میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سکھ بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں

سکھ بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں

منتظم
هفته, ۱۴ اپریل ۲۰۱۸

شیئر کریں

عبدالماجد قریشی
1984 میں بھارت میں آپریشن بلیو سٹارکے تحت سکھوں کے قتل عام کے بعدخالصتان کی تحریک کو کچل دیا گیا تھا جس کے بعد بہت سے سکھوں نے دوسرے ملکوں میں اپنی زندگیوں کا آغاز کیا تھا اور ایک دہائی تک خاموشی اختیار کرنے کے بعد اپنی تنظیموں کو آہستہ روی سے دوبارہ تحریک دینا شروع کردی تھی۔

آج خالصتان کی تحریک کو امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ دوسرے یورپی ممالک میں آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے مقبولیت مل رہی ہے۔کئی سکھ تنظیموں کی کوششوں سے بھارتی سرکار کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمات دائرہوچکے ہیں جس سے سکھوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ روا امتیازی رویوں اور انسانی حقوق کی حق تلفیاں کرنے پر بھارت کا تشخص بْری طرح مجروح ہوا ہے۔کئی خالصہ تنظیمیں بھارت میں ہونے والے سکھوں پر مظالم اور انکی نسل کشی اور امتیازی رویوں پرپرامن احتجاجی ریلیوں اور کانفرنسوں کا اہتمام کرتی آرہی ہیں۔

حالیہ چند سال میں خالصہ تحریکوں میں تیزی آنے اور ببر خالصہ کی بھارت کے اندر کارروائیوں کے بعد بھارتی ایجنسیوں نے سکھوں پر دنیا کے دروازے بندکرنے کے عزم کا ارادہ کیا ہے۔بھارت نے انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن (ISYF)،خالصتان کمانڈو فورس(KCF)،خالصتان زندہ باد فورس(KZF)جیسی تمام سکھ تنظیموں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے کر سکھوں کو آزادی اظہار کے حق سے محروم کررکھا ہے۔ جبکہ برطانیہ اور جرمنی نے صرف ببر خالصہ انٹرنیشنل پر پابندی عائد کی ہے تاہم بھارتی ایجنسیاں ببرخالصہ اور ببر خالصہ انٹرنیشنل کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ تلاش کرتے ہوئے کسی قسم کے ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

خالصتان تحریک کے بانی اور ورلڈ مسلم سکھ فیڈریشن کے چیئرمین سردار منموہن سنگھ خالصہ کا کہنا ہے کہ دعا کریں کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اگلی دفعہ بھی بھارت کیوزیراعظم بن جائیں۔ ان کی مزید بیوقوفیوں سے بھارت میں ہی پا کستا ن اور خالصتان بن جائے گا۔ عالمی برادری نے بھارت کی پرتشدد کارروائیوں پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔

مودی حکومت آج کل روزانہ کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچا رہی ہے۔ چند روز قبل بھارتی پنجاب کی جیل سے خالصتان کا جو رہنما فرار ہو کر چند گھنٹوں کے بعدگرفتار بھی ہوگیا وہ ڈرامہ تھا۔ حکومت نے خود ہی اسے جیل سے نکالا اور فراری کا ڈرامہ رچایا اور پھر اسے گرفتار کرکے واپس جیل ڈال دیا۔کرنسی بحران بھی وہاں کا ایک بہت بڑا ڈرامہ ہے۔

سکھوں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے مطالبے کو دہراتے ہوئے منموہن سنگھ کہنا تھا کہ بھارت میں صرف یہی دو قومیں شناخت کے بحران سے دوچار نہیں ہیں بلکہ کئی مذہبی اور علاقائی قومیتیں اور دلت اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ سکھ اور کشمیری بھارت سے مکمل آزادی چاہتے ہیں۔ دل خالصہ بھارتی ریاست کی جانب سے کشمیریوں اور سکھوں کے حقوق کو دبانے کی خاطر کی جانے والی زیادتیوں اور طاقت کے بہیمانہ استعمال کی شدید مذمت کرتی ہے۔ 70سالوں سے نیو دہلی کے خودسر حکمرانوں کا مائند سیٹ تبدیل ہونے کے بجائے مزید ظالمانہ رخ اختیار کر گیا ہے۔ کشمیریوں اور سکھوں کے خلاف بھارتی یونین کا عناد، دشمنی اور ظلم و ستم ہر سال بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری نے بھارتی ریاست کی پرتشدد کارر وا ئیوں پر بے حسی سے بھرپور خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ انٹرنیشنل فورمز نے کشمیریوں اور سکھوں کی پرامن اور جمہوری جدوجہد کو پوری طرح نظرانداز کررکھا ہے۔

سردار خالصہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کمیٹی میں قوموں کے حقوق خودارادیت کی قرارداد پیش کرنے پر پاکستان گورنمنٹ کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے آزادی کی خواہش مند قوموں کے لیے امید کی ایک کرن روشن ہوئی ہے۔ صرف خالصتان ہی سکھوں کے لیے واحد راستہ ہے۔ 2020ء میں ہونے سکھ ریفرنڈم خالصتان کے حصول کو ممکن بنائے گا۔خالصہ ذرائع کے مطابق سکھ پرامن انداز میں خالصتان ریفرنڈم 2020 ء کی تحریک چلارہے ہیں لیکن بھارتی ایجنسیاں اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کی مدد سے سکھوں کا عالمی تشخص خراب کررہی ہیں۔ خالصتان ہر سکھ کے من میں بستا ہے اور جب تک ہم خالصتان کو آزاد نہیں کروا لیتے، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔بھارت میں سکھوں کو آرٹیکل 25-B-2 کے تحت ہندو دھرم کا حصہ بتایا گیا ہے جو سکھوں کی منفرد شناخت کو رد کرنے کی سازش ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس وقت ہی کیوں خالصہ تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ تو جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی اور منظم تحریک ہے جو ہندوستان کی ریاست کو مذہبی انتہا پسندانہ پیرائے میں چلانا چاہتی ہے۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس نے کشمیر کو دھونس کے ذریعے ہندوستان میں شامل کر کے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کیا اور یہی سوچ اور تحریک ہے جس کے نتیجے میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار گردانا گیا، اْسے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل ہوئی۔

نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی ایک انتہاپسندانہ جارحانہ مذہبی تاثر دیا گیا۔ اس جارحیت کا جواب کسی نہ کسی شکل میں آنا تھا۔ نریندر مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ ہندو مذہبی احیاء کے سہارے ریاست چلانا چاہیں گے تو پھر دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی مزید آزاد ریاستوں کا مطالبہ کریں گے۔

وقت کے ساتھ ساتھ اب ایک نیا رجحان جنم لے رہا ہے اور خالصتان کی تحریکوں میں مذہب کے ساتھ ساتھ بتدریج قوم پرستی کا رنگ بھی سامنے آنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالصتان تحریک سے وابستہ تنظیموں نے اب کشمیر میں ہونے والی ہندوستانی زیادتیوں کا ذکر بھی کرنا شروع کر دیا ہے اور چند ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ دونوں تحریکیں مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو سکیں گی۔ہندوستان کے ریاستی معاملات میں تیزی سے بڑھنے والی مذہبی انتہاپسندانہ سوچ ان دونوں تحریکوں کو بالآخر ایک دوسرے کے قریب لانے کا موجب بنے گی۔ حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے بجائے ریاستی جبر کے ذریعے مختلف علاقوں میں آزادی کی تحریکوں کو دبانے کی کوششیں بھی ان تحریکوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

خالصتان تحریک کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری آزادی کی تحریکوں کے پیچھے ایک تاریخی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں بسنے والی قومیں جغرافیائی، لسانی، تاریخی، اور قومی لحاظ سے اتنی متنوع اور مختلف ہیں کہ ان ساری قوموں کو دہلی کی مرکزی حکومت کے زیر سایہ چلانے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ تاریخی طور پر ہندوستان کے وسیع و عریض علاقے کو کبھی بھی بہت لمبے عرصے تک ایک مرکزی حکومت کے طور پر چلانا ممکن نہیں رہا۔ ہزاروں سال کی تاریخ میں مغلوں یا برٹش راج کے علاوہ کوئی بھی مرکزی حکومت پورے کے پورے ہندوستان کو چند عشروں یا پھر ایک آدھ صدی سے زیادہ اکٹھا چلانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

ہندوستان کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کے اندر درجن سے زیادہ قومیں اس کے خلاف آزادی کی تحریکیں چلانے پر مجبور ہیں اور ہندوستان کے پڑوسی اس سے الگ نالاں رہتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہر چیز کا الزام پاکستان پر ڈالا جائے، ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں یہ آزادی کی تحریکیں ان کے اپنے پیدا کردہ مسائل کی وجہ سے تو جنم نہیں لے رہیں؟

خالصتان کی تحریک کو کچلنے کے لیے بھارتی ایجنسیوں نے ہندو دہشت گرد تنظیموں کواپنا نیٹ ورک بڑھانے کا اشارہ دے دیا ہے۔ بھارتی پنجاب،مقبوضہ کشمیر ،افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہندودہشت گردوں کی کامیاب کارروائیوں کے بعد بھارتی ایجنسیوں نے اپنی ’’زعفرانی فورس‘‘کو خالصتانی سکھوں کا نیٹ ورک توڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی تربیت دے دی ہے۔

بھارتی ایجنسیاں خالصتان کے لیے متحرک کالعدم ببر خالصہ اور ببر خالصہ انٹرنیشنل کو پٹھانکوٹ حملے میں ملوث کررہی ہیں۔ دوسری جانب بھارتی ایجنسیاں ببر خالصہ اور ببر خالصہ انٹرنیشنل کاآئی ایس آئی اور لشکر طیبہ کیساتھ تعلق جوڑتے ہوئے پروپیگنڈا کررہی ہیں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی اور کالعدم لشکر طیبہ ببر خالصہ اور ببر خالصہ انٹرنیشنل کی مدد کرتے ہوئے اسکے لیے ریکروٹنگ بھی کررہی ہیں۔بھارتی حکومت نے کالعدم تنظیموں ببر خالصہ اور ببر خالصہ انٹرنیشنل کے خلاف وسیع المقاصد آپریشن کے لیے پٹھانکوٹ حملوں کو جواز بناکر امریکہ اور یورپ پر بھی ببر خالصہ انٹرنیشنل پر پابندی لگانے کے دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ ببر خالصہ اور ببر خالصہ انٹرنیشنل کو امریکہ ،لاطینی امریکہ ،کینیڈا،بیلجیئم ،ناروے سوئٹزرلینڈ، فرانس، جرمنی اور پاکستان سمیت کئی افریقی ممالک میں انسانی بنیادوں پر حمایت حاصل ہے تاہم برطانیہ اور جرمنی نے بھارتی دباؤمیں آکر ببر خالصہ انٹرنیشنل پر پابندی عائد کردی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں