میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عالمی کساد بازاری سے نمٹنے کے لیے کیا ہم تیار ہیں؟

عالمی کساد بازاری سے نمٹنے کے لیے کیا ہم تیار ہیں؟

ویب ڈیسک
پیر, ۱۴ نومبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

 

مہنگائی ، افراطِ زر، یا Inflationجدید معاشیات کی ایک اہم ترین اصطلاح ہے۔ماہرین معاشیات روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراط زر کہتے ہیں،جبکہ عام افراد قیمتوں کے بڑھتے رجحان کو سادہ ترین الفاظ میں مہنگائی قرار دے دیتے ہیں ۔یاد رہے کہ کسی بھی ملک ،خطے یا علاقے میں افراط ِزر، میں مسلسل اضافہ کا رجحان شدیدمہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے اور جب مہنگائی ، افراطِ زر، انفلیشن کی لہر پوری دنیا کو بیک وقت اپنی لپیٹ میں لے لے تو اُسے عالمی کساد بازاری کے عنوان سے پکارا جاتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی ہم سب کو ایک ہی طرح سے متاثر کرتی ہے ۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ زیادہ آمدنی رکھنے والے افراد کے مقابلہ میں کم آمدنی والے افراد مہنگائی سے کہیں زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ بالکل اسی معاشی اُصول کے مصداق عالمی کساد بازاری کے دور میں امیر ممالک کے مقابلے میں کم آمدنی رکھنے والے ممالک زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔
اس وقت کورونا وائرس اور یوکرین جنگ کے باعث تما م دنیا کو مہنگائی کا سامنا ہے اور رواں برس عالمی معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ معاشی سکڑاؤ کا شکار ہواہے۔ شاید یہ ہی وجہ کہ کرہ ارض پر موجود ہر انسان اپنی اپنی جگہ مہنگائی کا رونا رو رہا ہے۔ مگر سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ حالیہ چند برسوں میں ہم نے جس مہنگائی کا سامنا کیا ہے ،وہ تو بس ایک ٹریلر تھا۔یعنی مہنگائی کی اصل بلاک بسٹر فلم آئندہ برس سے ریلیز ہونے والی ہے۔ جی ہاں! بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) نے خبردار کیا ہے کہ ’’ مہنگائی کے بدترین حالات تو ابھی آنے ہیں اور دنیا کے اکثر ممالک کے لیے2023 کساد بازاری یعنی سخت مہنگائی کا سال ثابت ہوگا۔ خاص طور پر دنیا کی تین بڑی معیشتیں امریکہ ،یورپی یونین اور چین کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاؤٹیں برقرار رہیں گی اور مذکورہ ممالک کی معیشت سکڑنے کا براہ راست ساری دنیا پر خطرناک مہنگائی کی صورت میں پڑے گا‘‘۔
واضح رہے کہ سال 1970 کے بعد سے دنیا کو صرف تین مرتبہ ہی جزوی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔پہلی بار جب 1973 میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے مغربی ممالک کو تیل کی ترسیل مکمل طور پر بند کردی تھی تو تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث دنیا کے اکثر ممالک کو افراطِ زر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔دوسری بار 1981 میں اچانک مہنگائی نے وقتی طور پر ہی سہی بہرحال بے شمار ممالک کی معاشی ترقی پر روک لگادی تھی۔جبکہ تیسری بار 2008 کے معاشی بحران نے بھی عالمی معیشت کے قدم لڑکھڑادیئے تھے۔ لیکن جس طرح کی مہنگائی کا سامنا اِس وقت دنیا بھر کو درپیش ہے ، اُس کی ماضی میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ دراصل ماضی میں عالمی معیشت ،کساد بازاری کی زد پر صرف کچھ ممالک میں چند ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک برس کے لیئے ہی رہی تھی ۔ مگر اِس وقت جس عالمی کساد بازاری نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ، اُس کے اختتام کے بارے میں معاشی ماہرین بھی کوئی پیش گوئی کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں ۔
حالیہ عالمی کساد بازاری کس قدر خطرناک اور شدید ہے ،اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگالیںکہ توانائی کے بڑھتے بحران، معیار زندگی میں انحطاط اور ہوشربا مہنگائی کی نئی لہر نے سارے یورپ کو شدید انداز میں متاثر کیا ہے۔ یورپی عوام ا س بات پر ناراض ہیں کہ ان کی حکومتیں یوکرین بحران میں روس پر پابندی لگانے میں امریکا کی پیروی کر رہی ہیں لیکن اصل میں وہ اپنے ہی عوام کیخلاف معاشی جنگ چھیڑ رہی ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں کئی یورپی ممالک میں عوام کی بڑی تعداد نے احتجاجی مظاہرے کیے اور اپنی اپنی حکومتوں سے نیٹو کی رکنیت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ہونے والے فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شریک اکثر مظاہرین ’’نیٹو کو چھوڑ دو‘‘ ’’ سب سے پہلے ہمارا ملک‘‘ کے نعرے بھی لگاتے ہوئے دکھائی دیئے۔ نیزمظاہرین نے احتجاجی بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر ’’مزاحمت‘‘ اور ’’فریگزٹ‘‘ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ’’ فریگزٹ ‘‘برطانوی بریگزٹ کی طرز پر لگایا جانے والا نعرہ ہے جس کا مطلب ہے فرانس یورپی ملکوں کے اتحاد (یورپی یونین) سے نکل جائے۔ بعض سروے رپورٹس کے مطابق، مظاہرین کے مطابق، نیٹو یورپی یونین کو جنگ میں دھکیل کر معاشی خلل پیدا کر رہا ہے۔ جبکہ جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) پارٹی کے شریک رہنما نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ روس کیخلاف پابندیاں عائد کرکے اپنے ہی عوام کے خلاف جنگ چھیڑ رہی ہے۔ دراصل یورپی ممالک آنے والے مہینوں میں سخت سردی کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع بگڑ رہا ہے جبکہ نورڈ اسٹریم پائپ لائنز کو سبوتاژ کیے جانے کے واقعے کے بعد سے توانائی کا بحران بھی بڑھ چکا ہے۔ جبکہ عالمی کساد بازاری کے بُرے حالات میں امریکا بھی یورپی یونین کی امداد پر آمادہ دکھائی نہیں دینا۔
بعض اطلاعات کے مطابق امریکا اپنے آپ کو بڑے معاشی بحران سے بچانے کے لیے ایندھن کی قیمتیں بڑھا رہا ہے ،جس کی وجہ سے یورپ کی معیشت ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کمزور ہورہی ہے اور مینوفیکچرنگ کی صنعتیں یورپ میں اپنا کاروبار بند کرکے دیگر ممالک میں منتقل ہورہی ہیں۔ جرمنی میں ہوشربامہنگائی کے باعث بڑھتی ہوئی غربت سے متوسط طبقے کی زندگی مشکل ہو گئی ہے۔ فوڈ بینکوں کے آگے مجبور ہونے والے شہریوں کی تعداد بھی حد سے تجاوز کر گئی۔ ملک بھر میں فوڈ بینکوں کے صارفین کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہے اور بہت سے ضرورت مندوں تک غذائی امداد نہیں پہنچ پا رہی۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے جرمن شہریوں کے پاس اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے متبادل ذرائع بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔ فوڈ بینکوں سے رجوع کرنے والے ضرورت مندوں کو وہاں سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑ رہا ہے۔ فوڈ بینکوں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ’’ جب تک پہلے والے اپنی رکنیت منسوخ نہیں کریں گے وہ نئے افراد کو رجسٹرڈ کرکے غذا فراہم نہیں کرسکتے‘‘۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمنی میں ایک کروڑ 38لاکھ افراد خط غربت کے قریب یا اس سے نیچے پہنچ چکے ہیں،جب کہ بعض معاشی ماہرین اس تعداد میں بہت زیادہ اضافے کی پیش گوئی بھی کررہے ہیں۔جرمن شہریوں کے پاس آسمان سے باتیں کرتے اخراجات کے لیے مالیاتی وسائل موجود نہیں ہیں۔ فوڈ بینکوں کی خراب ہوتی صورت حال کی ایک وجہ یوکرین پر روس کا حملہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس کے باعث معیشت پر پڑنے والے اثرات بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ دنیا بھر کی طرح طرح یورپی ملک جرمنی بھی مہنگائی سے شدید متاثر ہوا ہے۔ جرمنی میں مہنگائی 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ دنیا بھر میں جاری مہنگائی کی حالیہ لہر نے یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کو شدیدمتاثر کیا ہے۔جرمنی کے ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 7 اعشاریہ 4فیصد ہے، یہ شرح جرمنی کے دوبارہ متحد ہونے کے بعد بعد سے لے کر اب تک سب سے زیادہ ریکارڈ کی جانے والے اعدادوشمار ہیں۔
