میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حدیبیہ پیپلزملز ریفرنس، سپریم کورٹ کا بنچ ٹوٹ گیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا سماعت سے انکار

حدیبیہ پیپلزملز ریفرنس، سپریم کورٹ کا بنچ ٹوٹ گیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا سماعت سے انکار

ویب ڈیسک
منگل, ۱۴ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں)سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت سے معذرت کرلی۔ تفصیلات کے مطابق پیر کو حدیبیہ پیپرز ملزریفرنس کی سماعت کے دور ان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے معذرت کے بعد حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ رجسٹرار آفس کی غلطی سے یہ کیس ان کے پاس لگ گیا، شاید رجسٹرار آفس نے ان کا پاناما فیصلہ نہیں پڑھا۔انہوںنے کہاکہ میں نے پاناما کیس سے متعلق 20 اپریل کے فیصلے میں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس پر14 پیراگراف لکھے، جس میں نیب کو اس ریفرنس کو کھولنے کا حکم دیا تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ رجسٹرار آفس کو کیس ہمارے بینچ کے سامنے نہیں لگانا چاہیے تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پاناما کیس میں چیئرمین نیب کو بھی بلایا گیا تھا ٗباقی ججزکے فیصلوں کے متعلق میں کچھ نہیں کہوں گا، تاہم میں نے اپنے فیصلے میں حدیبیہ کیس سے متعلق 14 پیراگراف لکھے ہیں، اسحاق ڈار کی حد تک بھی میں فیصلہ دے چکا ہوں، اسحاق ڈار پہلے ملزم تھے پھر وعدہ معاف گواہ بن گئے، میں نے پاناما کیس کے اپنے فیصلے میں اسحاق ڈار کے خلاف نیب کو کارروائی کا بھی کہا تھا۔دوسری جانب نیب پراسیکوٹر نے استدعا کی کہ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے رواں ماہ 10 نومبر کو قومی احتساب بیورو کی اپیل پر شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت کے لیے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔بینچ کا سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو مقرر کیا گیا تھا، جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر خیل عالم میاں خیل شامل تھے۔خیال رہے کہ حدیبیہ پیپرز ملز شریف خاندان نے 1992میں کمپنی آرڈیننس 1984کے تحت قائم کی تھی حدیبیہ پیپرز کے سات ڈائریکٹرز تھے جن میں میاں محمد شریف میاں شہباز شریف عباس شریف حمزہ شہباز شریف حسین نواز شریف صبیحہ عباس اور شمیم اختر شامل ہیں ،جبکہ کمپنی آرڈیننس کے تحت اس مل کا 30جون 1998میں آڈٹ ہونا تھا۔کمپنی کے دو ڈائریکٹرز میاں عباس شریف اور صبیحہ عباس کے دستخط کردہ سال 1998کی بیلنس شیٹ آڈٹ کے لیے پیش کی گئی بیلنس شیٹ میں 61کروڑ 22لاکھ روپے کی اضافی رقم شیئر ڈپازٹ کی مد میں پیش کی گئی تھی، جبکہ اس رقم سے قبل بھی 3کروڑ روپے بیلنس شیٹ میں موجود تھی جس کی کوئی وضاحت شریف خاندان کے پاس نہیں تھی دونوں رقوم کو ملا کر کل رقم 64کروڑ 27لاکھ روپے بنتی ہے اسی بیلنس شیٹ میں التوفیق سے سرمایہ کاری کے لیے قرضے اور پھر لندن میں مقدمے کا بھی انکشاف ہوا جس کی تفصیلات آڈیٹر کو فراہم نہیں کی گئیں، یہ معاملہ ڈائریکٹر جنرل ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ایف آئی اے کو بھیجا گیا،مذکورہ معاملے کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی جانے والی رقم کو فارن ایکوٹی انویسٹمنٹ کے طور پر قانونی ظاہر کیا گیا، مذکورہ رقوم غیر ملکی اکاونٹس سے بھجوائی جاتی رہیں، جبکہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کے لیے غیر ملکی بے نامی اکاونٹس کھولے اور انہوں نے قاضی خاندان کو دھوکا دے کر ان کے نام پر رقوم بیرون ملک منتقل کیںغیر ملکی جعلی اکاؤنٹس صدیقہ سید سکندرہ مسعود قاضی کاشف مسعود قاضی اور طلعت مسعود قاضی کے ناموں سے 1992میں کھلوائے گئے تھے، جبکہ مذکورہ خاندان کو ان اکاؤنٹس کا علم ہی نہ تھا۔خیال رہے کہ اس کیس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اور نواز شریف کے دست راست اسحاق ڈار نے عدالت کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا اور نہ صرف مذکورہ بالا چار اکاؤنٹس کھلوائے، بلکہ کئی دیگر اکاؤنٹس بھی کھلوائے جن میں اسحاق ڈار کے قریبی ساتھی نواز شریف کے ملازمین اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کے اکاؤنٹس بھی شامل ہیں اور اس سارے عمل میں نیشنل بینک کے صدر کا منی لانڈرنگ میں تعاون رہا،نیب کے ریفرنس کے مطابق ان اکاؤنٹس کو کھلوانے کا مقصد 1992ActReformsEconomicofProtectionکے تحت کالا دھن سفید کرنا تھا، جبکہ اسحاق ڈار نے 90کی دہائی میں 1ارب سے زائد کی منی لانڈرنگ کی، تاہم وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں