گستاخانہ بیانات ، بھارت میں احتجاجی عوام کی آواز دبا نے کی کوششیں جاری
شیئر کریں
بھارت میں حکومت کی جانب سے بی جے پی ترجمان کے گستاخانہ بیانات کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی آوازیں دبا نے کی کوششیں جاری ہیں۔احتجاج کو روکنے کے لیے آسام کے تین مسلم اکثریتی اضلاع میں پابندیاں اور امتناعی احکامات نافذ کردیے گئے، تینوں اضلاع میں جلوس، ریلی، دھرنے اورپوسٹر کی تقسیم پر پابندی لگادی گئی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اترپردیش میں گرفتار سماجی رہنما جاوید احمد پر غیر قانونی ہتھیار اور قابل اعتراض پوسٹر رکھنے کے الزامات لگا دیے گئے۔الہ آباد میں گزشتہ روز سماجی کارکن جاوید احمدکا گھر مسمار کیا گیا تھا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نیگھر گرانیکو معمول کی کارروائی قرار دے دیا، سماجی کارکن کا گھرگرائے جانے کے خلاف وکلانے الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دے دی۔درخواست میں کہا گیا ہیکہ جاوید احمدکا گھر ان کی اہلیہ کے نام پر ہے اورگھرگرایا جانا غیر قانونی ہے،گھر گرانے سے قبل غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کوئی نوٹس بھی نہیں بھیجا گیا۔گھرگرائے جانے کے باوجود طالب علم رہنما اور جاوید احمدکی صاحبزادی آفرین فاطمہ نے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا ہے، آفرین کی حمایت میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی چل رہا ہے۔نئی دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی میں آفرین اور ان کے والد کے حق میں یکجہتی مارچ بھی کیا گیا۔کیرالہ میں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا گیا، اس دوران طلبا رہنما عائشہ رینا کو پولیس سڑک پر گھسیٹتی ہوئی لے گئی اور تھانے میں بھی نازیبا سلوک کیا گیا۔دوسری جانب گستاخانہ بیان سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی بی جے پی ترجمان کے خلاف اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔احتجاج کے جرم میں بھارت بھر میں چار سو کے قریب افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے،اب تک دو مظاہرین جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ درجنوں زحمی ہوئے،آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی مسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزر چلوانے کے اس فیصلے کے لیے ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح برتاو کر رہے ہیں۔ایک ریلی سے خطاب کے دوران انہوں نے سوال کیا، "یو پی کے وزیر اعلی کیا اب الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے ہیں۔ کیا اب وہ خود ہی کسی کو بھی مجرم قرار دے کر بطور سزا ان کے مکانات کو گرائیں گے؟”بھارت میں، جہاں بھی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اقتدار میں ہے، وہاں مسلمانوں کے خلاف اس طرح بلڈوزر کا استعمال اب ایک عام بات ہوتی جا رہی ہے، جس پر کئی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی ہوتی رہی ہے تاہم اس کے استعمال میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اس کی ابتدا یو پی کے وزیر اعلی یوگی نے چند برس قبل اس وقت کی تھی جب شہریت سے متعلق مودی حکومت کے متنازعہ قانون کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا تھا۔ اس وقت بھی مسلم کارکنان کے مکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔اس برس بھی جب ہندوں کے تہوار رام نومی کے موقع پر کئی ریاستوں میں ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے، تو دہلی اور ریاست مدھیہ پردیش سمیت کئی مقامات پر مسلمانوں کے مکانات کو منہدم کر دیا گیا۔ اہانت پیغمبر کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے اس کا سب سے زیادہ استعمال یو پی کے کانپور اور الہ آباد میں کیا گیا ہے۔اس کے خلاف ریاستوں کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں تاہم اس پر ابھی تک سماعت نہیں ہو سکی اور سب کی سب التوا کا شکار ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق عدالتی نظام کے بغیر یونہی کسی کو اس طرح کی سزا دینا جمہوری نظام کے منافی ہے۔