون سازی بھی زیر بحث آئی۔

رکن کمیٹی آغا رفیع اللہ نے دہری شہریت سے متعلق پاکستانیوں کی تفصیلات مانگیں اور کہا کہ دہری شہریت رکھنے والے کتنے پاکستانی ہیں؟ دہری شہریت ترک کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ کیا نادرا کے پاس ڈیٹا ہے کہ کتنے افراد کی کن ممالک کے پاس دہری شہریت ہے؟
پاکستانی بیوروکریٹس کے پاس دہری شہریت ہونے سے بارے میں یہ انکشاف بلاشبہ اگرچہ نیا نہیں لیکن تشویشناک ضرورہے ،کیونکہ اعلیٰ سرکاری ملازمین ریاست کے اہم اور بسا اوقات حساس معاملات کی انجام دہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ان کی یہ ذمہ داری ان کی مکمل وفاداری اور خلوص کا تقاضا کرتی ہے۔ملازمت کے دوران کسی دوسرے ملک کی شہریت لینا ان کی سرکاری ذمہ داریوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اگرچہ بیوروکریٹس کی نیتوں پر شبہ نہیں کیا جانا چاہئے اور یہ فرض کیا جاتاہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پوری دیانتداری کے ساتھ انجام دے رہے ہوتے ہیں ،لیکن 22 ہزار بیوروکریٹس کے پاس دہری شہریت ہونے کا واضح مطلب اس ملک کے اہم راز غیر ملکی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے حوالے ملک کرنا ہے جن میں ایک فیصد بھی اگر لالچ میں آجائے تو ملک کا وجود خطرے میں پڑسکتاہے ۔

موجودہ صورتحال میں جبکہ پاکستان کو گورننس کے مسائل کا سامنا ہے۔معلومات کا افشا ہونا اور پالیسی امور پرسستی جیسی شکایات عام ہیں،اور ہمارے بیوروکریٹس کے ناجائز اثاثوں کی خبریں تواتر کے ساتھ سامنے آرہی ہیں ایسی صورت میں تمام بیوروکریٹس کو ملک وقوم کا مخلص تصور کر لینا درست نہیں ہے،کیونکہ جو بیوروکریٹس اپنی دولت اس ملک میں رکھنے کو ترجیح نہ دے رہے ہوں ان کی وفاداری پرکس طرح بھروسہ کیا جا سکتاہے اور یہ خیال کرنا قطعی غلط نہیں ہوگا کہ ان کی جانب سے سرکاری خزانے کی لوٹ مار یا کرپشن کے بے نقاب ہونے کی صورت میں وہ ملک چھوڑ کر فرار ہونے میں دیر نہیں کریں گے اور بیرون ملک جاکر حسن اور حسین نواز کی طرح کڑکدار آواز میں کہیں گے کہ ہم تو اس ملک کے باشندے ہیں پاکستان کے قوانین ہم پر لاگو ہی نہیں ہوتے،ارباب حکومت یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت آسانی سے نہیں ملتی اس کیلئے متعلقہ ملک میں ایک مقررہ وقت گزارنے کے علاوہ مخصوص رقم بھی ہونا لازمی ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ جن 22 ہزار بیوروکریٹس نے دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کی ہے انھوں نے بھاری بینک بیلنس بھی ظاہر کیا ہوگا اور یہ بینک بیلنس تمام بیورو کریٹس کا خاندانی اثاثہ نہیں ہوسکتے کیونکہ بھاری نقدی اور وسائل رکھنے والا کوئی بھی شخص ملازمت نہیں کرتا۔اس لئے ارباب اقتدار کو غیر ملکی شہریت رکھنے والے ان بیوروکریٹس کے نام فوری طورپر ای سی ایل پر منتقل کرکے ان کی آمدنی ،طرز زندگی اور بینک بیلنس کی پوری طرح تفتیش کرنی چاہئے اور انھیں مجبور کیاجانا چاہئے کہ وہ اپنے اثاثوں کے ذرائع ظاہر کریں ،اس کے علاوہ ارباب اختیار کو یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ان22 ہزار بیوروکریٹس پر ماہانہ اخراجات کئی ارب روپے کی صورت ہو رہے ہیں۔قائمہ کمیٹی میں اٹھائے گئے سوالات بجا ہیں کہ جب ججوں اور عوامی نمائندگان پر پابندی ہے تو بیوروکریٹس کو دہری شہریت رکھنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟
پاکستان میں سول بیوروکریسی کی کرپشن ایک سنگین مسئلہ ہے جو نہ صرف حکومتی اداروں کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے سرکاری اداروں میں کرپشن اس حد تک پھیل چکی ہے کہ عوام کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے کئی گنا زیادہ محنت اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ یہ کرپشن بیوروکریسی کے تمام شعبوں میں نمایاں طور پر نظر آتی ہیاوراس کے اثرات ملک کے مختلف حصوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

سول بیورو کریسی وہ طاقتور ادارہ ہے جو حکومت کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن جب یہ خود اپنے مفادات کی خاطر غیر قانونی راستوں پر چل پڑتی ہے تو پھر ملک کا مستقبل داؤپر لگ جاتا ہے۔پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سول بیوروکریسی کی کرپشن ہے۔ یہ بیوروکریسی نہ صرف سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرتی ہے بلکہ اپنے عہدوں کا فائدہ اٹھا کر مختلف مفادات حاصل کرتی ہے۔ یہ افراد نہ صرف عوام کے پیسوں کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں بلکہ حکومت کے منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرنے میں بھی اکثر رکاوٹ بنتے ہیں۔ بیوروکریسی کے اس کرپٹ نظام نے عوام کے حقوق کو پامال کر دیا ہے۔ عام شہری جب بیورو کریٹ بن کر خاص ہو جاتے ہیں تو اس نظام کا حصہ بن کر کرپشن کے سمندر میں خوب غوطے لگاتے ہیں۔
پاکستان کے عام شہری جب بیوروکریسی میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی ابتدائی ذمہ داری ملک کی خدمت کرنا اور ترقی کے عمل میں حصہ ڈالنا ہوتاہے،لیکن جیسے ہی وہ طاقت کا حصہ بنتے ہیں توان کی اکثریت آپے سے باہر ہوجاتی ہے۔ وہ سرکاری وسائل کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں اور بیرون ملک جانے کیلئے ویز ے حاصل کرنے کی غرض سے اپنی نوکری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں ہونے والے انکشاف سے ظاہرہوتاہے کہ ان لوگوں نے اپنی ملازمت کے دوران ہی بیرون ملک شہریت حاصل کی ہے،اور اپنے اس عمل کے نتیجے میں وہ اپنے وطن سے کیے گئے اس عہدکو توڑ چکے ہیں کہ وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کی خدمت کریں گے۔

بیوروکریٹس کی دہری شہریت کا انکشاف حزب اختلاف کے کسی رہنما نے نہیں بلکہ حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک معتبر رکن قومی اسمبلی، عبدالقادر پٹیل نے کیا ہے ان کے مطابق پاکستان میں 22 ہزار بیوروکریٹس دہری شہریت کے حامل ہیں، اور ان میں 99 فیصد وفاقی سیکریٹریز بھی شامل ہیں،ان کے اس سنگین انکشاف نے عوام کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسا انکشاف ہے جو ملک کے عوام کیلئے ایک جھٹکے سے کم نہیں ہے۔دہری شہریت رکھنے والے ییہ لوگ اپنے اس بنیادی حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں جو انہوں نے پاکستان کی خدمت کرنے کے لئے لیاتھا۔ ان بیوروکریٹس کی دہری شہریت کا مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ اس سے ملک کی سالمیت اور اس کے مفادات کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔

اس انکشاف کے بعد یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ جب بیوروکریٹس خود دہری شہریت رکھتے ہیں تو پھر وہ اپنے ملک کے مفادات پرکیا کچھ نہیں کرتے ہوں گے؟ یہ افراد نہ صرف اپنی ذاتی مفادات کیلئے ملک کی پالیسیوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ اس سے پاکستان کے راز بھی دوسرے ممالک تک پہنچنے کاخدشہ پیداہوجاتا ہے۔ بیوروکریٹس کے پاس تمام سرکاری فائلیں، معلومات اور راز ہوتے ہیں اور ان کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان معلومات کو دوسرے ممالک تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح دہری شہریت رکھنے والے یہ بیوروکریٹ ملک کی سلامتی کیلئے خطرناک ہوسکتے ہیں ۔

پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کو دہری شہریت نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ ملکی راز افشا کر سکتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بیوروکریٹس کے پاس تمام راز اور اہم معلومات ہوتے ہوئے ان کودہری شہریت کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟ سیاستدانوں کا تو کوئی راز نہیں ہوتا کیونکہ ان کی بیشتر سرگرمیاں عوام کے سامنے ہوتی ہیں، لیکن بیوروکریٹس کے پاس اہم فائلیں اورفیصلہ سازی کی معلومات ہوتی ہیں۔کیا ان افراد کویہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے دوسرے ملک کے مفادات کو ترجیح دیں؟
ایک بیوروکریٹ جو پاکستان میں کام کررہا ہے اس کاغیرملکی مفادات سے تعلق جتنا مضبوط ہو گااتنی زیادہ قوم کی خدمت میں مشکلات پیش آئیں گی۔اس سے ظاہرہوتا ہے کہ بیوروکریٹس کیلئے دوہری شہریت کی اجازت ملک کے مفادات کے خلاف ہے اور اس مسئلے کو جلدازجلد حل کیاجاناچاہیے۔اس اہم مسئلے پر وزیر اعظم شہبازشریف اورپوری مسلم لیگی قیادت کی خاموشی سے ظاہر ہوتاہے کہ ان بیوروکریٹس کو حکومت میں موجود وزرااو رمشیروں کی آشیرباد حاصل ہے ،جب رکن اسمبلی کیلئے دہری شہریت ممنوع ہے تو بیوروکریٹس کو یہ سہولت کیونکر دی جاسکتی ہے ،وزیراعظم کو اس مسئلے کاسنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئیے اور بیوروکریٹس کے لئے دہری شہریت کے معاملے کی تفتیش کراکے دہری شہریت رکھنے والے تمام بیوروکریٹس کو بیک جنبش قلم ان کی ذمہ داریوں سے فارغ کرکے ان کی جگہ خالصتاً میرٹ پر اہل لوگوں کو آگے آ نے کا موقع دینا چاہئے ،اور دہری شہریت رکھنے والے تمام افسران کے نام ای سی ایل میں ڈال کر ان کی آمدنی کے ذرائع کی چھان بین کرنی چاہئے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ انھوں نے کن ذرائع سے اتنی دولت جمع کی کہ دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ، حکومت کو دہری شہریت کے حوالے سے سخت قوانین بنانے چاہئیں تاکہ کوئی بھی سرکاری افسر غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔اس کے ساتھ ہی حکومت کو ملک کی بیوروکریسی کوزیادہ شفاف اورذمہ داربنانے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔

پاکستان میں دہری شہریت کے معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اس کو اب نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے کیونکہ بیوروکریٹس کو اپنے ملک کے مفادات کی قربانی دے کر دوسرے ملک کے مفادات کو اہمیت دینے کااختیار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے نہ صرف بیوروکریسی کی کارکردگی متاثر ہو گی بلکہ پورے ملک کی خود مختاری اور سالمیت بھی خطرے میں پڑجائے گی۔ اگر کسی فرد کی دہری شہریت ہے اور وہ مقررہ وقت کے اندر وہ ترک نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کچھ سیاستدانوں کے کنبے مستقل امیر ملکوں میں رہ رہے ہیں،قانون سازی کے ذریعے ایسے سیاستدانوں کو بھی اپنے اہل خانہ کو پاکستان واپس لانے یا سیاست ترک کرنے پر مجبور کیاجانا چاہئے ،کیونکہ جس کے بھی بچے کسی اور ملک میں رہ رہے ہوں تو وہ اُسی ملک کا وفادار تو رہے گا۔ اگر کسی کے بیوی بچے برطانیہ یا امریکہ یا کینیڈا وغیرہ میں رہ رہے ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ امریکہ یا کینیڈا کے ساتھ وفادار نہ ہو جبکہ پاکستان میں وہ وزیر بھی ہو یا اسمبلی کا رُکن بھی ہو یا کوئی اور حساس ذمہ داری بھی سنبھالے ہو؟

یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ سیاستدان امریکہ، یورپ، یو اے ای، ہسپانیہ اور جرمنی میں جائیدادوں پر جائیدادیں بنائیں،وہاں کارخانے لگائیں،عیدیں شب راتیں وہیں کریں، ان کی اولاد فخر سے کہے کہ ہم وہاں کے شہری ہیں،چھینک بھی آ جائے تو علاج کے نام پر وہاں پہنچ جائیں،اس کے باوجود وزیراعظم بھی بنا دیے جائیں، صدارت کا منصب بھی سنبھال لیں، وزارتوں پر بھی فائز ہو جائیں مگر ان کی وفاداری کے حوالے سے کوئی چُوں بھی نہ کرے ،اس ملک میں یہ بھی ہوا ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے کے لیے ایمرجنسی میں قومی شناختی کارڈ بنایا گیا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ کہاں کا شہری ہے۔ وزارت عظمیٰ گئی تو سیدھا ایئر پورٹ گیا اور جہاں سے آیا تھا، وہیں دفن بھی ہوا۔اسی طرح ہمارے جن بھی کھلاڑیوں نے کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کررکھی ہو اسے خواہ وہ کتنا ہی اہل اور ٹیم کیلئے ضروری کیوں نہ ہو فوری طورپر ٹیم سے فارغ کردینا چاہئے ۔

یہ کام پی سی بی اور کھیلوں کی دوسری متعلقہ تنظیموں کا ہے کہ وہ کھلاڑی کا سلیکشن کرنے سے قابل کھلاڑی سے اس بات کا حلف نامہ حاصل کرے کہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک کی شہریت اس کے پاس نہیں ہے ۔سول سرونٹس کی دہری شہریت پر پابندی ضرور لگائی جائے اصولی طور پر یہ درست اقدام ہے مگر یہ پابندی سب پر لگائی جانی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں