گڑ چینی اور شوگر
شیئر کریں
گڑ نہ دے گڑ کی سی بات کہہ دے، میٹھے بول میں جادو ہے، میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو، چلو کچھ میٹھا ہو جائے۔ چینی یا شکر ہے کہ ہمارے محاوروں تک میں رچی بسی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں میٹھا کھانا پسند کیا جاتا ہے لیکن چینی کے اس بے تحاشہ استعمال کا سائڈ افیکٹ بھی ہے یعنی ملک میں شوگر یا ذیابیطس کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔صرف پاکستان ہی نہیں شوگر کا مرض دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے ، اسی لیے اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال چودہ نومبر کو ذیابطیس سے آگاہی کے دن کے طور پر منایا جاتاہے۔ پاکستان میں اس مرض کے حوالے سے حقائق خاصے تشویش ناک ہیں۔ ذیابیطس کے حوالے سے کیے جانے والے قومی سروے 16-2017 کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 26 فیصد حصہ ذیابیطس کا شکار ہے۔اِس سروے کے مطابق ملک کی آبادی میں 20 سال کی عمر سے زیادہ کے ساڑھے تین کروڑ سے پونے چار کروڑ افراد اِس مرض کا شکار ہیں۔ پہلے ماہرین کا خیال تھا کہ سنہ 2040 تک یہ تعداد 15 سے 20 فیصد تک پہنچ سکتی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد پاکستان میں آبادی کے 26 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس سروے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ سروے میں شریک تقریبا 19 فیصد سے زیادہ لوگوں کو شک تھا کہ وہ اِس مرض کا شکار ہیں جبکہ سات فیصد سے زیادہ ایسے تھے جنھیں پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں ان لوگوں میں سروے کے دوران کرائے جانے والے ٹیسٹ کے ذریعے اِس مرض کی تشخیص ہوئی۔ عام طور پر لوگ شوگر کے مرض سے آگاہ نہیں ہو پاتے، احتیاط اور علاج نہ ہونے سے مرض بڑھتا جاتا ہے اور آخر کار مریض امید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی خاموش علامات کے بارے میں جانا جائے جو آپ کو اس مرض میں مبتلا ہونے کی صورت میں باخبر کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
۔1،معمول سے زیادہ پیاس لگنا۔۔
بہت زیادہ پیشاب کرنے کے نتیجے میں پیاس بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے اور ذیابیطس کے مریض افراد اگر جوسز، کولڈ ڈرنکس یا دودھ وغیرہ کے ذریعے اپنی پیاس کو بجھانے کی خواہش میں مبتلا ہوجائیں تو یہ خطرے کی علامت ہوسکتی ہے۔ یہ میٹھے مشروبات خون میں شکر کی مقدار کو اور بڑھا دیتے ہیں۔
۔2،ٹوائلٹ کا زیادہ رخ کرنا۔۔
جب آپ ذیابیطس کا شکار ہوجائیں تو آپ کا جسم خوراک کو شوگر میں تبدیل کرنے میں زیادہ بہتر کام نہیں کرپاتا۔ خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور جسم اسے پیشاب کے راستے باہر نکالنے لگتا ہے، یعنی ٹوائلٹ کا رخ زیادہ کرنا پڑتا ہے۔رات کو جب ایک یا دو بار ٹوائلٹ کا رخ کرنا تو معمول سمجھا جاسکتا ہے تاہم یہ تعداد بڑھنے لگے اور آپ کی نیند پر اثرات مرتب ہونے لگیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۔3،جسمانی وزن میں کمی۔۔۔
وزن میں اضافہ ذیابیطس کے لیے خطرے کی علامت قرار دی جاتی ہے تاہم وزن میں کمی آنا بھی اس مرض کی ایک علامت ہوسکتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق جسمانی وزن میں کمی دو وجوہات کی بناء پر ہوتی ہے، ایک تو جسم میں پانی کی کمی ہونا (پیشاب زیادہ آنے کی وجہ سے) اور دوسری خون میں موجود شوگر میں پائے جانے والی کیلیوریز کا جسم میں جذب نہ ہونا۔
۔4،کمزوری اور بھوک کا احساس۔
