ایک دوسرے کے اعتماد سے محروم!!
شیئر کریں
موجودہ حالات کی دستک سے یہ تو محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ ملک کے معروضی حالات اس قدر ستم ظریفی کی چکی میں پس رہے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے اعتماد سے نہ صرف محروم ہو چکے ہیں بلکہ اعتماد کا اعتماد اور بھروسا بھی کسمپرسی کا شکار ہے اور جو بھی دولت اور منصب کے گھوڑے پر سوار ہیں وہ بھی قوم کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ البتہ یہ نظام قدرت ہے کہ اس کی شفقت کا چراغ ہمیشہ روشن رہتا ہے اور فکر ہماری فکری دہلیز کو اندھیرے کی لپیٹ سے بچا دیتا ہے ، میرے ایک دانشور اور دور اندیش دوست نے بڑی پتے کی بات کی تھی کہ موجود دور نفسا نفسی ، افراتفری ، ذاتی مفادات اور مقاصد کا دور ہے اس لیے یہ جاننے ، سمجھنے اور لوح یادداشت میں محفوظ کرنے کی بات ہے کہ اس دور اور ان خیالات میں اگر کوئی قومی وقار کے پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیتا ، انسانی اور قومی قدروں کی پاسدار ی میں سچائی اور صداقت کا کردار ادا کر رہا ہے اور … اور دیانت ، امانت اور ایمان کو ڈانواںڈول نہیں ہونے دیتا تو وہ وقت کا ولی ہے اور اس سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا کہ جب ایسی گفتگو ہماری سماعت سے ٹکراتی ہے تو ہم اس گفتگو کو نہ صرف بے مقصد سمجھتے ہیں بلکہ اس کو بے وقت کی راگنی محسوس کرتے ہیں لیکن یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ایسا نہیں چونکہ حکمت ، دانش اور فراست کا جغرافیہ کبھی چھوٹا نہیں ہوتا آیئے ہم آپ کی ملاقات وقت کے ایک ولی سے کراتے ہیں اور ہم اس فطری عمل کو نظرانداز نہیں کر سکتے کہ ہر فرد اور شخص اپنی فکری سوچ سے وابستہ ہوتا ہے اور قطعاً ضروری نہیں کہ وہ دوسروں کو ہر نقطہ نظر کی پیروی یا تسلیم کریں لیکن ہمارا کردار بھی مؤذن کا ہی ہوتا ہے جو اذان دے کر صدائے حق پہنچا دیتا ہے بہرحال … گزشتہ سے پیوستہ روز شہر قائد ، منی پاکستان ، بین الاقوامی شہر اور وطن کی اقتصادی ترقی کی شہ رگ تسلیم کیا جانے والا شہر کراچی میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں ہمارے مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جناب قمر زمان باجوہ بطور مہمان خصوصی ہی نہ تھے بلکہ ان کا خطاب بھی نہ صرف خصوصی تھا بلکہ ایمان افروز تھا۔ اس تقریب میں میجر جنرل آصف غفور اور دیگر ہائی کمانڈنٹ افسران تھے اور جناب بریگیڈیئر انوار تھے جنہوں نے انتہائی خوبصورت ، دلکش اور دلفریب نظامت کے فرائض انجام دیے۔ یہ تقریب ملک کے حالات حاضرہ کی سیکیورٹی اور اکنامی پر تھی اور شرکاء کی گفتگو کا دائرہ کار موضوع تک محدود رہا اور یہ انتہائی اہمیت کی حامل نشاندہی تھی کہ مشرف کے اقتدار کے دور میں قوم کے ہر فرد پر 40 ہزار کا قرضہ جبکہ پیٹرول مہنگا تھا اور میاں نواز شریف جو سویلین اور سیاسی سربراہ کی حیثیت سے میدان اقتدار میں جلوہ گر رہے لیکن بدقسمتی سے مہنگائی اور دہشتگردی کا توازن بگڑ گیا اور قوم قرضے کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی بلکہ نظام تک بھی برقرار اور قائم نہ رہ سکا ۔ باجوہ صاحب نے قوم کیلئے ایسی فکری دستک دی جس نے یہ ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم سے راضی ہے اور اگر اس کے راضی ہونے کی دلیل نہ ہوتی تو قمر باجوہ جیسے دور اندیش اور بیدار کمانڈر ہمارے مقدر میں نہ آتے۔ انہوں نے اکانومی اور معاشی پالیسیوں کی گفتگو میں اپنی گہری اور دلچسپی کا خوبصورت انداز میں مظاہرہ کیا ۔ہم نے انہیں وقت کا ولی کہا کیوں کہ ان کی رفتار اور گفتار کے کسی قدم اور لفظ میں غرور اور تکبر نہیں تھا اور انہوں نے حاضرین محفل یعنی تقریب میں جو خطاب کیا ان کے اظہار میں صداقت اور سچائی کا چشمہ پھوٹ رہا تھا اور اس سے انکار مشکل ہے کہ جب انسان عمومی طور پر دولت اور منصب کے گھوڑے پر سوار ہو جاتا ہے تو اس کا گھوڑا اس قدر بے لگام ہو جاتا ہے تو وہ نہ صرف منزل سے دور نکل جاتا ہے بلکہ وہ از خود بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح سیاسی ریگستان میں گھومتا پھرتا ہے۔ ہم قوم سے یہ التجا اور درخواست ضرور کریں گے ۔ ایسے ہی لوگ نعمت خداوندی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ان کے ہمقدم ہو کر ہر اول دستہ بننا ہوگا ۔ ہمیں استقامت نصیب ہو۔ (آمین)