پی ٹی آئی کی پارلیمان میں واپسی
شیئر کریں
عمران خان حقیقی حزب اختلاف کے لیے کوشاں مگر تحریک انصاف کے رہنما مفادات کے اسیر
٭تحریک انصاف کے اراکین اپنے پارلیمانی کردار کو ادا کرنے سے مسلسل قاصر رہے، اکثر اراکین اپنی مدت پوری کرنے کے خواہشمند
انوار حسین حقی
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے دو روز قبل اپنی پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد اپنے اراکین ِ قومی اسمبلی کے قومی اسمبلی میں جانے کا اعلان کرکے ایک مرتبہ پھر سیاسی ماحول میں ارتعاش پیدا کر دیاتھا ۔ عمران خان کے اس سیاسی فیصلے کو بھی اکثریت نے ان کا ایک نیا یوٹرن قرار دیا ہے۔یہ دوسرا موقع ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ ختم کیا ہے ۔ اس سے پہلے دو سال قبل دھرنے کے موقع پر قومی اسمبلی سے استعفیٰ دےنے اور بائیکاٹ کرنے کے ایک طویل عرصے کے بعد پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے رجوع کیا تھا ۔ اس مرتبہ پاناما لیکس کے معاملے پر قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا گیا تھا جسے گزشتہ روز ختم کر دیا گیا ۔ عمران خان کی جانب سے اس حوالے سے اختیار کیے گئے موقف کے مطابق ان کے ارکانِ قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق لا رہے ہیں جس میں پارلمنٹ کے سامنے غلط بیانی کرنے کی پادا ش میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا محاسبہ کر نے کا مطالبہ موجود ہے ۔ عمران خان کا کہناتھا کہ قومی اسمبلی میں جانے اور متذکرہ موضوع پر تحاریکِ التواءاور تحاریک استحقاق پیش کرنے کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ قومی اسمبلی اپنے آزاد ہونے کا ثبوت کس حد تک دے پاتی ہے ۔ عمران خان کے اس نئے فیصلے کو ان کی سیاسی حکمت عملی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی حکومت مخالف تحریک چلائے جانے کے اعلانات کے تواتر اور تسلسل میں تیزی آنے لگی ہے ۔ عمران خان حکومت کو مشکلات سے دوچار کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم کا بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے سپریم کورٹ میں زیر سماعت پاناما معاملہ جنوری تک ملتوی ہونے کی وجہ سے عمران خان اس ایشو کو ٹھنڈا نہیں ہونے دینا چاہتے ۔ اس معاملے پر انہوں نے دسمبر میں ملک گیر جلسوں کے انعقاد پر بھی غور کیا تھا لیکن شدید موسمی حالات اور سپریم کورٹ میں معاملے کے زیر سماعت ہونے کی وجہ سے جلسے اور احتجاجی ریلیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر جنگ لڑ نے کا ایک عبور ی فیصلہ کیا گیا ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے اس نئے فیصلے پر بھی ملے جُلے ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن ان کے اس فیصلے کے سیاسی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ۔ عمران خان حقیقی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنے میں جس قدر سنجیدہ ہیں ان کی پارٹی کی صف ِ اول کی قیادت کی اکثریت اُسی قدر اپنے اپنے مفادات کی اسیر نظر آتی ہے ۔ عمران خان کے پرانے ساتھیوں کی جگہ جب سے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی نے لی ہے عمران کے خان مشن کو شوگر کوٹٹد بنا دیا گیا ہے ۔ ان رہنماوں کے خلاف خود پارٹی کے اندر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔پار لیمنٹ کے بائیکاٹ ، اس کی رکنیت اور افادیت کے بارے میں عمران خان کے نظریئے اور خیالات کے بارے میں ان کی پارٹی کی کور کمیٹی کے بیشتر ارکان خاص کر ان کے ایم این اے حضرات مختلف نکتہ نظر کے حامی ہیں۔ اکثر ارکان ِ قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا یہ المیہ بھی ہے کہ یہ عمران خان کی اُمنگوں کے مطابق اپنا پارلیمانی کردار ادا کر نے سے بھی قاصر رہے ہیں ۔ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی اور پارٹی کے بہی خواہ قومی اسمبلی میں واپسی کا وہ منظر کبھی بھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی کے فلور پر عمران خان کو مخاطب کرکے پارلیمانی آداب اور اندازِ تخاطب سے تجاوز کرتے ہوئے تحقیر آمیز رویہ اپنایا تھا اور پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی پر سکوت طاری رہا تھا۔ پارلیمنٹ کے آزاد ہونے کے حوالے سے عمران خان ایک حجت تمام کرنا چاہتے ہیں لیکن مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت عمران خان کی توقعات کے پورا ہونے کے بارے میں زیادہ پُراُمید نہیں ہیں ۔ تاہم غیر جانبدار مبصرین پاناما ایشو پر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے قومی اسمبلی میں ایک سے زائد موقف اختیار کرنے کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی کردار اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی کے کردار کا جائزہ لینا چاہتے ہیں ۔
٭٭٭