نگر پارکر،کارونجھر پہاڑ لیز پر دینے کا حکومتی فیصلہ مسترد
شیئر کریں
(نامہ نگار) ننگرپارکر، کارونجھر پہاڑ کو لیز پر دینے کا معاملا، حکومت سندھ کے فیصلے کی شدید مخالفت، مقامی باسیوں کی جانب سے مزاحمت کا اعلان، پہاڑ کو لیز پر دینے والے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ۔تفصیلات کے مطابق: حکومت سندھ کی جانب سے شہر ننگرپارکر سے 25 کلومیٹر دور واقع گرینائٹ کی چٹانوں پر مشتمل کارونجھر پہاڑ کے حصے کھارسر کو لیز پر دینے کے اعلان کے بعد صحرائے تھر اور خصوصاً ننگرپارکر کے باسیوں کی جانب سے سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر شدید مخلافت کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر تھرپارکر کے سیاسی سماجی حلقوں اور صوبہ سندھ کی سول سوسائٹی نے ایسے فیصلے کو حکومتی بدنیتی قرار دیا ہے۔ مقامی باسی پونم سنگھ کے مطابق: کارونجھر پہاڑ کے حصے کھارسر کی اونچائی 300 سے 400 فیٹ تک ہے لمبائی 3 کلومیٹر اور مربع 8 سے 10 کلومیٹر ہے یہاں ہندو مذہب کے مندر بھی ہیں، ساتھ ساتھ جوگی قبیلے کے 6 آستانے ہیں اور اسی نزدیک کمبھار برداری کا ایک صدی پرانہ قبرستان بھی ہے، کارونجھر کے اسی حصے میں مختلف جانور پرندے مور، تیتر، بٹیر خرگوش وغیرہ ہیں گگرال، تھوہر، جار، کونبھٹ وغیرہ کے درخت ہیں، نوجوان کے مطابق ہمارے گاؤں کے قریب کہیں بھی میٹھا پانی نہیں ہے، اس میٹھے پانی کا واحد ذریعہ یہی پہاڑ ہے۔ اس پہاڑ کی ہمارا ذریعہ معاش منہ کا نوالہ چھیننے کے مانند ہے۔ مقامی باسی: اللہ رکھیو، مصطفی دل، فیض کھوسو، پراگو کولھی اور مصنف جوگی خالد، حاجی کمبھار، ساگر خاصخیلی کا کہنا ہے کہ: حکومتِ سندھ نے کھارسر کے حوالے سے محکمہ جنگلی حیات، محکمہ جنگلات، بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیموں اور مقامی ایم پی اے پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی کہ کھارسر کی پہاڑیوں کی اسٹڈی کی جائے۔ اور متعلقہ محکموں نے ایسی رپورٹس ہائی کورٹ میں بھی جمع کرائی ہیں، مقامی ایم پی اے قاسم سومرو جو کہ مقامی ایم پی اے اور نئی تشکیل شدہ کمیٹی کے سیکرٹری ہیں، تاہم اس کے باوجود کارونجھر کے حصے کھارسر کی لیز کا اعلان کردیا گیا ہے جو کہ ایک تعجب ناک عمل ہے، انھوں نے مزید کہا کہ: ہم اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں، کھارسر کی پہاڑی کے نزدیک 2000 سے زائد آبادی پر مشتمل گائوں ہے جن کا گذر سفر پہاڑ سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ: تمام جلد اس فیصلے کو واپس لیا جائے بصورت دیگر ہم احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے اور پہاڑ کی حفاظت کے خاطر مزاحمت کریں گے۔ اس ضمن میں مقامی ایم پی اے قاسم سراج سومرو سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