پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ، ناکام سیاسی حکمت عملی کی قلعی کھل گئی
شیئر کریں
(تجزیہ)پی ڈی ایم کے لاہور جلسے نے اپوزیشن کے گیارہ جماعتی اتحاد کی ناکام سیاسی حکمت عملی کی قلعی کھول دی۔صرف تقاریر سے اپوزیشن تحریک کا جادو جگائے رکھنے کو اب تک کامیابی سمجھنے کا تاثر لاہور جلسے میں بھک سے اڑ گیا۔ پی ڈی ایم اپنی تحریک میں لاہور کے آخری جلسے میں مستقبل کا واضح لائحہ عمل دینے میں مکمل ناکام رہی۔ جلسے سے لانگ مارچ کا اعلان تو کیا گیا مگر تاریخ نہیں دی جا سکی۔ اسی طرح لاہور جلسے میںا ستعفیٰ مہم کا زور بھی تقریباً ٹوٹ گیا۔ سیاسی تجزیہ کار پی ڈی ایم تحریک کے آخری جلسے کے طور پر مینارِ پاکستان کے جلسے کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے تھے۔ کیونکہ پی ڈی ایم تحریک کے جلسوں کی سیریز کا یہ آخری جلسہ تھا، جس کے بعد تحریک کو اگلے مرحلے میں داخل ہونا تھا۔ ثانیاً یہ جلسہ لاہور میں منعقد کیا گیا تھا جو نوازلیگ کی طاقت کا حقیقی مرکز ہے ۔ یہی جماعت اپوزیشن میں سب سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ مخالف اور عمران مخالف ہے ۔ اور موجود بندوبست میں سب سے بڑی ہدف ہے ۔ ان دونوں پہلوؤں پر توجہ رکھتے ہوئے لاہور جلسے کو پی ڈی ایم تحریک کا سب سے زیادہ خطرناک پڑاؤ سمجھا جارہا تھا۔ اور یہاں آخری جلسے کے بعد اپوزیشن کو زیادہ طاقت ور دکھائی دینا چاہئے تھا۔ مگر لاہور جلسہ ایسا کوئی تاثر جمانے میں ناکام رہا۔ سب سے بڑی ناکامی یہ رہی کہ پی ڈی ایم اس جلسے سے اگلا کوئی روڈ میپ نہیں دے سکی۔ جلسے کے اختتام پر یہاں سے جانے والے کارکنان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ پی ڈی ایم کا اگلا لائحہ عمل کیا ہے ؟پی ڈی ایم کو کم ازکم لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنا چاہئے تھا، جو نہ ہوسکا۔ مولانا فضل الرحمان نے صرف اتنا کہا کہ لانگ مارچ جنوری کی آخری تاریخوں یا فروری کے ابتدائی دنوں میں ہوگا۔ عوامی رجحانات تحریک میں واضح سمت سے تشکیل پاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ لانگ مارچ کی واضح تاریخ نہیں دی گئی بلکہ استعفیٰ مہم کا زور بھی یہ کہہ کر توڑ دیا کہ جب لانگ مارچ ہو گا تو استعفے ہماری جیبوں میں ہوں گے ۔ اس طرح لانگ مارچ کو تاریخ سے محروم رکھا گیا اور استعفوں کو لانگ مارچ کی آڑ دے دی گئی۔لاہور جلسے میں مستقبل کے لائحہ عمل سے محروم تقاریر سے یہ بات بالائے فہم رہی کہ پی ڈی ایم آخر چاہتی کیا ہے؟ یہ امر تو واضح ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس اب مستقبل میں سوائے لانگ مارچ یا دھرنے کے علاوہ اب کوئی سیاسی آپشن باقی نہیں رہ گیا۔ مگرجنوری کے آخری ایام اور فروری کے پہلے ہفتے میں لانگ مارچ کا ابہام اس کے باوجود رکھا گیا کہ یہ سخت ترین سردی کے ناقابل برداشت موسم کے ایام ہوں گے۔ جس میں سیاسی کارکنوں کو جھونکا جائے گا۔ ا س حوالے سے یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم کی کچھ جماعتیں استعفوں کی مانند لانگ مارچ کے فیصلے پر بھی یکسو نہیں ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو لاہور جلسے نے حکومت کے خلاف کوئی واضح نقشہ پیش کرنے کے بجائے ابہام میں اضافہ ہی کیا ہے۔