بلوچستان میں مخدوش امن اور خون کی ہولی
شیئر کریں
صوبائی محکمہ صحت کے جنگی بنیادوں پر اقدامات کب نظر آئیں گے ؟؟
تحریر : میر اعظم بلوچ
درگاہ شاہ نورانی سانحے نے ایک بار پھر صحت اور علاج و معالجے کے حوالے سے حکمرانوں اور وزیر صحت رحمت صالح بلوچ کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔ 3 سال سے وزارت صحت کا قلمدان رحمت صالح بلوچ کے پاس ہے ۔آخر جنگی بنیادوں پر اختیار کی جانے والی پالیسیوں کے مثبت ثمرات کب عوام تک پہنچیں گے ۔ کوئٹہ کراچی آر سی ڈی ہائی وے کے قریب جہاں درگاہ شاہ نورانی کا واقعہ پیش آیا۔ 750 کلومیٹرز طویل شاہراہ پر ایک بھی ٹراما سینٹر خراب سے خراب حالت میں بھی موجود نہیں ۔ آج اقتصادی راہداری کا مغربی روٹ اس ہی راستے سے گزرنا ہے تو وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ٹراما سینٹر کا خیال آگیا کیونکہ سی پیک روٹ کو کامیاب بنانا ہے ۔ یہ راہداری بھی پارلیمنٹیرین اور حکمران طبقہ کے مفاد میں ہے اور اگر ٹراما سینٹر بنائے بھی گئے تو روٹ پر سفر کرنے والے تجارتی قافلوں کیلئے ، عوام تو 70 سال سے انتظار کرکر کے بے گورو کفن شاہ نورانی درگاہ کے دھماکے کی نذر ہوگئے جہاں دھماکے کے بعد زخمیوں کو طبی امداد کیلئے ریسکیو سروس دستیاب نہ تھیں نہ ہی بروقت اسپتال منتقل کرنے کیلئے ایمبولینس۔ آخر زخمیوں کو منتقل کیا گیا بھی تو کراچی ۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ صوبے کے سرحدی اور دور دراز علاقوں میں کیا لوگ بیمار بھی نہیں ہوتے ۔ اگردارالحکومت کوئٹہ اور شمالی بلوچستان کے علاقوں سے لوگ علاج کیلئے کراچی ، ڈیرہ بگٹی ، کوہلو اور نصیرآباد ڈویژن سے جیکب آباد اور بارکھان لورالائی سے ڈیرہ غازی خان جانے پر مجبور ہیں تو پھر ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ مکران کے عوام خاص طورپر جو تفتان ، مند ، تمپ ، جیونی ، گوادر ، اورمارا اور پسنی میں رہتے ہیں ان کو بلا تاخیر علاج معالجے کیلئے ایران جانے کی اجازت مرحمت کی جائے ۔
بلوچستان میں بے دردی سے انسانوں کے قتل و خون کا بازار گرم ہے ۔ حکمران طبقہ صرف لفاظی اور باتوں تک محدود ہے ۔ سانحہ 8 اگست نے پہلے پوری قوم کو سوگوار کردیا ، پھر پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گرد حملہ میں 60 سے زائد نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کیا جانا ۔اوراب درگاہ شاہ نورانی پر حملہ میںایک مرتبہ پھر 70 کے قریب بے گناہ انسانوں کی ہلاکت نے لاکھوں لوگوں کو مزیدسوگوار کردیا ۔
سال 2016 ءکے دوران گزشتہ روز پیش آنے والے درگاہ شاہ نورانی کے سانحہ تک 4 مرتبہ دہشت گرد اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوئے ۔ شاہ نورانی میں حکومتی دعوﺅں کے مطابق بھی دہشت گرد حملہ میں مارے جانے والے بے گنا ہ 50 سے کم نہ تھے ۔بلوچستان میں سال 2016 ءکے دوران درگاہ شاہ نورانی دھماکا تک 400 سے زائد افراد دہشتگرد حملوں میں مارے گئے ۔ 202 افراد مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ۔ کبھی ہم پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کے جنازے اٹھاتے رہے، کبھی فرقہ واریت کے نام پر بلوچستان کی روایت کے برخلاف غیر انسانی دشمن کے ہاتھوں ماری جانے والی خواتین کی میتیں ۔
تواتر کے ساتھ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز باقی نہیںرہی ۔ تمام تر دعوے من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی تھے ۔ حکمران طبقہ کو ایوان کے اجلاسوں میں شرکت کرنے ، وی آئی پی پروٹوکول کے مزے لینے ،قومی وسائل کولوٹنے اور غیر ملکی دوروں سے فرصت نہیں کہ اہم قومی مسئلہ پر توجہ دی جائے ۔ اربوں روپے سیکورٹی کے نام پر خرچ کرنے کے بعد بھی کوئی ذی شعور کراچی سے کوئٹہ تک سفر کرکے دیکھ سکتا ہے کہ آر سی ڈ ی شاہراہ پر جگہ جگہ چیک پوسٹوں کی شکل میں سخت سیکورٹی کی موجود گی میں بھی سلیمانی ٹوپی پہنے دہشت گرد کس طرح اپنا ٹارگٹ پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ عوام سیکورٹی کے نام پر لئے جانے والے ٹیکس آخر کس مقصد کیلئے دیتی ہے ۔ بلوچستان میں زندگی کس قدر ارزاں ہے یہ بلوچستان کے روزانہ کے اخبار ات کو پڑھ کراور بلوچستان میں سیکورٹی نگہبان ایف سی کی پریس ریلیزوں سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ کہیں سیکورٹی کے نام پر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ، گھر گھر تلاشی ، اور لاپتاافراد کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ تو ہوتا جارہا ہے ۔ لیکن سیکورٹی تاحال ایک سوال ہے ۔
حکمران سانحہ سول اسپتال 8 اگست کے بعد اگر اپنے حقیقی دشمن کو پہچان کر سیکورٹی پالیسی کو درست سمت میں مرتب کرتے تو یقینا پولیس ٹریننگ سینٹر حملہ جیسے واقعات رونما نہیں ہوتے ۔ اگر پولیس ٹریننگ سینٹر حملہ اور کوئٹہ میں 4 ہزارہ خواتین کی بس میں ٹارگٹ کلنگ اور پیدل گشتی ایف سی اہلکاروں کی ٹیم پر حملہ کے بعد سیکورٹی انتظامات کو نئے سرے سے ترتیب دیا جاتا تو آج ہم ایک بار پھر درگاہ شاہ نورانی کے سوگ میں نہ بیٹھے ہوتے ۔