سنگین ترین اخلاقی وروحانی بحران
شیئر کریں
احمد اعوان
موصوف کافی بے شرم واقع ہوئے تھے۔ بہت سوچ بیچار کے بعدان الفاظ سے زیادہ نرم الفاظ میرے ذہن میں سابق گورنرکے لیے نہیںآرہے تھے، کراچی کانوحہ جب بھی لکھاجائے گاسابق گورنرہمیشہ یاد کیے جائینگے۔سابق گورنرصاحب کے سینے میںبے پناہ رازہیںجوان کے ساتھ ہی دفن ہوجائینگے کیونکہ اس شعر کی تشریح کہ
شریک جرم نہ ہوتے تومخبری کرتے
صرف گورنری کرسکتے ہیں،وہ 14برس سندھ کے گورنررہے اور14برسوںمیں کوئی قابل قدر اور صدیوں دورکی بات سالوںاچھے الفاظ میں یاد رکھے جانے کے لائق کام کرکے نہیںگئے۔ سوائے مشرف کی والدہ صاحبہ کوکراچی سے اڑکراسلام آباد جاکرغزلیںسنانے کے، اکثرجب مشرف کی والدہ صاحبہ بورہواکرتی تھیںتوسابق گورنراورعامرلیاقت اسلام آباد روانہ ہواکرتے تھے جہاںوہ محترمہ کادل بہلانے کے لیے غزلوںکے علاوہ کئی کرتب کرتے تھے۔البتہ برے کام توموصوف کے اتنے ہیںکہ کتاب مرتب کی جاسکتی ہے ،اپنے قائد کے ہر گندے اوربرے کام کامحرم اورمجرم تھایہ شخص ،ایک مرتبہ موصوفCPLC میں ایک نئے پروجیکٹ کا افتتاح کرنے گئے جس میںشہریوں کاکرائم ریکارڈ جمع کرنامقصود تھا۔جیسے ہی گورنرنے افتتاح کیااس کے بعدپہلاشناختی کارڈ نمبرگورنرکاڈالاگیاتو3 ایف آئی آرکی نشاندہی سامنے آگئی (ان دنوںاخبارات میں یہ چیزبہت گردش کرتی رہی تھی )۔سندھ میڈیکل کالج سابق گورنرسے زیادہ، شائد ہی کوئی فرد پاس آﺅٹ ہواہوجس پریہ کالج اتنی شرمندگی اورندامت کاسامنا کرے گا،اس وقت جب کبھی یہ شہرمکمل آزاد ہوکر اپنی تاریخ لکھے گا۔حیرت ہے کہ موصوف جاتے ہوئے فرماگئے کہ مجھے فیصلے کاعلم T.Vسے ہوا، انتہائی ڈھیٹ شخص تھے ورنہ جس روزمصطفی کمال میاں مٹھوبن کے مخصوص بولی بول رہے تھے اسی روز انہیں سمجھناچاہیے تھا کہ دیوارپرکیالکھاہے؟وہ تو اتنا عرصہ اداروںکے ساتھ زبردست رابطوںمیں رہے توایسے میں وہ یہ اشارہ نہیںسمجھے ؟اگراسی روز استعفیٰ دے دیتے توشائد کچھ کم بے عزت ہوتے، اورکمال کی بات کی نہال ہاشمی صاحب نے کہ آج گورنرہاﺅس سے ایم کیوایم کی بدمعاشی کی آخری نشانی بھی مٹادی گئی۔ حالانکہ نشانی مٹائی نہیںگئی ، نشانی والے صفحے کوپلٹ دیاگیاہے۔مٹائی جاتی تو موصوف گورنرہاﺅس سے شہدائے حق قبرستان جاتے، سابق گورنرنے جاتے ہوئے کہا کہ اگرکسی کومجھ سے کوئی شکایت ہوتومجھے معاف کردے ،کاش وہاںکوئی گورنرسے کہتاکہ جن کوتم سے اورتمہارے روحانی باپ اوربھائی الطاف سے شکایت ہے وہ لوگ توسخی حسن قبرستان ،پاپوش قبرستان،میوہ شاہ، نیو کراچی چھ نمبرقبرستان ،عیسیٰ نگری قبرستان اورشہرکے دیگر قبرستانوں میں سورہے ہیں۔معافی مانگنی ہے تو وہاں جاکر مانگو ۔اور کیا کمال کی شخصیت کاانتخاب کیاہے ،میرے صوبے کے لیے وفاق نے ؟ایک ایسے شخص کو گورنر بنایا ہے جوعدلیہ کی تاریخ کابدترین چیف جسٹس رہا۔ موصوف دنیاکے( میری ناقص معلومات کے مطابق )واحد جسٹس تھے جنہوںنے سپریم کورٹ کاجسٹس ہوتے ہوئے خود اپنے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کومعزول کردیاتھا۔دنیامیںابھی تک اس قسم کے واقعے کی مثال پیش کرنے سے دیگرممالک قاصر رہے ہیں۔ نومبر1998ءکی سردراتوںمیں جسٹس ناصراسلم زاہد نے کوئٹہ کے سرکاری مہمان خانے میں رات گئے ایک اجنبی شخص ملک اسدعلی کی درخواست پرچیف جسٹس سجاد علی شاہ کوبحیثیت چیف جسٹس کام کرنے سے روکنے کاحکم جاری کیااورجسٹس سعیدالزماںصدیقی نے پشاورمیںعدالتی قواعد و ضوابط کوپامال کرتے ہوئے ،کوئٹہ بینچ کے فیصلے کی توثیق کردی۔ تاریخ میں جسٹس ارشاد حسن خان، سعید الزماں صدیقی، ناصر اسلم زاہد نے آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنے فیصلے دیے۔ یہی نہیںبلکہ سعید الزماں صدیقی نے 27 نومبر 1998ءکو فیکس پیغام کے ذریعے جسٹس اجمل میاں کو عدالت کے انتظامی امور سنبھالنے کا حکم جاری کیا۔موصوف نے آئین میں عدالت کے جج کوہٹانے کے طریقہ کار کوطاقت کے بل پرروندتے ہوئے خودہی چیف جسٹس کوہٹانے کا اختیار حاصل کرکے اجمل میاںکوچیف جسٹس آف پاکستان مقررکرنے کااعلان کردیا تھا۔ سعید الزماں اور ان کے دیگر ساتھیوںنے آئین کی دفعہ 180,178,176اور(A)148کے ایک ایک حرف کوپامال کیاتھا۔جسٹس سعیدالزماںکے ساتھ جوکچھ ہوا تھاوہ مکافات عمل کانتیجہ تھا۔ موصوف نے اعلی ترین عدلیہ کے قابل احترام ادارے میں بیٹھ کر”سالے بدمعاش“جیسے الفاظ استعمال کیے تھے جوتاریخ کاحصہ ہیںمگرافسوس صدافسوس کہ ہماری یاداشت بہت کمزور ہے۔جسٹس سعید الزماں صدیقی نے نوازشریف صاحب کے لیے جوکچھ کیا تھا اورجوقربانی دی تھی اس کا کم سے کم صلہ صدرکی کرسی تھا مگر میاں صاحب نے ہمیشہ تب سعید الزماں کا نام صدر کے امیدوارکے لیے دیاجب یقین تھا کہ سعید الزماں صدر نہیںبن سکیں گے جب موقع تھا تب ممنون حسین صاحب کو صدر نامزد کردیا۔ آج سے تقریبا2سال قبل میں موجودہ گورنر صاحب سے ان کے گھرواقع DHAمیں ملاتھاتب موصوف صحت کے سنگین مسائل سے دوچارتھے اور اپنی کوٹھی میں اوپروالی منزل پراپنادفتر رکھا ہوا تھا۔ میں نے اورمیرے ساتھ موجودایک خاتون سماجی رہنماءنے ان سے ایک نیک کام کی سرپرستی کے لیے درخواست کی توموصوف نے فرمایاتھاکہ مجھے تو معلوم نہیں میں کتنے رفاہی اداروں اور NGO’s کا سربراہ ہوں،لوگ آتے ہیں، بتاتے ہیںکہ ہم نے آپ کواپنے ادارے کا سربراہ بنالیامیں کہتا ہوں اچھا میاں، اب میں کوئی مزید ذمہ داری نہیں لے سکتا میری صحت اب اس قابل نہیں۔حیرت ہے اب موصوف نے گورنرجیسی مصروف ذمہ داری لرزتی ٹانگوں اورکانپتے ہاتھوںسے اٹھالی ۔بعض صاحب رائے اشخاص کاخیال ہے کہ اخلاقی طورپرکسی چیف جسٹس آف پاکستان کویہ عہدہ قبول نہیںکرناچاہیے کیونکہ اتنے بڑے عہدے پررہنے کے بعدیہ عہدہ ان کے شایان شان نہیں ہے۔ مگر کیا جائے آج ملک میں صرف ایک بحران ہے اوروہ صرف اورصرف اخلاقی اورروحانی بحران ہے۔