نیشنل بینک میں جعلی ڈگریوں پر بھرتیاں، انتظامیہ کارروائی میں ناکام
شیئر کریں
(نمائندہ جرأت)نیشنل بینک میں مالیاتی غبن ہی کوئی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسائل بھی نہایت گمبھیر ہیں۔جعلی تعلیمی اسناد پر سینکڑوں افسران کی بھرتیاں مسلسل نظر انداز ہورہی ہیں، انتظامیہ ڈگریوں کی تصدیق کرنے میں بھی ناکام ہوگئی ہے، جعلی ڈگری پر بھرتی ہونے والے افسران کئی سالوں تک مالی مراعات وصول کرتے رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نیشنل بینک کی پالیسی ہے کہ قومی ادارے میں بھرتی ہونے والے افسران اور ملازمین کی تعلیمی اسناد کی تصدیق 3 ماہ کی اندر کی جائے گی، انتظامیہ نے گزشتہ تین دہائیوں میں 38 ایسے افسران کو بھرتی کیا جن کی تعلیمی ا سناد جعلی یا ٹیمپرڈہیں، بھرتی ہونے والے افسران کی تعلیمی اسناد کی تصدیق تین ماہ میں نہ ہوسکی ۔ سپریم کورٹ جعلی ڈگری کیس میں واضح احکامات جاری کرچکی ہے کہ ڈگری جعلی ثابت ہونے پر کوئی بھی رعایت نہ برتی جائے اور متعلقہ ادارے کی انتظامیہ جعلی تعلیمی اسناد جمع کروانے والوں کے خلاف کرمنل کیس درج کروائے۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود نیشنل بینک کی انتظامیہ نے افسران کی تعلیمی ا سناد کی تصدیق اور کارروائی کے بجائے مشکوک افسران کو فائدہ بھی پہنچایا۔ جرأت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق کراچی (غربی زون ) میں عبدالرحیم خان 1996 میں جعلی ڈگری پر او جی ٹوبھرتی ہوئے اور ان کو 22 سال کے بعد 2018 میں برطرف کیا گیا،سید جعفر رضا زیدی 1995 میں بھرتی کیے گئے اور 23 سال کے بعد ان کی ڈگری جعلی ثابت ہوئی تو برطرف کیے گئے، محمد فواد خان جعلی ڈگری کے ساتھ سال 2011 میں تعینات ہوئے اور 4 سال بعد نوکری سے نکالے گئے، منیر احمد عباسی سال 2009 میں او جی بھرتی ہونے میں کامیاب ہوگئے اور ان کو 6سال کے بعد جعلی ڈگری ثابت ہونے پر برطرف کیا گیا، کراچی (جنوبی) میں عاصم محمود 1995 میں بھرتی ہوئے اور جعلی ڈگری ثابت ہونے پر 25 سال کے بعد نوکری سے نکالے گئے، محمد اسحاق درس حیدرآباد میں جعلی ڈگری پر بھرتی ہوگئے اور 2018 میں برطرف کیے گئے، اطہر علی قریشی سال 2003 میں جعلی ڈگری پر او جی تھری کے طور پر تعینات ہونے میں کامیاب ہوئے ،سرگودھا میںضیا ء الحسن خان، جمال عبدالناصر اور عبدالستار خان جعلی ڈگری پر او جی ٹو کے طور تعینات ہونے میں کامیاب ہوئے اور 20 سال تک تنخواہ وصول کرتے رہے، نعمان احمد اورمحمد عمران الطاف ہیڈ آفس میں جعلی ڈگری پر او جی ون اور اے وی پی کے طور پر بھرتی ہوگئے اور 10 سال کے بعد برطرف ہوئے،خاور جاویدنے 1995 میں جعلی ڈگری پرنیشنل بینک میں ملازمت حاصل کی اور سال 2013 میں برطرف کیے گئے، میرپورآزاد کشمیر میں سید مزمل حسین بخاری 1976 میں جعلی ڈگری پر بھرتی ہونے میں کامیاب ہوگئے اور 39 سال تک قومی ادارے میں اے وی پی کے طور پر کام کرتے رہے، سکھر میں نذیر احمد خاصخیلی، مانسہرہ میں جمیل شاہ نواز، پشاور میں خرم شہزاد، اسلام آباد میں گل نواز، راولپنڈی میں شہزاد بشارت، کراچی (جنوبی) سے محمد یوسف، کراچی سے شعیب احمد خان، ظفر علی، لاہور سے وسیم خان، سرگودھا سے محمد ممتاز، لاڑکانہ برانچ میں دیدار علی جعلی ڈگری پر بھرتی ہونے میں کامیاب ہوئے۔