میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کا قومی پرچم اور قومی ترانہ

پاکستان کا قومی پرچم اور قومی ترانہ

ویب ڈیسک
پیر, ۱۴ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 11؍اگست 1947؁ء کوبطور قومی پہلا باقاعدہ پرچم پاکستان کی قانونی ساز اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا
پاکستان کا قومی ترانہ بعد میں لکھا گیا جبکہ اس کی دُھن پہلے تیار ہوئی، پاکستان کے قومی ترانے میں 38 ساز استعمال ہوئے ہیں
ٓٓشرف الزماں
آزاد اور خود مختار قوموں کے لیے ان کا قومی پرچم ،قومی ترانہ،قومی زبان اور آئین (دستور) ایک مقدس خزانے کی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مصری تہذیب دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں شمار کی جاتی ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا پرچم بھی مصر کا ہی ہے، حالت جنگ میں مصری افواج کے پاس مختلف رنگوں کی لکڑیوں کی تختیاںہوتی تھیں جن پر مختلف نشانات سے ان کے منصب اور مرتبے ظاہر ہوتے تھے۔ کپڑے کے پرچم کا تذکرہ ہمیں روم کی تہذیب سے ملتا ہے، اہلِ روم کا پرچم سرخ رنگ کے تکونے کپڑے کا ہوتا تھا جو لکڑی کے سرے پر باند ھتے تھے پرچموں کی تہذیب کی موجودہ شکل روم کے پرچم کے مشابہہ ہے۔
ہجرت کے آغاز کے ساتھ ہی اسلام میں پرچم کا رواج ہوا ۔حضور ﷺ مکہ سے مسلمانوں کی ہجرت کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓکے ہمراہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت بریدہ ؓبن خصیب اسلمی ملے جو ستر آدمیوں کے ساتھ حضور ﷺکو گرفتار کر نے کے ارادے سے آئے تھے لیکن حضور ﷺ کا سامنا ہوتے ہی وہ مسلمان ہوگئے۔ حضرت بریدہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مدینہ میں داخلے کے وقت آپ ﷺ کے پاس ایک پرچم ہونا چاہئے ۔رحمت اللعالمین نے اپنا عمامہ شریف اتار کر ایک نیزہ سے باندھ کر حضرت بریدہ ؓ کو عطا فرمایا۔ آپ ﷺجب مدینہ میں داخل ہوئے تو اسلام کا پہلا جھنڈا حضرت بریدہ ؓ کے ہاتھ میں تھا۔صفر 2ہجری میں آپ ﷺ کی سربراہی میں 60 مہاجرین پر مشتمل پہلا دستہ بنو حمزہ پر حملے کے لیے روانہ ہوا تو اسلامی فوج کا پہلا باقاعدہ پرچم حضرت حمزہ ؓ کے ہاتھ میںتھا۔ اس پرچم کا رنگ سفید تھا۔
30؍ ستمبر1906؁ء شاہ باغ ڈھاکا میں مسلمانوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت وقار الملک نے کی۔ کانفرنس میں محمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خان،حکیم اجمل خان،جسٹس شرف الدین اور سر علی امام کے نام قابل ذکر ہیں ۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی ایک واحدجماعت ہو جو آزادی کے لیے جدو جہد کرے جو بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے معرض وجود میں آئی۔ ڈھاکا کے اس اجلاس میں جو پرچم لہرایا گیا، اس کا رنگ سبز تھا درمیان میں چاند اور تارابنا ہوا تھا۔اگر اس پرچم کو ہم پاکستانی پرچم کی ابتدائی شکل کہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔پہلا باقاعدہ پاکستانی پرچم 11؍اگست 1947؁ء کو پاکستان کی قانونی ساز اسمبلی میں بطور قومی پرچم منظوری کے لیے ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پیش کیا ۔ اس موقع پر قومی پرچم کے لیے جن جذبات کا اظہار کیا گیاوہ مندرجہ ذیل ہیں: جناب صدر! یہ کسی سیاسی جماعت یا فرقہ کا پر چم نہیں ہے، یہ تو پاکستان کا قومی پرچم ہے جو 14 ؍اگست 1947؁ ء کو وجود میں آجائے گا۔ جناب والا ہر قوم کا پرچم محض کپڑے کا ایک ٹکرا نہیں ہوتا نہ ہی اس کی عزت کپڑے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔میں کسی خوف و تردو کے بغیر کہوں گا کہ یہ پرچم جسے میں ایوان میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ،ان لوگوں کی آزادی اور مساوات کا ضامن ہے جو اس کے زیر سایہ فرماں بردار رہیں گے۔ یہ پرچم ہر شہری کے حقوق کی حفاظت کرے گا ۔یہ پرچم وطن کی سا لمیت کا محافظ ہو گا۔
11 ؍اگست کو ہی کراچی میں قائد اعظم کی زیر صدارت اسمبلی نے پاکستانی پرچم کی ترتیب اور بناوٹ کی منظوری دے دی ،جس کی تفصیلات ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں شائع ہوئی۔ پاکستانی اسکائوٹ بچے پاکستان کے قومی پرچم کے حصول کے لیے تلاش اور جستجو میں مصروف تھے۔ 13 ؍اگست 1947؁ ء کی ایک شام ایک الجزائری مسلمان اسکائوٹس نے فرانس کا ایک اخبار پاکستانی اسکائوٹس کو لا کر دیا جس میں پاکستان اور قومی پرچم کا نقشہ تھا۔ نقشہ کی مدد سے قومی پرچم کی تیاری کا عمل شروع ہوا۔ پرچم کے لیے سبز رنگ کا کپڑا ایک ہندو اسکائوٹ نے، اپنی پگڑی سے سفید رنگ کا کپڑا ملتان کے ایک مسلم اسکائوٹ نے اپنی قمیض پھاڑ کر دیا جبکہ پرچم کی سلائی فرانس کی 2 گرلز گائیڈ نے کی۔ پاکستانی پرچم کو مسٹر ڈی ایم ماٹھر نے لہر ا یا جبکہ پرچم کی ڈوری ایک پاکستانی اسکائوٹ سرفراز رفیقی نے باندھی اسکائوٹ سرفراز رفیقی جو پاکستان ایئر فورس میں اسکواڈرن لیڈر کی حیثیت سے 1965؁ ء کی پاک بھارت جنگ کی دوران فاتح ہلواڑہ بنے اور شہید ہوئے۔
قومی ترانہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی 14 ؍اگست1947؁ ء کو پہلی مرتبہ وقتی طور پر مندرجہ ذیل قومی گیت کی دُھن بجاکر پر چم کشائی کی گئی:
پاکستان زندہ باد آزادی پائندہ باد
پاکستان زندہ باد آزادی پائندہ باد
آزادی کا ہوا سویرا
لہرایا سبز پھریرا
رب دوعالم شکر ہے تیرا
سن لی ہے تو نے فریاد
موجودہ قومی ترانہ پاک سرزمین شاد باد کی دُھن اوائل 1950؁ ء میں موسیقار احمد جی چھاگلہ نے تیارکی جو کہ شہنشاہ ایران کی پاکستان آمد پر بجائی گئی۔ قومی ترانہ کے بول 16 ؍اگست 1954 ؁ء کو منظور کیے گئے قومی ترانہ کے شاعر حفیظ جا لندھری ہیں۔ پاکستان کا قومی ترانہ بعد میں لکھا گیا جبکہ اس کی دُھن پہلے تیار ہوئی پاکستان کے قومی ترانے میں 38 ساز استعمال ہوئے ہیں۔ قومی ترانہ کا دورانیہ 1 منٹ20 سیکنڈ ہے یعنی80 سیکنڈ ہے ۔قومی ترانہ 13 ؍اگست 1954 ؁ء کو پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں