میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
”اسدی حکومت شہریوں کو بھی دہشت گردسمجھتی ہے“شامی استاد

”اسدی حکومت شہریوں کو بھی دہشت گردسمجھتی ہے“شامی استاد

منتظم
بدھ, ۱۴ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ہمیں آزادی اور سماجی انصاف چاہیے،مرتے دم تک حلب نہیں چھوڑیں گے ، محصورشہریوں کی گفتگو
حکومت نے انسانی بنیادوں پر راستوں کے بارے میں جھوٹ بولا،انگریزی کے لیکچرار عبدالکافی
بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا جارہا تھا کہ لوگ اب بھی یہاں کیوں قیام پذیر ہیں، چنانچہ بعض میڈیاذرائع نے حلب کے رہائشیوں سے فیس بک اور وٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ۔حلب شام کا صنعتی مرکز تھا اور جنگ سے قبل اس کی آبادی تقریبا 20 لاکھ تھی۔10 لاکھ کے قریب افراد مغربی حصے میں رہتے جو نسبتا محفوظ علاقہ ہے۔محمد کا کہنا تھا کہ ‘کچھ لوگ محاصرے سے پہلے نکل گئے تھے۔ اب کوئی بھی نہیں نکل سکتا۔جو افراد مشرقی حصے میں پھنسے ہوئے ہیں وہ تشویش ناک حالات میں رہ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ سٹیفن او برین نے حال ہی میں اس علاقے کو ‘وحشت کا عروج قرار دیا تھا۔خوراک اور ایندھن ختم ہورہا ہے اور بنیادی انفراسٹرکچر اور صحت کی سہولیات معدوم ہوچکی ہیں۔باغیوں نے جوابی کارروائی کے طور پر مغربی حصے پر بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں وہاں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں، لیکن کم پیمانے پر۔حلب میں پھنسے شہریوں نے علاقہ نہ چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ ہمیں یہ بتائی کہ وہ یہاں پھنس چکے ہیں۔حلب میں یونیورسٹی کے 31 سالہ استاد محمد کا کہنا تھا کہ ‘کچھ لوگ محاصرے سے پہلے نکل گئے تھے۔ اب کوئی بھی نہیں نکل سکتا۔ڈاکٹر اسامہ ان 30 ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جو مشرقی حلب میں ڈھائی لاکھ افراد کا علاج معالجہ کرتے ہیں۔لوگ اپنے فون کا استعمال انتہائی احتیاط کے ساتھ کرتے ہیں کیونکہ فون کی بیٹری چارج کرنے کے لیے صرف چند گھنٹے کے لیے بجلی آتی ہے تاہم وہ باہر کی دنیا کے ساتھ رابطے میں ہیں۔32 سالہ ڈاکٹر اسامہ ان 30 ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جو مشرقی حلب میں ڈھائی لاکھ افراد کا علاج معالجہ کرتے ہیں۔ وہ صورتحال کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ‘شہر مکمل طور پر محاصرے میں ہے۔نہ خوراک، نہ بجلی، نہ صاف پانی، نہ حلب سے باہر جانے کا راستہ۔ عمومی صورتحال بہت خطرناک ہے۔ کسی بھی لمحے آپ بمباری یاا سنائپرز کا نشانہ بن سکتے ہیں۔26 سالہ فاطمہ ایک استانی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں بالکل توقع نہیں تھی کہ محاصرہ ہوجائے گا۔وہ کہتی ہیں: ‘میرا تمام خاندان تین سال پہلے یہاں سے نکل گیا اور مصر اور ترکی چلا گیا۔ میں یہیں رکی رہی کیونکہ میں حلب یونیورسٹی میں اپنی قانون کی تعلیم مکمل کرنا چاہتی تھی۔ہم تصور نہیں کرسکتے تھے کہ ہم محصور ہوجائیں گے۔ ہم نے سوچا نہیںتھا کہ حکومت ایسا کرے گی۔ محاصرے سے پہلے یہاں خوراک اور ادویات تھیں اور ہم بمباری کے عادی ہوچکے تھے۔ بمباری اب مزید خطرناک ہے۔خیال رہے کہ شامی حکومت اور اس کے اتحادی روس نے شہریوں کے انخلا کے لیے مختصر مدت کے ‘انسانی بنیادوں پر راستے کھولے تھے۔ تاہم مشرقی حصے کے شہری محفوظ انخلا کے بارے میں بھی سوال اٹھاتے ہیں۔یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد عبدالکافی کہتے ہیں: ‘حکومت نے انسانی بنیادوں پر راستوں کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔وہ کہتے ہیںاگرآپ اپنے خاندان کے ساتھ ہیں، اور ایک ڈاکو آتا ہے اور آپ کے بیٹے اور بیٹی کا قتل کر دیتا ہے اور پھر دس دن کے بعد وہ کہتا ہے ‘آﺅ اور ہمارے گھر مہمان بنو ‘، تو کیا آپ اس کا اعتبار کریں گے؟ان کاکہنا ہے کہ صدر اسد اور روسیوں نے عام شہریوں کا ہلاک کیا اور اب وہ کہتے ہیں’ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ہم واپس جانے کے بجائے پتے کھانے کو ترجیح دیں گے۔ عبدالکافی حلب میں تین سال سے قیام پذیر ہیں۔ حکومت کی مخالفت سے قبل وہ کسی دوسرے شہر میں لیکچرار تھے۔ وہ صدر اسد کے خلاف مظاہروں میں بھی شریک رہے تھے۔وہ کہتے ہیں: ‘مجھ پر الزام عائد کیا گیا اور میں بھاگ کر حلب آگیا۔ اسد کی حکومت ہم سب کو دہشت گرد سمجھتی ہے۔ ہم اپنا دفاع کرتے ہوئے مر جائیں گے۔ میں جنگجو نہیں ہوں لیکن میں لڑتے ہوئے مروں گا۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ لوگوں کے علاقہ نہ چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت غریب ہیں۔وہ کہتی ہیں ان کے پاس کسی دوسری جگہ گھر کے کرائے کے لیے یا خوراک خریدنے کے لیے یا پھر شام چھوڑ کر ترکی یا کسی دوسرے ملک جانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
ہم نے جس سے بھی بات کی انھوں نے حلب چھوڑنے سے انکار کیا۔فاطمہ کہتی ہیں: ”حلب میری زندگی اور میرا ملک ہے۔ میں اسے کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔یہاں کے لوگ عام شہری ہیں۔ وہ جنگجو نہیں ہیں۔ وہ حکومت سے آزادی چاہتے ہیں۔“اسماعیل امدادی تنظیم وائٹ ہیلمٹس کے رضا کار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی حلب نہیں چھوڑیں گے۔وہ کہتے ہیں ”میں اس لیے رکا ہوا ہوں کیونکہ یہ میری سرزمین ہے اور میرا شہر ہے۔ یہ میرا گھر ہے۔ ‘اسماعیل کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ ایک ماہ میں روٹی اور ایندھن ختم ہوجائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ محاصرے کا خاتمہ ہوگا۔ لیکن ہم روٹی یا خوراک نہیں مانگ رہے ہمیں آزادی اور سماجی انصاف چاہیے۔ڈاکٹر اسامہ کہتے ہیں: ‘بہت سارے لوگ حلب چھوڑنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیں گے۔اگر ہم حلب سے باہر گئے تو ہم اپنا گھر کھو دیں گے اور ہمارا گھر ہماری زندگی ہے اور حکومت اور روسی جیت جائیں گے۔ہم نے عبدالکافی کا اس وقت انٹرویو کیا جب وہ بچوں کو انگریزی پڑھا رہے تھے۔ انھوں نے اپنی کلاس کے ایک بچے حماد سے پوچھا کہ کیا وہ حلب چھوڑ کر جائیں گے۔حماد نے جواب دیانہیں، میں بالکل نہیں جاﺅں گا۔میں یہیں رہتا ہوں اور میں یہیں رہوں گا۔ یہ میری سرزمین ہے۔عبدالکافی کی آٹھ ماہ کی بیٹی ہے اور دوسرے لوگوں کی طرح عبدالکافی کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ حلب میں ہی رہیں گے۔وہ کہتے ہیں: ‘خطرہ ہر جگہ ہے لیکن آزادی ہر جگہ نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ‘وہ بچے جو ہلاک ہوئے ان کا خون ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ جو لوگ تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں وہ ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ آزاد ہونا زمین پر کسی بھی چیز سے زیادہ قیمتی ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں