امریکا چین کا میدان جنگ شمالی کوریابنے گا ۔۔؟؟
شیئر کریں
واشنگٹن نے اپناطیارہ بردار بحری بیڑہ کارل ونسن جزیر نما کوریا کی جانب روانہ کردیا جبکہ چین نے بھی ڈیڑھ لاکھ فوجی بھیج دےے
روس کی جانب سے شام کی مکمل حمایت کے باوجود الشعیرات ائر بیس پرحملہ کرکے یہ پیغام دیاہے کہ امریکاکسی کو خاطر میں لانے کے موڈ میں نہیں
شہلا حیات
امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی میں اضافے اور امریکا کی جانب سے اپنا بحری بیڑہ جزیرہ نما کوریا کی جانب روانہ کےے جانے کے بعد اب چین نے بھی کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے اور امریکا کی جانب سے جارحیت کے ارتکاب کی صورت میں شمالی کوریا کادفاع کرنے کی لیے اپنے ڈیڑھ لاکھ فوجی شمالی کوریا بھیج دیے ہیں جنہیں ممکنہ طورپر دریائے یالو کے قریب تعینات کیاجائے گا۔امریکا کی جانب سے کسی بھی ملک پر حملے کے لیے استعمال کیے جانے والے کارل ونسن نامی طیارہ بردار بحری جہاز اس خطے میںبھیجے جانے کے بعداب چین کی بحریہ اور فضائیہ نے بھی شمالی کوریا پر کسی بھی امریکی حملے کاجواب دینے کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ اس خطے میں جنگ کی پوری تیاری ہوچکی ہے اور دونوں فریق کسی بھی جانب سے پہل کا انتظار کررہے ہیں۔
ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر 7 اپریل کو شام پر میزائل حملوں کو شمالی کوریا کے لیے ایک وارننگ تصور کیاجارہاہے ، اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کی جانب سے شام کی مکمل حمایت کے باوجود شام کے الشعیرات کیمپ پر وحشیانہ انداز میں میزائل برسا کر یہ پیغام دیاہے کہ امریکا کسی بھی ملک کے خلاف اس طرح کی کارروائی کرسکتاہے اور اس طرح کی کارروائی کرتے ہوئے اس بات کو قطعی خاطر میںنہیں لائے گا کہ امریکی ہدف کی حمایت میں کون کھڑا ہے۔
کوریا کی چوژن ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق چین نے امریکا کے کسی بھی فضائی حملے کی صورت میں زخمیوں کو فوری طبی امداد بہم پہنچانے کے لیے فوج کی میڈیکل ٹیمیں عارضی ہسپتالوں کے قیام کے تمام لوازمات اور ضروری دوائیں وغیرہ بھی دریائے یالو کے قریب پہنچادی ہیں۔مبصرین کاکہناہے کہ چین کی جانب سے تیزی کے ساتھ کی جانے والی اس کارروائی کا مقصد امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ واضح کرنا ہے کہ شمالی کوریا شام نہیں ہے اور اگر امریکا نے شمالی کوریا پر حملے کی کوشش کی تو اسے شام کی طرح میدان کھلا نہیں ملے گا بلکہ اسے شمالی کوریا پر حملہ لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ثابت ہوگا۔
شمالی کوریا کی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق چین نے شمالی کوریا جو فوج بھیجی ہے اس کے پاس امریکی حملے کی صورت میں بے گھر لوگوں کو فوری طورپر محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے اور زخمیوں کو فوری طبی امداد بہم پہنچانے کے تمام انتظامات موجود ہیں۔
دوسری طرف شمالی کوریا کی جانب سے میزائلوں کے مزید تجربات کے بعد امریکی بحریہ نے امریکا کا کسی بھی ملک پر حملے میں استعمال کیا جانے والا طیارہ بردار جہاز کارل ونسن جو سنگاپو ر میں لنگر انداز تھا اور اسے پروگرام کے مطابق آسٹریلیا کی جانب روانہ ہونا تھا ،اب آسٹریلیا کا دورہ ملتوی کرکے اسے شمالی کوریا کی جانب روانہ کردیا گیاہے اور امریکا کی اس دھمکی کے بعد کہ وہ پیانگ یانگ کے ایٹمی اسلحہ کے پروگرام کو بزور طاقت بند کرادے گا، چین کے ایٹمی معاملات سے متعلق اعلیٰ ترین ایلچی اورمذاکرات کار شمالی کوریا کو لاحق خطرات کے پیش نظر صورت حال کاجائزہ لینے اور جنوبی کوریا کی قیادت سے ایٹمی امور پر بات چیت کے لیے گزشتہ روز سیول پہنچ گئے ہیں۔
اس صورتحال کے ساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں بھی گردش کررہی ہیں کہ شمالی کوریا اپنے ملک کے بانی قائد کی 105 ویں سالگرہ کی تقریبات کے موقع پر ہی ایٹمی اسلحہ اور میزائل کے مزید تجربات کرے گا جبکہ شمالی کوریا کی جانب سے میزائل کے مزید تجربات اس وقت کی صورتحال میں جلتی پر تیل ڈالنے اور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منہ چڑا کر انہیںمزید مشتعل کرنے کے مترادف ثابت ہوگا۔
شمالی کوریا کے علاقے میں یہ سنگین صورت حال ایک ایسے وقت پیدا ہوئی ہے جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے رہنما ژی جن پنگ سے گزشتہ روز ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں ان پر زور دیاتھا کہ وہ شمالی کوریا کو ایٹمی اسلحہ اور میزائل کے تجربات سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
چین کی جانب سے شمالی کوریا پرامریکا کے ممکنہ حملے کی صورت میں شمالی کوریا کا دفاع کرنے اور امریکا کے خلاف شمالی کوریا کو فوجی مدد پہنچانے کے لیے کیے جانے والے ان اقدامات کا امریکا نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے جس کا اظہار امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے قائد ژی جن پنگ کے درمیان دوبدو ملاقات کے بعد اپنے ایک بیان میں کیاگیا ہے، امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے اس امریکا چین سربراہ ملاقات کے بعد اپنے بیان میں کہاتھا کہ اگر چین نے شمالی کوریا کے مسئلے پر امریکا کے ساتھ تعاون نہ کیاتو پھر ہم اپنے طورپر اپنے پروگرام پر عمل کرنے کو پوری طرح تیار ہیں اور خود اپنی راہ بنالیں گے۔تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی اشارہ دیاتھا کہ چین نے اس معاملے میں معاونت کرنے پر آمادگی کا اظہار کیاتھا ،ٹلر سن نے اپنے بیان میں کہاتھا کہ ہم انہیں اس حوالے سے کارروائی کرنے کے لیے وقت دینے کوتیار ہیں۔اس کے ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے یہ بھی واضح کیاتھا کہ امریکا شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ین کی حکومت کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔
ایک طرف چین شمالی کوریا کی مدد کے لیے اپنی فوجیں اورسازوسامان شمالی کوریا پہنچارہاہے تو دوسری طرف جنوبی کوریا نے بھی امریکا کے ساتھ فوجی مشقیں شروع کردی ہیں جنہیں معمول کی سالانہ فوجی مشقوں کانام دیاگیاہے لیکن عالمی مبصرین ان مشقوں کو شمالی کوریا کے خلاف حملوں کی تیاری قرار دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ شمالی کوریا ایسے دورمارمیزائل تیار کرنے کی کوشش کررہاہے جو امریکا کے قلب کو نشانہ بناسکے اور جو ایٹمی اسلحہ لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتاہو۔اس کوشش میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے وہ گزشتہ سال سے اب تک میزائلوں کے 5 تجربات کرچکا ہے۔ مصنوعی سیاروں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اب شمالی کوریا اپنے چھٹے میزائل کے تجربے کی تیاری کررہا ہے جبکہ امریکی انٹیلی جنس حکام نے متنبہ کیاہے کہ پیانگ یانگ دو سال سے بھی کم عرصے میں امریکا کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔
چین ،امریکا ، جنوبی کوریا اور جاپان نے شمالی کوریا کے مسئلے پر بات چیت کے لیے اپنے مستقل نمائندے مقرر کررکھے ہیں جو اس مسئلے پر وقتاً فوقتاً ملاقاتیں اور مذاکرات کرتے رہتے ہیں۔4 ملکوں کے یہ سفیر دراصل 6 ملکوں کے مذاکراتی گروپ کاحصہ ہیں جس میں شمالی کوریااور روس بھی شامل ہیں ۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعہ شمالی کوریا پر بیلسٹک میزائل کی ٹیکنالوجی استعمال کرنے پر پابندی عاید کردی گئی تھی لیکن اس پربار بار لگائی جانے والی پابندیوں اوران پابندیوں میں کی جانے والی سختیوں کے باوجود اسے ایٹمی اسلحہ کی تیاری کاپروگرام ترک کرنے یا اس پر عمل کو روکنے میں مو¿ثر ثابت نہیں ہوسکاہے۔بعد ازاں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز شمالی کوریا کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی اور شام کے الشعیرات فوجی اڈے پر امریکی حملے کو اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کاایک اشارہ یا انتباہ قرار دیاجارہاہے۔
امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر مک کاسٹر نے گزشتہ روز ایک بیان میں شمالی کوریا پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے سرکش مملکت قرار دیا تھا اور اس کے رویے کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جزیرہ نما کوریا کے خطے کو غیر ایٹمی خطہ بنایاجانا چاہیے۔ امریکی ٹیلی ویژن فاکس نیوز پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں انہوںنے یہ بھی بتایا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں اس خطرے کوختم کرنے کے لیے کوئی بھی طریقہ استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دیدی ہے۔
ادھر شمالی اور جنوبی کوریا کو متحد کرنے سے متعلق امور کے وزیر ہانگ یانگ پیو نے گزشتہ روز اپنے بیان میں اس خطے میں فوجی کارروائی کے امکانات کو انتہائی تشویشناک قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہاتھا کہ اگرچہ شمالی کوریا پر کسی بھی حملے کامقصد شمالی کوریا کو ایٹمی تجربات سے روکنا ہوگا لیکن ہمارے لیے اس طرح کے حملوں کی صورت میں اپنے عوام کی سلامتی کو یقینی بنانا ایک ایسا مسئلہ ہوگا جس نے ہمیں پریشان کرکے رکھ دیاہے۔ ماہرین کاکہناہے کہ اگرچہ شمالی کوریا پر امریکا کا کوئی مختصر ساحملہ شمالی کوریا کوایٹمی تجربات سے روکنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس سے شمالی کوریا کے شہریوں کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے اور اس کے بعد ایک وسیع تر فوجی تنازع پیدا ہوجانے کے امکانات اور خدشات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
سیول میں پالیسی اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے ایک تجزیہ کار جیمز کم کاکہناہے کہ امریکا اپنے تمام آپشن اپنے سامنے رکھتاہے جس میں انتباہی حملے اور انتباہی حملے کے ذریعے مذاکرات کا آپشن شامل ہے ۔تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ شمالی کوریا پرامریکا کاحملہ انتباہی ہو یا اہدافی اس سے جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہونے اور اس میں جاپان اور چین کے کود پڑنے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔فرانس کی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جیمز کم کاکہناہے کہ شمالی کوریا پر ممکنہ امریکی حملے کاایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کے ذریعے شمالی کوریا کو ایٹمی تجربات سے روکنا اور ایٹمی پروگرام ترک کرنے پرمجبور کرنا ممکن ہوسکتا ہے لیکن اس سے اس پورے خطے اور خود امریکا پر انتہائی بھیانک نتائج پڑ سکتے ہیں اور اس پورے خطے اورخود امریکا کو اس حملے کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑسکتاہے۔