میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلوچستان میں مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر حملہ

بلوچستان میں مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر حملہ

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۴ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

بلوچستان کے علاقے مستونگ میںڈپٹی چیئر مین سینیٹ کے قافلے کے قریب دھماکے کے نتیجے میںکم از کم 30افراد شہید اور ڈپٹی چیئر مین سینیٹ مولاناغفور حیدری سمیت 37 افراد زخمی ہو گئے ، جنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا ، صدر، وزیر اعظم اور سیاسی رہنماﺅںنے واقعہ پر اظہار مذمت کیا ہے۔پولیس کے مطابق دھماکا مستونگ میں اس وقت ہوا جب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری مدرسے میں دستار بندی کی تقریب میں شرکت کے بعد واپس جارہے تھے۔ جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عبدالغفورحیدری کا کہنا تھا کہ دھماکا انتہائی شدید نوعیت کا تھا، میں خیریت سے ہوں، صدرمملکت ممنون حسین نے مولانا عبدالغفور حیدری پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کاخاتمہ کرکے عوام کے مال وجان کا تحفظ کیا جائے گا۔ انہوں نے مولانا کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔وزیر اعظم نواز شریف نے مستونگ میں ڈ پٹی چیئر مین سینٹ مو لا نا عبد الغفور حیدری کے قافلے پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔انہوں نے مو لا نا عبد الغفور حیدری کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کی۔وزیر اعظم نے دھماکے میں قیمتی انسانی جا نوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور متعلقہ حکام کو ہدایت دی کہ ز خمیوں کو بہترین طبی سہو لتیں فراہم کی جا ئیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی مستونگ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر گہرے دکھ کا اظہارکیا ہے۔پولیس اور دیگر سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ جائے حادثہ سے ایک نوجوان کے جسم کے حصے بھی ملے ہیں جس سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کسی خودکش حملہ آور کو اس دھماکے کے لیے تیار کیا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی مولانا عبدالغفور حیدری پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے مولانا عبدالغفوری حیدری سے فون پر رابطہ کرتے ہوئے ان کی خیریت دریافت کی اور زندگی کے لیے دعا کی اور دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت بھی کی ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی، وزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری ، وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری ،پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا ہے۔
مستونگ میںڈپٹی چیئر مین سینیٹ کے قافلے کے قریب دھماکے کا یہ واقعہ قابل مذمت بھی ہے اور ہماری سیکورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج بھی ہے، اس دھماکے کی پشت پر کیا مقاصد کارفرماتھے، اس بارے میں شاید ہی کچھ معلوم ہوسکے گا تاہم یہ بات واضح ہے کہ دھماکہ کرنے والے عناصر نے سیکورٹی فورسز کو یہ کھلا پیغام دیاہے کہ اگرچہ پاک فوج کی پے درپے کارروائیوں کے باوجود ابھی ان کامکمل صفایا نہیں ہواہے اور وہ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کارروائی کرسکتے ہیں، مستونگ میں ہونے والے ا س قابل مذمت واقعے کو سیکورٹی کی خامی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ حالات وواقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ انتظامیہ کی جانب سے مولاناعبدالغفور حیدری اوران کی تقریب کے شرکا کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مکمل انتظامات کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ حملہ آور جو کوئی بھی تھا ،اصل تقریب کے اندر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکا اور اسے تقریب کے قریب مولانا کی کار کو نشانہ بنانا پڑا ،لیکن ان انتظامات کے باوجود حملہ آور کے تقریب کے نزدیک تک پہنچ جانے سے ظاہر ہوتاہے کہ اگر مولانا عبدالغفور کے تحفظ پر مامور اہلکار اور خود جمعیت علمائے اسلام کے رضاکار تھوڑی سی سوجھ بوجھ سے کام لیتے اور مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر معروف مہمانوں کی گاڑیوں کے قریبی علاقے کی بھی نگرانی اورچیکنگ کرنے کا انتظام کرلیتے تو حملہ آور کو وہاں تک پہنچنے اور یہ قابل مذمت کارروائی کرنے کا موقع نہ ملتا۔اس حوالے سے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ حملہ غیر متوقع تھا اور مولانا عبدالغفور حیدری کو نشانہ بنائے جانے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا کیونکہ بلوچستان میں جہاں جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوںکی بڑی تعداد موجود ہے ، ماضی میں بھی جے یو آئی کے رہنماو¿ں پر حملے ہو چکے ہیں۔اکتوبر 2014 ءمیں کوئٹہ میں اس جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی گاڑی پر خودکش حملے میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے تاہم وہ محفوظ رہے تھے۔اس واقعے کے بعد کم از کم جمعیت کے کارکنوں کو زیادہ ہوشیار رہنا اورچوکسی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی شاید اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ان کی اسی غلطی کادشمن نے فائدہ اٹھایا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں اور حکومت کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور اپنے رہنماﺅں کے تحفظ کاانتظام کرنے کے ساتھ تقریبات کے قریبی علاقوں پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہیے اور تمام رہنماﺅں کی بحفاظت واپسی تک متعلقہ تقریب کے قریب کسی بھی غیر متعلقہ فرد کو آنے جانے یا کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اس حوالے سے تھوڑی سی احتیاط بڑی تعداد میں قیمتی انسانی جانوں کو بچایاجاسکتاہے اور دہشت گردوں کو کوئی نرم ہدف تلاش کرنے میں دشواری کاسامنا کرنا پڑ سکتاہے اور نرم اہداف نہ ملنے کی صورت میں ان میں مایوسی پیدا ہوگی اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر اپنی موت آپ مرجائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں