میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لاہور ہائی کورٹ ، عابد علی ملہی کی گرفتاری پر 50لاکھ روپے کے انعام کا نوٹس

لاہور ہائی کورٹ ، عابد علی ملہی کی گرفتاری پر 50لاکھ روپے کے انعام کا نوٹس

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۴ اکتوبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمدقاسم خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کی جانب سے موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد علی ملہی کی گرفتاری پر پولیس افسران کے لئے 50لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کرنے کا نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ کیا اب پولیس افسران اپنی ذمہ داریاں بھی انعام کے لالچ میں ادا کریں گے ۔ یہ پنجاب حکومت نے نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے ۔ عابد ملہی ان سے پکڑا نہیں جاتا، کیا پولیس کا کام ملزمان کو پکڑنا نہیں۔بدھ کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمدقاسم خان نے پولیس کی جانب سے سرکاری اراضی پر قبضہ کے حوالہ سے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب انعام غنی پیش ہوئے ۔متروکہ وقف املاک بورڈ نے جواب جمع کراتے ہوئے بتایا کہ 2003 میں پولیس سے قبضہ چھوڑنے کا معاہدہ ہوا لیکن اس نے اب تک قبضہ نہیں دیا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ پولیس والے اس ملک میں قبضہ گروپ کا کام کررہے ہیں، اگر اس ملک میں پولیس قبضہ گروپ بن جائے گی تو کوئی پرسان حال نہیں، آئی جی پنجاب حلف نامہ جمع کرائیں۔آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ہم نے آج تک کبھی انہیں قبضہ نہیں دیا، وفاقی یا صوبائی حکومت کی زمین کو ہم ٹرانسفر کرنے کے مجاز نہیں، ایک سب انسپکٹر اس کام کا مجاز نہیں ہے ۔عدالت نے آئی جی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 24 گھنٹے میں 72 کنال زمین فوری واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ اسپیشل برانچ والے درخواست گزاروں کو تنگ کررہے ہیں، سڑکیں آپ سے سنبھالی نہیں جاتیں، ریپ ہورہے ہیں، اشتہاری گھوم رہے ہیں، اس ملک کا کیا بنے گا، امن و امان پولیس نے تباہ کردیا، آپ کے 30 فیصد افسر مافیا کے ساتھ مل کر پلاٹوں کا کام کررہے ہیں اور اب پولیس محکمہ نے بھی یہ کام شروع کردیا، اس ملک میں پولیس کی اندھیرنگری ہے ، پولیس اس ملک میں قبضہ گروپ بن چکی ہے ، اس پر آئی جی پنجاب نے کہا یہ وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ ٹرسٹ کی زمین ہے ،ہم نے کوئی قبضہ نہیں کیا، میں نے سارا ریکارڈ دیکھا ہے ۔ اس پر چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ریکارڈ تک نہیں دیکھا اور اپنے افسروں سے پوچھ گچھ تک نہیں کی اور یہاں پر آکر آپ نے بیان دینا شروع کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ کس قانون کے تحت آپ کی تقرری ہوئی ، آئی جی کی تقرری کے حوالہ سے سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کا واضح فیصلہ ہے کہ یہ تقرری میرٹ پر ہو گی ، کیا آپ کی تقرری میرٹ پر ہوئی ہے ، ہم اس کا بھی ریکارڈ منگوالیتے ہیں۔عدالت نے اس کیس کو آئی جی پنجاب تعیناتی کیس کے ساتھ منسلک کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست گزار وکیل سے کہا کہ شکر کریں پولیس نے آپ کو خفیہ جیل میں نہیں ڈالا،دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمدقاسم خان نے موٹروے زیادتی کیس کے ملزم عابدملہی کی گرفتاری پر پولیس کو 50لاکھ روپے انعام دینے کے اعلان کا نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس افسران اور ملازمین کس بات کی تنخواہ لیتے ہیں، کیا پولیس افسران اور ملازمین کا کام نہیں کہ انہوں نے ملزموں کو پکڑنا ہے ۔چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ بچیوں سے زیادتی ہو رہی ہے ، ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں، کسی کو نہیں چھوڑیں گے ، وردیاں اتروا کر گھر بھیجوائیں گے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمدقاسم خان کا کہنا تھا کہ اب پولیس افسران اپنی ذمہ داریاں بھی انعام کے لالچ میں ادا کریں گے ،وزیر اعلیٰ پنجاب نے کس قانون کے تحت پولیس افسران کے لئے 50لاکھ روپے کا اعلان کیا، عابد ملہی تو ان سے پکڑا نہیں جاتا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمدقاسم خان کا کہنا تھا کہ آئی جی پنجاب اپنی ذمہ داریاں آئین اور قانون کے مطابق ادا نہیں کررہے ، پولیس نے سارے صوبہ کو پولیس اسٹیٹ بناکررکھ دیا ہے اور کوئی ملزم اور اشتہاری ملزم پولیس سے گرفتارنہیں ہو رہے ۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمدقاسم خان نے کہا کہ جو متروکہ وقف املاک کی اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے اس حوالہ سے آئندہ سماعت پر آئی جی پنجاب وضاحت دیں بصورت دیگر عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی،عدالت نے کیس کی سماعت 3نومبر تک ملتوی کردی ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں