میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
صوبائی وزیر محنت کی چھتر چھایا،سیسی میں270 ڈاکٹرز، گریڈ 1 سے 16 تک ، 2 ہزار ملازمین کی غیر قانونی بھرتیاں

صوبائی وزیر محنت کی چھتر چھایا،سیسی میں270 ڈاکٹرز، گریڈ 1 سے 16 تک ، 2 ہزار ملازمین کی غیر قانونی بھرتیاں

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۴ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

( نمائندہ خصوصی ) صوبائی وزیر محنت سعید غنی کے زیر نگرانی سندھ ایمپلائزسوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن میں خلاف ضابطہ 2270 ملازمین غیر قانونی طریقے سے بھرتی کرلیے گئے ، 270 ڈاکٹر اور گریڈ 1 سے 16 تک کے دو ہزار ملازمین کو سیاسی اور اقربا پروری کی بنیاد پر بھرتی کرنے کے لیے تمام تر قانونی ضابطے نظر انداز، اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ 16 جون 2023 ء کو گورننگ باڈی کا 165 واں اجلاس منعقد ہوا ، جس میں ملازمین کی بھرتیوں کے لیے ورکنگ پیپر رکھا گیا لیکن بھرتی ہونے والے ملازمین کی فہرست اور ریکورمنٹ کمیٹی کے منٹس پیش نہیں کیے گئے ، اس کے باوجود متنازع ممبر گورننگ باڈی محمد خان ابڑو جوکہ صوبائی وزیر محنت کے کو آڈینیٹربھی ہیں ، عبدالواحد خان شورو اور شاہجہاں شیخ سے اندرون خانہ منظوری حاصل کی گئی حالانکہ ان تینوں ممبران کی حیثیت پہلے ہی عدالت عالیہ میں چیلنج ہے جبکہ گورننگ باڈی کے دیگر ممبران میں شامل ناصر منصور ، زاہد سعید ، خلیل بلوچ اور کرامت کی جانب سے آخری اطلاعات تک منظور نہیں دی گئی ، یاد رہے موجودہ گورننگ باڈی کی مدت 15 جولائی 2023 ء کو مکمل ہوجائے گئی ، جس کے پیش نظر تمام تر غیرقانونی اقدامات کو بھرپور انداز میں بروئے کار لایا گیا ، ذرائع کا دعوی ہے کہ بھرتی کیے گئے ملازمین میں سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں سمیت سیسی افسران کے رشتہ داروں کی بڑی تعداد شامل ہے ، جن میں ڈائریکٹر پروکیورمنٹ اور میڈیکل ایڈوائزر ڈاکٹر اعظم سیلری کی بیٹی ، ڈاکٹر لاشاری کے بیٹے ، ڈاکٹر شاہ محمد نوناری ، ڈاکٹر صائمہ غیاث اور ممبر گورننگ باڈی محمد خان ابڑو کے کئی رشتہ داروں کو خلاف ضابطہ غیر قانونی طریقے سے بھرتی کیا گیا ، ذرائع کے مطابق سیسی میں انتہائی بدنام شہرت رکھنے والے ڈاکٹر سعادت میمن حیدرآباد میں ریکورمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ہیں ، جن کے خلاف اینٹی کرپشن میں 16 مقدما ت ہیں جبکہ نیب کیس میں ضمانت پر ہیں ۔ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوٹ ٹیوشن مزدوروں کی فلاح وبہود کے نام پر قائم ہے اور آجروں سے حاصل کنٹری بیوشن کے ذریعے جو آمدن حاصل کرتا ہے ، اس کا 70 فیصد حصہ انتظامی امور پر خرچ کردیا جاتا ہے ، 7 ارب روپے کے بجٹ میں سے ڈیڑھ ارب روپے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن ، 4 ارب روپے 2300 ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر خرچ ہوتا ہے ، اب دیگر 2270 ملازمین کی بھرتی کے بعد ان کی تنخواہوں کا بوجھ ناقابل قبول قراردیا جارہا ہے کیونکہ ملازمین کی بھرتی ادارے کی ضروریات کو مکمل پس پشت رکھا گیا ہے ، نچلے گریڈ کے ملازمین کی بڑی تعداد جن کی براہ راست بھرتی ادارے کی ضروریات میں شامل ہی نہیں ہیں انہیں صرف سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ملازمتوں سے نوازا گیا ، عدالت عالیہ کی جانب سے سیسی انتظامیہ کو واضح احکام ہے کہ تھرڈ پارٹی کے توسط سے ملازمین بھرتی کی جائیں جبکہ سیسی کی گورننگ باڈی نے بھی عدالت عالیہ کے فیصلے کو تسلیم کررکھا ہے ، اس کے باوجود گریڈ 2 سے 17 تک کہ ملازمین کی تمام تر بھرتیاں سیسی افسران نے کیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں