بابا صدیقی کا قتل اوربی جے پی کاکھوکھلا دعویٰ
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ بڑی شان سے غنڈہ گردی کے خاتمہ کا دعویٰ کرتے ہیں مگر آئے دن یوپی اور ملک میں پیش آنے والے جرائم کے واقعات اس کی پول کھول دیتے ہیں۔ ممبئی شہر کے اندر 66 سالہ ضیاء الدین عرف بابا صدیقی کا تعلق ریاست میں برسرِ اقتدار نیشنل کانگریس پارٹی کے اجیت پوار دھڑے سے تھا۔ وہ باندرا(مغربی) سے تین بار رکن اسمبلی اور صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ صدیقی کا سلمان خان سے قریبی تعلق تھا۔ لارنس بشنوئی نے نہ صرف سلمان خان کو دھمکیاں دی تھیں بلکہ ان کے گھر پر فائرنگ بھی کی تھی۔ بشنوئی کے ساتھی روہت گودارا نے کہا تھا کہ سلمان خان کاہر دوست ہے ان کا دشمن ہے ۔ اس کے باوجود یہ قتل ڈبل انجن سرکار میں مجرموں کے بلند حوصلوں کاثبوت ہے ۔ ان کے دل سے سزا کا خوف اورفڈنویس کے تحت کام کرنے والی پولیس کی دھاک نکل گئی ہے ۔
مرحوم بابا صدیقی اپنے رکن اسمبلی بیٹے کے ساتھ کھیرواڑی سے ایک ساتھ گھر جانے جانے والے تھے لیکن اچانک ذیشان صدیقی کو کوئی فون آ گیا اور وہ دفتر سے باہر آئے اس دوران 5 منٹ کے اندر بابا صدیقی کا قتل ہو گیا۔ ذیشان صدیقی کو 15 روز قبل دھمکی ملنے کے بعد وائی کیٹیگری کی سیکیورٹی دی گئی تھی۔ممبئی پولیس کی کرائم برانچ کے مطابق گزشتہ 25-30 دنوں سے اس علاقے کی ریکی کر نے کے بعد آٹو رکشا سے باندرہ ایسٹ میں آئے اور 9.15 سے 9.20 کے درمیان کھلے عام ان پر گولی چلادی ۔ پولیس نے اس الزام میں ہریانہ کے کرنیل سنگھ اوراترپردیش کے دھرم راج کشیپ کو گرفتار کرلیا ۔ ان کا سرغنہ گجرات کی جیل میں ہے اور قتل مہاراشٹر کی سرزمین پر ہوا ہے ۔ ان چاروں صوبوں میں ڈبل انجن سرکار ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال جرائم کے دھندے کو ڈبل انجن لگا ہوا ہے اور وہ بولیٹ ٹرین کی رفتار سے پھل پھول رہا ہے ۔
بابا صدیقی اور سلمان خان کے درمیان لارنس بشنوئی مشترک ہے ۔ وہ فی الحال درجنوں مجرمانہ مقدمات کے تحت مودی اور شاہ کی جنم بھومی گجرات کی ایک جیل میں مقید ہے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق بشنوئی گینگ میں 700 سے زیادہ شوٹرز ہیں جو ملک بھر میں قتل و غارتگری جیسے جرائم کرتے ہیں ۔ آدرش گجرات کی جیل میں بیٹھ کر بشنوئی تاوان وصولی کا سامراج چلا رہا ہے اس لیے یہ تحقیق کا موضوع ہے کہ اس میں بی جے پی کا کتنا کمیشن ہوگا؟کیونکہ چتور بنیا کی ڈبل انجن سرکار سے یہ توقع تو ناممکن ہے کہ وہ لارنس بشنوئی کو مفت میں جیل سے کاروبار کرنے کی سہولت فراہم کررہی ہوگی ۔ بشنوئی گینگ کی جانب سے سلمان خان کو ملنے والی دھمکیوں کا سلسلہ گذشتہ سال شروع ہوا۔سلمان کے والد اور معروف منظر نگار سلیم خان کو صبح چہل قدمی کے دوران ہندی زبان میں لکھی ایک پرچی ملی تھی ۔ اس کے اندر درج تھا کہ ‘جلد ہی سلمان خان کا وہی حال ہو گا جو سدھو موسے والا کا ہوا ہے’ ۔بشنوئی گروہ فخر سے مشہورپنجابی گلوکارسدھو موسے والا کے قتل کا اعتراف کرتا ہے ۔ سلیم خان نے باندرہ کے پولیس تھانے میں رپورٹ درج کرائی تھی ۔ امسال اپریل میں سلمان خان کے گھر پر فائرنگ کرنے والے وکی گپتا اور ساگر پال کو گجرات سے گرفتار کیا گیا ۔ ان کا آبائی وطن بہارکا چمپارن ضلع ہے ۔ اتفاق سے وہاں بھی بی جے پی کی ڈبل ا نجن سرکار ہے لیکن وہ دہلی سے متصل ہریانہ کے گروگرام میں رہتے تھے ۔ فائرنگ کے بعد وہ گجرات کے شہر سورت فرار ہوکر گئے اور بھوج سے گرفتار ہوئے ۔ اس حملے میں اسی طرح کی پستول استعمال کی گئی تھی کہ جس سے بابا صدیقی کا قتل ہوا۔ ان میں سے ایک نے مبینہ طور پرجیل میں خودکشی کرلی ۔یہ واقعی خود کشی تھی یا کوئی راز چھپانے کی سازش ،یہ پتہ لگانا ضروری ہے ۔اس کے دو ماہ بعد جون میں پنویل پولیس نے سلمان خان کو قتل کرنے کے ا یک اور منصوبے کو ناکام بنا یا۔ اس معاملے میں چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن کا تعلق لارنس بشنوئی گینگ سے تھا۔ وہ لوگ پنویل میں سلمان خان کی گاڑی پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق پولیس گجرات جیل میں بند لارنس بشنوئی نے کینیڈا میں مقیم اپنے ام زاد بھائی انمول بشنوئی اور ساتھی گولڈی برار کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایک اسلحہ ڈیلر سے اے کے -47، ایم-16 اور اے کے -92 جیسے جدید ترین ہتھیار حاصل کرکے سلمان خان کو قتل کرنے کی سازش رچی تھی۔ پولیس نے اس وقت اعتراف کیا تھا کہ لارنس بشنوئی گینگ ممبئی میں فلمی اداکاروں پر حملہ کر کے بھتہ لینے کی کوشش کر رہا ہے ۔
نوی ممبئی کی پولیس نے اس معاملے میں دھننجے سنگھ، گورو بھاٹیہ، وصفی خان اور ذیشان خان کو گرفتار کیا تھا ۔ پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 115، 120(بی) اور 506 (2)کے تحت ایف آئی آر درج کرکے لارنس بشنوئی، انمول بشنوئی، سمپت نہرا، گولڈی برار، اجے کشیپ عرف دھننجے تاپے سنگھ، راکی شوٹر، ستیش کمار، سکھا شوٹر، سندیپ بشنوئی عرف گورو بھاٹیہ، روہت گودھرا، وسیم چینا، ڈوگر، سنتو کمار، وشال کمار، سندیپ سنگھ، ریاض عرف چندو، کملیش شاہ اور دیگر کو ملزم تو بنادیا مگر بشنوئی گروہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ ماہِ جون میں گولڈی برار نے فون پر ایک انٹرویو میں گولڈی نے انڈیا ٹوڈے سے کہا تھا کہ سلمان خان ان کی ‘ہٹ لسٹ پر ہیں اور وہ انھیں ضرور ماریں گے ‘۔انڈیا ٹو ڈے سے پوچھے جانے پر کہ کیا اس نے تین بار سلمان خان کو مارنے کے لیے لڑکے بھیجے تو گولڈی برار نے بلا خوف و خطرجواب دیا ‘وہ اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔’ مرکزی و ریاستی سرکار اگران دھمکیوں پر معقول کارروائی کرتی تو بابا صدیقی کا قتل نہ ہوتا۔
مرحوم بابا صدیقی تمام عمر کانگریس میں رہے مگر چند ماہ قبل انہوں نے برسرِ اقتدار این سی پی (اجیت پوار) میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ ان کے قتل کی واردات پر ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے لکھا، "مجھے یہ جان کر صدمہ پہنچا ہے کہ اس واقعے میں ان کی موت ہو گئی ہے ۔ میں نے ایک اچھے دوست اور ساتھی کو کھو دیا ہے ۔” ریاست کا نظم ونسق وزیر داخلہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس ( جن کے پاس وزارتِ داخلہ کا قلمدان بھی ہے ) نے لیلاوتی اسپتال جاکر اس واقعہ کا جائزہ لیا۔ حزب اختلاف نے حکومت کو نشانہ پرلیا ۔ کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے افسوس کا اظہار کرنے کے بعد مہاراشٹر حکومت پر مجرموں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا ۔ وہ بولے اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مہاراشٹر میں خواتین اور عام لوگوں کے علاوہ بابا صدیقی جیسے لیڈر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ رکن پارلیمان سپریا سولے نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ’ یہ چونکا دینے والی خبر ہے ۔ بابا صدیقی نہیں رہے ۔ انہیں گولی مار کر ہلاک کر
دیا گیا۔ یہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے ۔ ممبئی میں حکمران حکومتی اتحاد کا کوئی رکن اگر اپنے ہی بیٹے کے دفتر میں محفوظ نہ ہو اور اسے قتل کر دیا جائے ، تویہ مہاراشٹر میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں بہت کچھ بولتا ہے ۔’شیوسینا (یو بی ٹی) کے ترجمان آنند دوبے نے سوال کیا کہ’ اگر ہمارے شہر ممبئی میں سابق رکن اسمبلی محفوظ نہیں ہیں اور حکومت اپنے رکن اسمبلی اور سابق وزراء کو محفوظ نہیں رکھ سکتی وہ عام لوگوں کی حفاظت کیسے کرے گی؟ اس لیے وزیر داخلہ دیویندر فڈنویس کو وزیر داخلہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے ۔ ایکناتھ شندے کو ریاست کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہنے کا بھی حق نہیں ہے ۔ ممبئی کی سڑکوں پر دن دیہاڑے فائرنگ کا ہونا، تین راؤنڈ فائراور لوگوں کو گولی ماراجانا، کیا یہ امن و امان ہے ؟ مجرموں کو کوئی خوف نہیں۔ مہایوتی اور بی جے پی کی پالیسیوں نے سیاست کو بدنام کیا ہے ۔’
مہاراشٹر کے بزرگ سیاستداں شرد پوار نے ایکس پر ایک پوسٹ میں ریاست کے اندرلا اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتحال تشویش کااظہارکیا۔ انہوں نے لکھا’ ممبئی میں سابق وزیر مملکت بابا صدیقی پر فائرنگ افسوسناک ہے ۔ اس کی نہ صرف تحقیقات ہونی چاہیے بلکہ حکومت کو ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عہدہ چھوڑنا چاہیے ۔ بابا صدیقی کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت۔ ان کے اہل خانہ سے تعزیت’۔ اقتدار کی بھوکی بی جے پی کے اندر اخلاقی ذمہ داری قبول کرکے استعفیٰ دینے کا رواج سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ اس لیے یہ مطالبہ صدا بہ صحرا ثابت ہوگا۔
ایوانِ پارلیمان میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پر لکھا، "بابا صدیقی جی کا انتقال باعثِ صدمہ اور افسوس ہے ۔ اس مشکل وقت میں ان کے اہل خانہ سے تعزیت کرتا ہوں ۔ یہ ہولناک واقعہ امن و امان کے مکمل تباہی کی علامت ہے ۔ حکومت کو ذمہ داری لینی چاہئے اور انصاف کا راج ہونا چاہئے ۔”لیکن مودی اور شاہ سے یہ توقع کیسے کی جائے جنھوں نے گجرات میں لارنس بشنوئی کو پناہ دے رکھی ہے اور جن کے تحت اترپردیش ، بہار اورہریانہ سے نکل مہاراشٹر جیسے صوبوں میں جرائم پیشہ غنڈوں کا بول بالا ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے حسنات کو قبول فرما کر سیاّت کی مغفرت فرمائے ۔ انہیں جنت الفردوس سے نوازے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