ذیابیطس کے مریضوں کو اچانک ہی بھوک کا احساس ستانے لگتا ہے اور ان کے اندر فوری طور پر زیادہ کاربوہائیڈیٹ سے بھرپور غذا کی خواہش پیدا ہونے لگتی ہے۔ بی ماہرین کے مطابق جب کسی فرد کا بلڈ شوگر لیول بہت زیادہ ہوا تو جسم کے لیے گلوکوز کو ریگولیٹ کرنا مسئلہ بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں جب آپ کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور غذا استعمال کرتے ہیں تو مریض کا جسم میں انسولین کی مقدار بڑھ جاتی ہے جبکہ گلوکوز کی سطح فوری طور پر گرجاتی ہے جس کے نتیجے میں کمزوری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور آپ کے اندر چینی کے استعمال کی خواہش پیدا ہونے لگتی ہے اور یہ چکر مسلسل چلتا رہتا ہے۔
۔5،ہر وقت تھکاوٹ۔
کام کی زیادتی سے تھکاوٹ تو ہر شخص کو ہی ہوتی ہے مگر ہر وقت اس کا طاری رہنا ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی اہم علامت ہوسکتی ہے۔ ذیابیطس کا شکار ہونے کی صورت میں خوراک جسم میں توانائی بڑھانے میں ناکام رہتی ہے اور ضرورت کے مطابق توانائی نہ ہونے سے تھکاوٹ کا احساس اور سستی طاری رہتی ہے۔
۔6،پل پل مزاج بدلنا یا چڑچڑا پن۔
جب آپ کا بلڈ شوگر کنٹرول سے باہر ہوتا ہے تو آپ کو کچھ بھی اچھا محسوس نہیں ہوتا، ایسی صورت میں مریض کے اندر چڑچڑے پن یا اچانک غصے میں آجانے کا امکان ہوتا ہے۔ درحقیقت ہائی بلڈ شوگر ڈپریشن جیسی علامات کو ظاہر کرتا ہے، یعنی تھکاوٹ، ارگرد کچھ بھی اچھا نہ لگنا، باہر نکلنے سے گریز اور ہر وقت سوتے رہنے کی خواہش وغیرہ۔ ایسی صورتحال میں ڈپریشن کی جگہ سب سے پہلے ذیابیطس کا ٹیسٹ کرالینا زیادہ بہتر ثابت ہوتا ہے۔
۔7،بینائی میں دھندلاہٹ۔
شوگر کی ابتدائی سطح پر آنکھوں کے لینز منظر پر پوری طرح فوکس نہیں کرپاتے کیونکہ آنکھوں میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں عارضی طور پر اس کی ساخت بدل جاتی ہے۔ چھ سے آٹھ ہفتے میں جب مریض کا بلڈ شوگر لیول مستحکم ہوجاتا ہے تو دھندلا نظر آنا ختم ہوجاتا ہے کیونکہ آنکھیں جسمانی حالت سے مطابقت پیدا کرلیتی ہیں اور ایسی صورت میں ذیابیطس کا چیک اپ کروانا ضروری ہوتا ہے۔
۔8،زخم یا خراشوں کا دیر سے بھرنا۔زخموں کو بھرنے میں مدد دینے والا دفاعی نظام بلڈ شوگر لیول بڑھنے کی صورت میں موثر طریقے سے کام نہیں کرپاتا جس کے نتیجے میں زخم یا خراشیں معمول سے زیادہ عرصے میں اچھے ہوتے ہیں اور یہ بھی ذیابیطس کی ایک بڑی علامت ہے۔
۔9،پیروں میں جھنجھناہٹ۔
قبل بلڈ شوگر میں اضافہ جسمانی پیچیدگیوں کو بڑھا دیتا ہے۔اعصابی نظام کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس کے نتیجے میں آپ کے پیروں کو جھنجھناہٹ یا سن ہونے کا احساس معمول سے زیادہ ہونے لگتا ہے جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
۔10،مثانے کی شکایات۔۔
پیشاب میں شکر کی زیادہ مقدار بیکٹریا کی افزائش نسل کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں مثانے کے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بار بار انفیکشن کا سامنے آنا فکرمندی کی علامت ہوسکتی ہے اور اس صورت میں ذیابیطس کا ٹیسٹ لازمی کرالینا چاہئے۔۔
یہ تو ہو گئیں وہ دس علامات جن میں کسی ایک یا زیادہ کی موجودگی میں آپ کو فوری طور پر شوگر کا ٹیسٹ کروا لینا چاہیے اور ڈاکٹر کے مشورے پر پرہیز اور علاج شروع کردینا چاہیے۔ ذیابیطس کے حوالے سے ماہرین نے ایک اور اہم بات بھی دریافت کی ہے۔ ذیابیطس کے مرض میں صرف شکر ہی نہیں بلکہ نمک بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔امریکی طبی جریدے سیل میٹابولزم میں شائع تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خوراک کے حوالے سے آسان تدابیر کا سہارا لینا مثلا ایک ہی وقت میں نمک اور شکر کا کم استعمال ٹائپ ٹو ذیابیطس سے حفاظت کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اپنے کھانے پینے کی عادات کو کنٹرول کرکے اور مناسب جسمانی ورزش کرکے ہم شوگر پر قابو پا سکتے ہیں اور شوگر میں مبتلا لوگ بھی کھانے پینے کی عادات اور اپنا طرز زندگی تبدیل کرکے اس مرض کے ساتھ ایک اچھی زندگی جی سکتے ہیں۔