دوسری جانب اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب برطانیہ میں بھی مہنگائی 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔بینک آف انگلینڈ نے خبردار کیا ہے کہ اس سال مہنگائی 13 فیصد تک پہنچ سکتی ہے جو 1980 کے بعد ملک میں مہنگائی میں بُلند ترین سطح ہوگی۔برطانیہ میں کساد بازاری کا آغاز ہو چکا ہے ، جو 2023 کے آخر تک جاری رہ سکتی ہے۔اس وقت برطانوی عوام قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے سخت پریشان ہیں اور برطانوی شہریوں کو زندگی کی روزمرہ ضروریات پوری کرنے میں سخت مشکلات پیش آرہی ہیں ،کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے کثیر تعداد میں ملازمتیں ختم ہورہی ہیں جبکہ جو ملازمتیں باقی ہیں اُن کی اجرتوں میں بھی ریکارڈ کمی ہورہی ہے۔یاد رہے کہ ملکی معیشت کی اسی خراب ہوتی صورتحال کے باعث ہی برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اپنے عہدے سے فارغ ہوئے تھے، نیز اُن کی پیشرو وزیراعظم لزٹرس بھی صرف 46 روز بعد ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئیں ۔ جبکہ نئے برطانوی وزیراعظم رشی سانک کب تک اپنے عہدہ پر براجمان رہتے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ کیونکہ جو مہنگائی پچھلے دو وزیراعظم کی قربانی لے چکی ہے ، اُسی مہنگائی کا رشی سانک بھی شکار ہوسکتے ہیں ۔
حیران کن با ت یہ ہے کہ عالمی سپر پاور ملک امریکا بھی عالمی کساد بازاری کی زد پر ہے اور امریکا میں بھی مہنگائی کی شرح 4 دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔جو 1982 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔یوایس لیبر کی ایک رپورٹ کے مطابق گھروں کے کرایوں میں ایک سال کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ہوا اور وہ ایک تہائی بڑھ چکے ہیں۔ٹرانسپورٹیشن سروسز کی قیمتوں میں ایک ماہ کے دوران 1.9 فیصد اضافہ ہوا جبکہ طبی خدمات کی قیمتوں میں بھی ایک فیصد اضافہ ہوا ہے۔ملک بھر میں مہنگائی کی شرح 40 سال میں سب سے زیادہ ہونے کے بعد امریکی فیڈرل ریزرو بنک نے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے شرح سود میں ایک مرتبہ پھر بڑا اضافہ کردیا گیا ہے۔
حالیہ عالمی کساد بازاری 1929 کے معاشی بحران سے ملتی جلتی ہے۔جس کو تاریخ میں عظیم کساد بازاری (Great Depression) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس بحران نے امیر اور غریب سبھی کو یکساں طور پر متاثر کیا تھا۔ تب بھی صنعتیں بند ہو گئی تھیں۔ سرمایہ کاروں کا سرمایہ ڈوب گیا تھا۔ پوری دنیا میں بیروزگاری کی شرح 33 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی اور برطانیا میں تیس لاکھ، جرمنی میں ساٹھ لاکھ اور امریکہ میں ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد بیروزگار ہو گئے تھے۔مذکورہ معاشی ابتری کی وجہ سے عالمی تجارت کا مجموعی حجم 50 فیصد سے زیادہ کم ہو گیا تھا۔ اشیائے خورونوش کی گرانی، حالات کی بے یقینی اور لگاتار پریشانیوں نے تمام ملکوں کے عوام کو مشکلات میں مبتلا کر دیا تھا اس بحران کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ 1932تک امریکہ میں موجود ہر قابل ذکر بینک بند ہو چکا تھا۔
فی الحال ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اس بحران سے نمٹنے اور اس کے اثرات سے نکلنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے۔ سب سے پہلے تو روس یوکرین جنگ فوری طور پر بند کرائی جائے۔ بعدازاں دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں کو مل کر سوچنا چاہئے کہ جاری عالمی کساد بازاری سے نکلنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔کیونکہ بڑی معاشی طاقتوں کو عالمی کساد بازاری سے خود کو ہی نہیں بچانا بلکہ اقتصادی لحاظ سے چھوٹے ممالک کو بچانا بھی بڑی اقتصادی طاقتوں کی اوّلین ذمہ داری ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں