کھسیانی بلی کھمبا نوچے....کشمیر یوں کی جدوجہد آزادی سے نمٹنے میں ناکامی ‘بھارت پاکستانی دیہات کو اندھا دھند نشانہ بنانے لگا
شیئر کریں
رواں سال بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر 222مرتبہ بلااشتعال فائرنگ کرچکاہے، آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے درجنوں دیہات بھارت کی وحشیانہ گولہ باری کی زد میں ہیں
بھارت سیز فائر معاہدہ کی مسلسل خلاف ورزیوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے جہاں روزانہ کشمیری نوجوانوں کی لاشیں گر رہی ہیں
ایچ اے نقوی
بھارت کی جانب سے فائر بندی کی مبینہ خلاف ورزی کے نتیجے میں اب تک کم وبیش 26 پاکستانی شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ بھارت نے رواں سال متنازع علاقے کشمیر میں عارضی حد بندی (لائن آف کنٹرول) اور ورکنگ باﺅنڈری پر فائر بندی کی 222 مرتبہ خلاف ورزی کی ہے اور بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے درجنوں شہری ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔ وزارت خارجہ کی طرف سے اسلام آباد میں ڈپٹی بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے ان سے کنٹرول لائن اور سیز فائرلائن آف کنٹرول پر بھارتی فورسز کی "بلا اشتعال“ فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کرایا جانا ایک معمول بن گیاہے۔تازہ واقعے میں بھارتی فوج نے ایل او سی کے بھمبر سیکٹر پر بلا اشتعال فائرنگ کی ،جس کے نتیجے میں 7 فوجی اہلکار جاں بحق ہوگئے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے جنوبی ایشیا اور سارک نے بھارتی سفارتکار پر زور دیا کہ بھارت 2003کے فائربندی معاہدے کا احترام کرے، ان خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے اور بھارتی فورسز کو ہدایت کی جائے کہ وہ شہری آبادی کو نشانہ بنانا بند کرے اور لائن آف کنٹرول پر امن کو برقرار رکھے۔بیان کے مطابق رواں سال اب تک لائن آف کنٹرول پر 184 مرتبہ اور ورکنگ باو¿نڈری پر 38 مرتبہ بھارت کی جانب سے فائر بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی گئی جس کے نتیجے میں اب تک 26 شہری ہلاک اور 107 زخمی ہو چکے ہیں۔
بھارت کی طرف سے اس بیان پر تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن فائربندی معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام دونوں ہمسایہ ملک ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں۔بھارت بھی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی فورسز کی فائرنگ میں ا±س کی جانب بھی نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ سرحد کے قریب علاقوں میں آباد لوگوں کو نقل مکانی بھی کرنی پڑی۔حالیہ مہینوں میں فائرنگ کے تبادلے کے واقعات میں تسلسل دیکھا جا رہا ہے جب کہ ان دنوں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات حالیہ برسوں میں کشیدگی کی بلند ترین سطح پر ہیں۔
جموں و کشمیر کی جنگ بندی لائن اور سیالکوٹ سیکٹر میں پاکستان کے ساتھ ورکنگ باﺅنڈری پر بھارت نے جو اشتعال انگیز کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں ان میںگزشتہ کچھ دنوں سے غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے اور صورت حال محض یکم جنوری 1949کے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی نہیں بلکہ باقاعدہ حالت جنگ کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے درجنوں دیہات اس وقت بھارت کی وحشیانہ فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں سے ہزاروں دیہاتی نقل مکانی کر کے محفوظ علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور مقامی انتظامیہ کو واضح پالیسی نہ ہونے کے باعث ان کی دیکھ بھال اور بحالی کے کٹھن کام میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ گزشتہ روز کنٹرول لائن پر ایک درجن سے زیادہ دیہات پر بھارتی فوج نے مشین گنوں اور دوسرے ہتھیاروں سے فائرنگ اور گولہ باری کی جس سے ایک پولیس اہلکار سمیت تین افراد شہید، 25 سے زائد زخمی، متعدد مویشی ہلاک اور کئی مکان تباہ ہو گئے۔ بھارتی دعوے کے مطابق پاک فوج کی جوابی کارروائی سے دو بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے ،پاک فوج کو بھارتی توپیں خاموش کرنے کے لیے بھارتی مورچوںکو جوابی حملوں کا نشانہ بنانے پر مجبور ہوناپڑتاہے جبکہ بھارتی فوج بے دریغ سول آبادی پر حملے کر رہی ہے جس سے انسانی زندگی کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً چار ماہ سے جاری تحریک آزادی کے نئے مرحلے پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو کر بھارت پاکستان کے خلاف باقاعدہ محاذ کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس حوالے سے اس نے نہ صرف دیگر ملکوں کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کے وفود کے باہمی تبادلوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے بلکہ دنیا بھر سے ہر قسم کے اسلحہ کی خریداری میں بھی مصروف ہے۔ اس کے پاس پہلے سے موجود ہتھیاروں کے انبار کیا کم تھے کہ گزشتہ روزوزیر دفاع منوہر پاریکر کی زیر صدارت وزارت دفاع کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں 82 ہزار کروڑ روپے کے مزید جدید ترین جنگی طیاروں، ٹینکوں، راکٹوں اور ڈرون جہازوں کی خریداری کی منظوری دی گئی ہے جو اس کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون کا پتہ دیتی ہے۔
اس سلسلے میںبھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کا یہ کہنا درست ہے کہ پاک بھارت تعلقات اس وقت موجودہ دہائی کے عرصے میں سب سے زیادہ تناﺅ کا شکار ہیںاور پاکستان کے خلاف بھارتی لیڈروں کے زہر آلود بیانات سے اس تناﺅ میں مزید اضافہ ہوا ہے،جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے تو پاکستان کشمیر سمیت تمام مسائل پر نتیجہ خیز مذاکرات کا خواہاں ہے اور وہ ہر عالمی فورم پر اس کا برملا اظہار بھی کرتارہا ہے۔خطے کی دھماکا خیز صورتحال کا تقاضہ ہے کہ بھارتی رہنما بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریںاور پاکستان کی جانب سے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی پیشکش یادعوت کا مثبت جواب دیں۔ بھارت سیز فائر معاہدہ کی مسلسل خلاف ورزیوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے جہاں روزانہ کشمیری نوجوانوں کی لاشیں گر رہی ہیں۔ گزشتہ 103روز سے مقبوضہ وادی میں معمولات زندگی کرفیو کی وجہ سے معطل اور دکانیں ، تعلیمی و کاروباری ادارے اور دفاتر مکمل طور پر بند ہیں۔ پیر کو ضلع شوپیاں کے محاصرے اور تلاشی کے دوران ایک نوجوان صدام میر کی شہادت بھارتی فوج کے ظلم و جبر کی تازہ کارروائی ہے۔ قابض فوج پر مجاہدین کے حملے میں ایک کشمیری مجاہد وسیم شہید ہو گیا کرفیو کے باوجود ہزاروں افراد نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی، جلوس نکالا اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ پاکستان اگرچہ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورت حال اور کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر بھارت کی جارحانہ کارروائیوں سے عالمی برادری کو مسلسل آگاہ کر رہا ہے لیکن اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں نے بھارت کو روکنے کے لیے اب تک کوئی عملی اقدامات نہیں کیے ۔ایسے حالات میں قوم کو جس کی توجہ زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کی باہمی چپقلشوں کی طرف منعطف ہے ،ملکی سلامتی کو لاحق خطرات سے خبردار اور ان کے مقابلے کے لیے متحد اور چوکس رہنا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو بھی تنازع کشمیر سمیت دو ہمسایہ جوہری طاقتوں کے تنازعات کے پرامن حل پر توجہ دینی چاہیے تا کہ عالمی امن کے لیے پیدا ہونے والے خطرات ٹل جائیں۔