قسمت کاماتم
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
تاریخ کوخون آلودراہداریوں میں ایک محل اورقصرشاہی کے دربارمیں پڑاایک پتھربدلتے دنوں میں انسانوں کی بربریت،ظلم و جور اور حیوانیت کی کہانی مدتوں بیان کرتارہا۔اس پتھر پرسب سے پہلے اعلائے کلمة الحق کے سالارِقافلہ شہیدکربلاسیدناامام حسین کامقدس سرابن زیاد کے سامنے رکھاگیا۔پھراسی پتھرپرابن زیادکاسرمختاربن ثقفی کے سامنے پیش کیا گیا۔یہی پتھرمختاربن ثقفی کے خون کی گواہی بناجب اس کاسرعبداللہ بن زبیرکے سامنے پیش کیاگیااورپھراسی پتھرپرعبداللہ ابن زبیرکاسرحجاج بن یوسف کے روبروتاریخ کی بربریت کی شہادت دیتارہا۔سربریدہ لاشوں کی بے حرمتی،کٹے ہوئے سروں کی نمائش ان لوگوں کافعل رہاجن میں بربریت،انسانی احترام پرغالب تھی یا پھر جن کے انتقام کی آگ نے انہیں ان لوگوں کی پیروی کرنے پرمجبورکردیاجن کے خلاف وہ حق کی آوازبلندکرتے تھے۔
میں آج بھی جب تاریخ کی یہ کہانیاں پڑھتاہوں توانسانی شقاوت کی اس درندگی پرلرزجاتاہوں اورحیرت میں ڈوب کرسوچتاہوں کہ اگر میرے پوتے پوتیوں نے تاریخ اسلام پڑھتے ہوئے اپنے سوالوں کے تیروں کارخ میری طرف موڑدیاتوانہیں ایساکیاجواب دوں کہ ان کامعصوم ذہن ظلم وستم کی ان کثافتوں سے پاک رہے۔احد کی وادیوں میں سیدنا حمزہ کی مقدس لاش کامثلہ کرنے پرسید الانبیاۖ کا کرب اوردکھ میری آنکھوں میں گھوم جاتاہے جب میرے آقااپنے دودھ شریک چچاکی لاش کودیکھ کربے اختیارپھوٹ پھوٹ کرروتے رہے اورمدینے کے انصاراورمہاجرین اپنے شہدا کوچھوڑکرفورانبیۖکوپرسہ دینے کیلئے پہنچ گئے۔وہ کیامنظر ہوگاجب رحمت العالمینۖاپنے چچاکے چھوٹے بیٹے کو گودمیں لیکران کی اہلیہ کوان کے شوہراوربچوں کوان کے والدکی شہادت کی خبردیتے ہوئے بار بار آبدیدہ ہوتے رہے،یہ تحریرکرتے ہوئے یہ دکھ میری آنکھوں میں گھوم جاتاہے اور قلم بھی بال کھولے نوحہ کرناشروع کردیتاہے۔
مجھے وہ ہدایات یادآجاتیں ہیں جوآپۖلشکرکوجہادپرروانہ کرتے ہوئے فرمایاکرتے تھے۔کسی فصل کوتباہ نہ کرنا،کسی لاش کا مثلہ نہ کرنا،کسی عورت اوربچے پرہاتھ نہ اٹھانالیکن ان سب ہدایات کاتمسخرتاریخ میں جس طرح اس امت مسلمہ نے اڑایاوہ میری روح پربوجھ تو تھاہی لیکن اپنی ہی زندگی میں اس تمسخرکی آنکھوں دیکھی گواہی کے مسلسل عذاب میں مجھے گرفتارہونا پڑے گا،اس کرب کا تجربہ میں گزشتہ چار دہائیوں سے کررہاہوں اورمیراالمیہ یہ ہے کہ یہ سب وہ لوگ کررہے ہیں جواسی رحمت اللعالمین ۖکی سنت کے دعویدار اوراس کے دین مبین کے علمبردارہیں اورجن کی زبان ان کے ساتھیوں اوران کے گھرانے سے محبت میں رطب اللسان رہتی ہے۔
میں وہ دن کیسے بھول سکتاہوں جب پانچ جولائی1985میں کوئٹہ میں شریعت کے نفاذ کیلئے ایک جلوس نکلناتھا۔ضیاالحق کا دوراسلام کے نفاذکاعلمبردارلیکن صرف اسی تعبیرپرقائم جو اس کے حواری اسے بتاتے تھے،دوسری جانب مخالفین۔آمریت کا خاصہ ہے کہ آواز کو بزور طاقت سے دبایاجائے۔پولیس کی بھاری نفری جلوس کے راستے کی رکاوٹ بنی کھڑی ہے۔مذاکرات جاری تھے،اوپرسے احکامات تھے کہ جلوس کسی صورت میں نہیں نکلناچاہئے۔اوپربات ہوئی،ان سے دست بدستہ عرض کیاگیاکہ خون خرابے سے بچنے کیلئے یہ بہترین حل ہے لیکن آمریت کوانسانوں کی جان اورعزت وآبروکے مقابلے میں حکومت کی رٹ کی پرواہوتی ہے۔ایک مجسٹریٹ نے میگافون پرجلوس کے غیرقانونی ہونے کا اعلان کیااورپھر وہ علاقہ میدان جنگ بن گیا۔آنسو گیس،لاٹھی،گولی سب چلنے لگی۔شام تک پوراعلاقہ دھواں دھواں تھااوراس کے درمیان کھمبوں پرپولیس والوں کے سرکاٹ کر لٹکائے ہوئے تھے۔کیاآمریت کاظلم،جبراورتشدد کسی کوانتقام کی اس سطح پرلے جاسکتاہے کہ وہ اس فعل کی پیروی کرنے لگے جس کے خلاف صدیوں سے احتجاج کرتارہاہو۔
اب اورآگے بڑھتے ہیں،اگست1989میں پشین کے شہرمیں اللہ کی راہ میں جہادکرنے والے دوکمانڈروں میں اختلاف ہوا، بندوقیں تن گئیں،روزلاشیں گرنے لگیں،ہرکوئی ایک دوسرے کومنافق،زندیق اورروس کاایجنٹ کہنے لگا۔سرخاب کاکیمپ میدان جنگ بن گیا۔آخرایک گروپ وہاں سے بھاگ کرافغانستان چلاگیا۔فاتح افغان مجاہدین کے کمانڈرکی آتشِ انتقام سردنہ ہوئی،اس نے ”جہاد” سے سرشارایک دستے کوقندھارروانہ کیاکہ ان کا قلع قمع کیاجائے۔انتقام کی آگ کوجذبہ جہادکہنے والے یہ سرفروش قندھارگئے ،خوفناک اورخونریز لڑائیاں ہوئیں اورپھراس گروپ کے دوکمانڈروں کوقتل کردیاگیا۔علامت کے طورپران کے سرکاٹ کرپیازکی بوریوں میں چھپائے اورپاکستان کے شہرپشین کے سرخاب مہاجرکیمپ میں لاکردرختوں پرلٹکادئیے۔یہ نشان عبرت ایک ایسی انسانی تذلیل تھی کہ جس کی نہ ان اللہ کی راہ میں جہادکرنے والوں سے کوئی توقع رکھتاتھااورنہ ہی کوئی برداشت۔
لوگ گنگ تھے،نہ کسی مسجدکے لائوڈاسپیکرسے اس کی مذمت ہوئی اورنہ کسی منبرسے صدائے احتجاج بلندہوئی۔سروں کی نمائش اورسربریدہ لاشوں کی بے حرمتی کوئی منتقم مزاج بے دین اوربے راہ روکرے تواس کے نسلی تعصب پرماتم کیاجاسکتا ہے۔قاتل اورخاندانی انتقام میں اندھے ایسااکثرکرتے ہیں۔میں نے8سال کی عمرمیں گجرات میں میاں اکبرکے قتل کی لرزہ خیز واردات دیکھی ہے۔میں اپنے والدکے ساتھ جمعہ کی نمازپرھنے جارہاتھاتوراستے میں قتل کی جگہ سے قبرستان تک لاشیں گھسیٹنے سے خون کی لکیریں بن گئیں تھیں کیونکہ قتل کرنے والے مقتولین کی لاشیں اپنے باپ کی قبرتک اس گواہی کیلئے لے گئے تھے کہ ہم نے قتل کرکے انتقام لے لیالیکن وہ جن کی زندگیاں اسلام کے اصول جنگ، امن، صلح وآشتی کے پیغام سناکے گزریں،جن کی اول روز سے تربیت رحم اللعالمینۖکی حدیثیں سنتے ہوئے ہوئی،ان کے جذبہ انتقام کے بپھرتی نفرت سے جب سوات کے بازاروں میں سربریدہ لاشوں کی نمائش اوربے حرمتی کی خبریں سنیں تو پتانہیں کیوں مجھے اپنی بدقسمتی پرروناآیا۔میں سوچ میں پڑگیاکہ ہم پرجوامریکاکی غلامی،بدترین آمریت اور بے راہ روقانون کاعذاب نازل ہواہے،یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہی تو ہے۔
تھوڑااورآگے چلتے ہیں کہ میراقلم نجانے کیوں ایک اورقیامت کاتذکرہ کرنے کیلئے اکسارہاہے۔آپ کوبھی دل دہلادینے والاواقعہ تو ضروریادہوگاجب پشاورکی سڑکوں پر اچانک چیختی چنگھاڑتی سائرن بجاتی ایمبولنسوں کا اژدہام جہاں قیامت صغریٰ کاسماں پیش کر رہا تھا وہاں پوری قوم بلکہ پوری دنیاغم واندوہ اورشدیدصدمے اور سکتے کی حالت میں گم صم اپنے رب کے حضورگڑگڑاکررحم وکرم کی فریادکررہی
تھی۔ یہ دلدوزخبرسنتے ہی ننگے سراورپاؤں ماں باپ اپنے پیاروں معصوموں کودیوانوں کی طرح ڈھونڈنے کیلئے سڑکوں پردوڑ رہے تھے کہ وہ آنے والی قیامت صغریٰ کواپنے سینے پر روک کراپنے بچوں کوبچالیں۔
کیاخوب پسندہے تیری اے فرشتہ اجل
پھول بھی وہ چنے جوگلشن کوویران کر گئے
16دسمبرکی دلخراش یادوں میں ایک اوراضافہ ہوگیاجب پھولوں کے شہرپشاورمیں پھولوں کومسل کررکھ دیا گیا،وہ جواپنے ہاتھوں میں قلم اورکتاب تھامے اپنے نبیۖکے احکام کی تعمیل میں علم حاصل کررہے تھے،ان کواتنی بھی مہلت نہ ملی کہ اپنی ماں سے یہ کہہ سکیں کہ دیکھ ماں!میرے لباس پراس لہورنگ روشنائی ہم سب کی عقبی وآخرت کی نجات کاوسیلہ بن گئی ہے۔آج دل ایک مرتبہ پھردردسے پھٹتا جا رہا ہے بلکہ درد جیسالفظ بھی ماتم کررہاہے،ایک ایسازخم ہے جس کامداواہوتانظرنہیں آتا،جسم تھرتھرارہاہے،ہاتھوں کی لرزش اور کپکپاہٹ نے دماغ کوماؤف کردیا ہے ۔وہ تمام مناظرمیراتعاقب کررہے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی میں ملوث وہ افرادتھے جن کی برسوں میزبانی کاشرف ہمیں حاصل رہااور آج بھی یہی مٹھی بھرافراداسی سرزمین سے ہمیں لہولہان کررہے ہیں جن کی حفاظت کیلئے ہم نے نہ صرف برابرکاخون بہایابلکہ اگرپاکستان ہمسایہ نہ ہوتاتوآج ازادی کاتاج ان سے کوسوں دورہوتا۔
میرے رب نے فرمایاجس طرح کے تم ہوگے ویسے ہی تمہارے حاکم۔جہاں راست بازوں پرجذبہ انتقام غالب آجائے اور وہ اسلاف کی ہدایت ترک دیں وہاں قسمت کا ماتم کرنے کے سواکیاکیاجاسکتاہے۔شریعت کے نفاذکی دھن میں مست لوگوں کوسیدناعلی کاوہ واقعہ شایدیادہوکہ آپ ایک کافرکوپچھاڑکرسینے پرسوارہوگئے،اس نے آپ کے چہرے پرتھوک دیا،آپ اس کاسرکاٹنے کی بجائے نیچے اترآئے،کہااب اگرمیں نے تمہیں قتل کیاتواس میں اللہ کے راستے میں جہادکے ساتھ میراانتقام بھی مل جائے گا۔کاش ایسے میں مسجد کے لاؤڈ اسپیکرسے،کسی منبرسے،کسی عالم دین کی خطابت کے جوش سے ایک بات بلندہوہم ظلم وجور،جبرو زیادتی،اورلادینیت کامقابلہ صرف اللہ کیلئے کرتے ہیں،اس میں اگرانتقام کی ذراسی کھوٹ یاملاوٹ بھی آگئی تواعمال توضائع ہوں گے ہی،دنیابھی ہماری تعلیمات سے نفرت کرنے لگے گی۔