ارکان اسمبلی اساتذہ کے تبادلوں کیلئے سفارش کرتے ہیں،سید سردار شاہ
شیئر کریں
سندھ کے وزیر تعلیم سیدسردار شاہ نے کہا ہے کہ ارکان سندھ اسمبلی اساتذہ کے تبادلوںکے لئے سفارش کرتے ہیں ، ہر بااثر فرد چاہتا ہے کہ کالج لیکچرار کا تبادلہ دیہی علاقے سے شہر کی طرف کردیاجائے ،سندھ میں 335کالجز ہیں جو درکار تعداد کے اعتبار سے کافی کم ہیں ۔انہوں نے یہ بات پیر کو سندھ اسمبلی میں محکمہ کالج ایجوکیشن سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہی۔وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ دیہات کے کالجز میں اساتذہ کی کمی ہوتی ہے۔انہوں نے ارکان اسمبلی سے کہا کہ خدا کا واسطہ ہے کہ ارکان اسمبلی لیکچرار کے تبادلے کی سفارشیں نہ کریں ۔جی ڈی اے کی رکن نصرت سحر عباسی نے دریافت کیا کہ کیا کالجز میں بنیادی سہولیات موجود ہیں ؟سردار شاہ نے بتایا کہ جب کوئی کالج قائم ہوتا ہے اس وقت پی سی ون میں تمام بنیادی سہولیات شامل کی جاتی ہیں،دعوی نہیں کرتا کہ سب سہولتیںموجود ہے مگر اس کالج کی انرولمنٹ سے بھی فرق پڑتا ہے ،بچے کم ہونے سے چیزیں غیر فعال ہوجاتی ہیں۔وزیر تعلیم نے کہا کہ اس وقت میرا زیادہ فوکس اسکولوں پر ہے لیکن میں پھر بھی تمام بنیادی چیزوں کی فراہمی کو یقینی بنانگا ۔انہوں نے اپوزیشن کی خاتون رکن کو یقین دلایا کہ جب انہیںیہ یقین ہوگا کہ تمام بنیادی چیزیں موجود ہیں تو پھروہ انہیں دورے کی دعوت دیں گے جس پر نصرت عباسی نے کہا کہ آپ سے مجھے کیوں دورہ کروائیں گے سب کو کروائیں۔ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمد حسین نے کہا کہ شہر کے بیشتر شہروں میں کوئی آرٹس و کامرس کالج موجودنہیں ،جو طلبا آرٹس کامرس پڑھنا چاہتے ہیں وہ کیا کریں ؟سردار شاہ نے محمد حسین کو مشورہ دیا کہ وہ سردار شاہکالجوں کے ٹائٹلز پر نہ جائیں کیونکہ وہاںتمام مضامین پڑھائیں جاتے ہیں۔پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی سنجے گنگوانی نے کہا کہ سرکاری فہرست کے مطابق سکھر میں طلبا کی انرولمنٹ کم ہوتے ہوتے زیرو ہوگئی ہے ۔ جس کے جواب میں سردار شاہ نے کہا کہ انرولمنٹ زیرو نہیں یہ محکمے کی ٹائپنگ کی غلطی ہے ۔وقفہ سوالات کے دوران نصرت سحر نے وزیر تعلیم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وزیر صاحب ہماری تعلیم کی طرح آپ کی وزارت بھی رل رہی ہے ،کبھی آپ سے وزارت لے لی جاتی ہے کبھی دے دی جاتی ہے ۔تعلیمی اداروں میںانرولمنٹ مسلسل کم ہورہی ہے اس میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں۔سردار شاہ نے کہاکہ انرولمنٹ بڑھانے کے لیے سہولیات میں اضافہ کرنا ہوگا ،لوگ دیہات سے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دیہاتوں میں اسکولوں کو ہائر سیکنڈری کا درجہ دیا گیا ہے ۔عدالت کا کہنا ہے کہ ہایر سیکنڈری اسکولوں میں اضافہ کیا جائے ۔ہم ہائر سیکنڈری کے بجائے کالجز بنانا چاہتے ہیں ۔نصرت سحرنے کہا کہ سندھ کی تعلیم کا ستیا ناس ہوگیا ہے اور خودوزیر صاحب نے کہا ہے کہ ارکان اسمبلی میرے پاس سفارش لیکر نہ آئیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ بتائیں کونسے ارکان سفارش لیکر آتے ہیں۔نصرت سحر نے کہاکہ ای کالجز سسٹم نثار کھوڑو کے دور میں متعارف کروائی گئی ،اس میں سب نے کرپشن کی اور ہاتھ دھوئے ۔یہ سسٹم اب کہاں ہے کیا فعال ہے یہ کس سے بنوایا گیاتھا۔ اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے اپنے ایک نکتہ اعتراض پر کہا کہ اطلاعات ملی ہیں کہ سندھ میں دس ہزار اسکول بند کئے جارہے ہیں،وزیر تعلیم اسکی تصدیق کردیں اگر یہ بند کیے جارہے ہیں تو کھولے کیوں گئے تھے؟ یہ بھی اطلاع ہے کہ انتیس ہزار روپے کی ایک ڈیسک خریدی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں ویسے ہی تعلیم کا بیڑا غرق ہے ۔ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذکیا جارہا تھا۔سندھ میں اس پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ یکساں تعلیمی نظام غریب اور امیر کے لئے ایک ہی ہے۔سندھ کے اسکولزکی حالت زارپہلے ہی خراب ہے ۔انہوںنے کہا کہ کیایہ اسکولزبند ہونگے توپھراوطاق بنیں گے؟ وزیر تعلیم سردار شاہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں 47ہزار اسکولز میں سے39ہزار پرائمری اسکولز ہیںسندھ میں صرف 4ہزار سیکنڈری اسکولز ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے آج تک کسی قانون میں اسکول کی تشریح نہیں کی گئی ۔ایک کمرے کے اسکولز بنائے گئے۔ارباب رحیم کے دورمیںایک گاوں میں 64اسکولز کی عمارتیں بنائی گئیں۔انہوں نے کہا کہ ایک کمرے کے اسکول میں کس طرح پانچ کلاسز پڑھائی جاسکتی ہیں؟جو اسکول کے معیار پر پورا نہیں اترتے اسکو اسکول کیوں رہنے دیں۔انہوں نے کہا کہ اسکول کے نام پر کچھ بھینسوں کے باڑے وڈیرے کی اوطاق ہیں7ہزار ایسی عمارتیںہیں جہاں اسکول کی ضرورت نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم غیر ضروری عمارتوں کو کم کرکے قومی خزانے پر بوجھ کم کررہے ہیں۔سردار شاہ نے کہا کہ ہم ایسی عمارتوں کی نشاندہی کرینگے جو اسکول رہنے کے قابل نہیں ہیں۔جن اسکولوں میں طلبانہیں ہیں انہیں بھی بند کردیا جائے گا اورایسی عمارتوں کو اسکول کے بجائے صحت مرکز میں تبدیل کرنے کی سفارش کی جائے گی۔وزیر تعلیم سندھ نے قومی نصاب کا معاملہ دستور کا نہیں بلکہ منشور کا ہے اوروفاقی وزیر شفقت محمود نے تسلیم کیاہے کہ یکساں نصاب پر جلدبازی ہوگئی۔بچوں سے نصاب میں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی پڑھنے کو کہاجارہاہے۔ سردار شاہ نے کہا کہ ہم نصابی مارشل لا کو مسترد کرتے ہیں۔