میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟

شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟

ویب ڈیسک
پیر, ۴ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

(دوسری قسط)
اس نفرت بھرے بیانیے میں جو اس نے ایک اور بے اصول اور کم ہمت چودھری اعتزازاحسن سے متاثر ہوکر اپنایا تھا، اس وقت اور بھی شدت آگئی جب چوہدری نثار نے دھرنے کے مظاہرین کی ہلاکتوں کا الزام موجودہ وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال کی جانب سے ان پر لگائے جانے پر پروفیسر کونااہل کہا۔ باپو کہنے لگا’’اس کا سارا زور اپنی پنڈ پڑوسن ماڈل معصوم ایان علی پر چلا ،سکندر نے 2013 میں جب اسلام آباد کو بندوق کی نال پر مفلوج کردیا تھا تو یہ ساری اہلیت کہاں تھی؟‘‘
کامریڈ جان محمد کے زیر نگرانی چلنے والے میڈیا سیل میں بیٹھے رہنے وہاں آنے والے مختلف سیاسی رہنمائوں اور ثانوی حیثیت کے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرکے ، مختلف اخبارات پڑھنے،چوہدری غلام حسین،شاہزیب خانزادہ ،خوشنود لاشاری ،مہر بخاری اور یاسمین منطور کے چیختے چنگھاڑتے پروگرام دیکھ دیکھ کر اس کا سیاسی شعور بھی بہت بیدار ہوگیا تھا مگر یہ شعور اتنا ہی بے اثر اور غیر متاثر کن تھا جتنا مولانا فضل الرحمن کا عالم دین ہونا کہ جن کی تبرکاً بھی دین پر کوئی تحریر اور تقریر نہ ملتی تھی۔کامریڈ البتہ پی پی پی سے شدید وابستگی کے باوجود بھی مولانا فضل الرحمن کو وہ اپنے شریک چیئرمین آصف زرداری والی اہمیت دینے پر رضامند نہ تھا۔اس کی اسی ناپسندیدگی کا باپو پر بھی بہت گہرا نقش تھا۔پچھلے دنوں پے در پے ایسے واقعات ہوئے کہ ایک د فتری ساتھی کے والد کی موت کے بعد وہ سوئم تک باقاعدگی سے وہاں لیاری میں کامریڈ جان محمد اور دیگر جیالوں کے ساتھ ملک کو درپیش سنگین بحرانوں اور تازہ ترین واقعات کے ہر پہلو پر کھل کر بات کرتا رہا۔
مرنے والے کسی کالج کے محترم اور خاصے ہر دل عزیز استاد تھے لہذا ان کی تعزیت اور پرسے کی محافل میں شریک ہونے والے میڈیا کے ڈبے کے دودھ سے فکری نشوونما پانے والے تقریباً تمام ہی سوگواران قوم کو درپیش مسائل پر بڑی نپی تلی رائے رکھتے تھے۔یوں بھی لیاری اور لالو کھیت کے چھوٹے چھوٹے تنگ گھروں میں بجلی کی بندش اور گھریلو خواتین کے زبانی کچوکوں سے بچنے کے لیے وہاں رہائش پزیر مرد حضرات موقع ملتے ہی گھر سے باہر نکل آتے ہیں۔ گائوں کی چوپال کی چارپائیوں کی طرح ان محلوں میں بنے سیمنٹ کے چوباروں اور چبوتروں پران کی منڈلی جم جاتی ہے تو سیاست گٹکے کے لعاب میںغوطے لگا لگا کر ان کی سیاسی سوچ کا حصہ بن جاتی ہے۔
ان تعزیتی مجالس میں دو بڑے واقعات پر بہت سیر حاصل بحث ہوئی۔ تکلفاً اس بحث میں مرنے والی کی خوبیوں کے سرسری بیان اور لازمی مختصر فاتحہ کے بعد تین یوم تک یہ اجلاس لیاری کے فکر انگیز ماحول میں چائے اور سگریٹ کے پے در پے ادوار میں جاری رہے۔
ان موضوعات میں ایک تو اسلام آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) کا دھرنا اور دوسرا اورنگی میں مومن آباد کے تھانے کی حدود میں ایک نو بیاہتا جوڑے کا جرگے کے حکم پر سفاکانہ قتل اور غیر اسلامی انداز میں مجرمانہ تدفین تھی۔وفات والے دن ہی یعنی 27 اکتوبر کو یہ دھرنا ختم ہوا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہی پہلے ٹوئٹر ، پھر واٹس ایپ پھر فیس بک اور آخر میں تمام میڈیا پر دھرنے کے قائدین کی بہن دی سری والی ویڈیو سے لے کر معاہدے کی کاپی تک ان سوگواران کو تواتر سے ملی۔ان پیغامات میں وہ تصاویر اور ویڈیوز بھی شامل تھیں جن میں رینجر ز کے کوئی اتاؤلے افسر عالی مقام ان مظاہرین کے ساتھ یوں سیلفیاں بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جیسے نئی فلم کی ریلیز کے پرومو پر ایک دوسرے میں سمائے شاہ رخ خان اور ماہرہ خان ہوں، ان میں خوشی خوشی رقم کی تقسیم کی ویڈیو اور تصاویر تھیں۔اہل لیاری کے لیے رینجر کا یہ گرمیوں میں کسی بڑے فیشن ہائوس کی قیمتی لان کا سا سرسراتا ،نرم اور فرحت بخش نیا روپ تھا۔ورنہ ان کی گاڑی کو اپنی گلیوں میں دیکھ کر لیاری والوں کو لگتا تھا کہ بغداد کی گلیوں میں ہلاکو کے فوجی دستے داخل ہوگئے ہیں۔
یوں میڈیا ، واٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئیٹرسے ہمہ وقت جڑے ، تعزیت کے لیے آنے والوں کی ایک مسلمہ سی رائے بن گئی۔ انگریزی میں ایک اصطلاح ہے w ـ "A Bird’s Eye-Vie(نگاہء طائرانہ) یہ دینا کو بلندیوں سے دیکھنے کا طریقہ ہے۔ اشرافیہ اور اہل اقتدار و منصب و جلال کے پیرہن میں لپٹے وجود دنیا کو یوں ہی دیکھتے ہیں ۔یہ ایک عجب ’’سانوں کی ،تے ساڈا کی، لو ٹکر کھائوتے مٹی پائو‘‘ قسم کا انداز ہے۔ایک اور انداز نگاہ ہے۔اس سے ہٹ کر بھی ایک نقطہء نگاہ ہوتا ہے جسے A Worm’s Eye View
یا چشم کرم بھی کہتے ہیں ہم جس کو کرم کہتے ہیں وہ عربی کا کرم بمعنی مہربانی ہے۔ کرم فارسی کیڑے کو کہا جاتا ہے ۔ اس رعایت سے یہ چشم کرم حقیر، بے توقیر خاک میں لتھڑے ، خون میں نہلائے ہوئے ،زمین پر رینگنے والوںکا نقطئہ نگاہ ہے۔یہ تمام اہل درد چندنکات پر ایسے ہی متفق ہوگئے، جیسے دھرنے والے وزارت داخلہ کے 26 نومبر والے نوٹیفکیشن کو دیکھتے ہی رزم حق و باطل میں دمشق کی آبدار فولادی تلوار سے فوراً فوجی فوڈ پروڈکٹس کا اسپیشل کھیر مکس بن گئے تھے ۔
سب سے پہلے تو انہیں دھرنے والوں کے طرز ِتخاطب پر اعتراض تھا۔جس دھڑلے سے وہ اپنے مخالفین کی خواتین کے سری پائیوں کا بات بے بات ذکر کرتے تھے وہ انہیں زیب نہیں دیتا تھا۔باپو مدثر جو اس دوران چائے کی پیالیاں ایک سرے سے دوسرے تک تقسیم کررہا تھا۔وہ کہنے لگا کہ عباس تابش کا یہ شعر مجھے اور میر ی امی کو بہت پسند ہے کہ ع
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ان ناہنجار دھرنے والوں کی وجہ سے کسی ٹپوڑی نے یہ یہ شعر ایسے بدل دیا کہ ع
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا ’’تیری بہن دی سری‘‘
اس پر ایک زور کا قہقہہ بلند ہوا تو کامریڈ جان محمد نے سب کو جتلایا کہ اڑے میت کا گھر ہے کچھ تو خیال کرو۔
باپو کہنے لگا ہمارا سیٹھ کہتا ہے کبھی تم نے دنیا کے سب سے طاقتور آدمی پوپ فرانسس کو غصے میں دیکھا ہے یا چیخ کر بولتے دیکھا ہے۔ مودودی صاحب،مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر اسرار احمد ،جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر علی خامنہ ای کتنے دھیمے اور شستہ لہجے میں بیان کرتے ہیں۔نہ آواز اونچی نہ الفاظ غیر مہذب۔چین کے عظیم رہنما کہتے تھے ہمیشہ بولو دھیما اور شائستہ مگر ڈنڈا ضرور ساتھ رکھو۔
یہ بات سن کر ایم کیو ایم کے مفرور سیکٹر انچارج کے والد لیاری میں بیٹھ کر کہنے لگے ’’عوامی سطح پر بدتمیزی کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔وہ مولانا احتشام الحق تھانوی کو ان کی خوش الحانی اور مولانا فضل الرحمن کی سی موقع پرستی اور حب دنیا میں ہر وقت لتھڑے رہنے کی وجہ سے انہیں مولانائوں کی نورجہاں کہا کرتے تھے۔پی پی کے جیالے اس کی یہ توجیہہ پیش کرتے تھے کہ مولانا احتشام الحق تھانوی ان دنوں اور مولانا فضل الرحمن، اسلام کے نام سے ویسا ہی فائدہ اٹھاتے تھے جیسا نورجہاں اپنی آواز اور دل پھینک طبیعت سے اٹھایا کرتی تھی۔ خان عبدالقیوم خان کو وہ ڈبل بیرل خان اور مولانا مودودی کو اچھرہ کا پوپ، بیوروکریٹ الطاف گوہر کو چشمہ لگا نے کی وجہ سے چار آنکھ کا اندھا اور ایک اور صحافی آئی ایچ برکی جو ان پر بہت تنقید کرتا تھا اسے Barking Burki کہتے تھے۔علما تو وارث الانبیا ہیں۔ان کی گفتگو ہمارے عامر خان بھائی ، فاروق ستار اور فیصل سبزواری بھائی جیسی شائستہ ہونی چاہیے۔
اس کی اس لیاری میں بیٹھ کر بھٹو کے خلاف ہرزہ سرائی پر کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اس کی زبانی ہی چنڈ چپیڑکرلیتا۔ سیکٹر انچارج بیٹا مفرو رضرور ر تھا مگر مفقود نہ تھا۔ لیاری کے ساتھ والی لی مارکیٹ میں پرانی بوریاں اب بھی سستے داموں مل جاتی تھیں۔لیاری کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ بھائی لوگ بوری میں پہلے زندہ بند کرتے ہیں پھر قومی کرکٹ ٹیم میں شامل نہ کیے جانے کا غصہ بیٹ سے مار مار کر نکالتے ہیں پھر آخر میں سر میں گولی مارتے ہیں۔
البتہ وہاں موجود ایک جیالے نے اس بات کا کھسیانی بلی کھمبا نوچے والا بدلہ یہ لیا کہ اس کی عوامی بدتمیزی کی نشاندہی کا بدلہ دانیال عزیز اورطلال چوہدری کی طرح عمران خان سے لیا ،جو اپنے جلسوں میں کسی کو چھوٹو ،موٹو گینگ، تو کسی کو چور کہہ کر پکارتے ہیں۔ان کی یہ بات سن کر چرس کے نشے میں کھویا کھویا حسن خاں نیازی اچانک جاگ گیا۔وہ اردو کالج کے بڑے بدمعاشوں میں تھا ،تین بھائی اور پانچ کزن کراچی پولیس میں تھے خود کا ٹرانسپورٹ اور مچھلی کا کاروبار تھا۔وہ کہنے لگا ہمارا فخر میانو الی عمران سیاست دان نہیں وہ ریفارمر ہے۔وہ سیدھا سادہ آدمی ہے۔ڈریسنگ روم کی زبان بولتا ہے۔تم لوگوں کو کیا پتہ کہ یہ عبدالحفیظ کاردار،فضل محمود، جاوید برکی اور جاوید میاں داد اپنی گفتگو میں عورت مردکی فکر کیے بغیر انسانی اعضاء کو گفتگو میں کیسے زیربحث لاتے تھے۔
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں