پنجاب ثقافت دیہاڑ
شیئر کریں
ڈاکٹر جمشید نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجابی لوک کہانی ”ہیر رانجھا” آج بھی نوجوانوں کی دلوں میں دھڑکن کی طرح بستی ہے جب رانجھا اپنی بانسری کے ذریعے محبت کے سُر چھیڑتا تھا تو ہیر دیوانہ وار اس کے پاس پہنچ جاتی تھی۔ اسی لیے اکثر آج بھی نوجوان پارکوں اور رومانٹک مقامات پر بانسری بجاتے نظر آتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ان کی بانسری کے سرُ سن کر ان کی ہیر ایک دن ضرور ان تک پہنچ جائے گی۔پنجاب کی سرزمین صرف عشق و محبت کی داستانوں سے ہی بھری ہوئی نہیں بلکہ یہاں غیرت مندوں اور بہادروں کی بھی ایسی لازوال داستانیں ہیں جو آج بھی پنجاب کی پہچان ہیں۔مہمان نوازی،پیار اور محبت سے بھری پنجاب کی سرزمین کی ثقافت کا شماردنیا کی بہترین ثقافت میں ہوتا ہے۔نئی نسل وقت کے ساتھ ساتھ پنجاب کی اصل ثقافت سے دور ہوتی جارہی تھی اسی لیے 14مارچ کو پنجاب کی ثقافت کا دن منانے کا فیصلہ کیا گیااور پاکستان میں پہلی مرتبہ سن2021میںسرکاری سطح پر پنجاب کا ثقافتی دن منایا گیا۔اس سال پنجاب کا ثقافتی دن بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جارہا ہے جس کا موضوع ہے ”پنجاب ثقافت دیہاڑ”۔ اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے زیر اہتمام مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔الحمراء آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ”پنجاب ثقافت دیہاڑ” کے حوالے سے بہت سے پروگراموں کا اہتمام کیا گیا ہے جن میں ڈھول پرفارمنس، اونٹ ڈانس، گھڑ ڈانس،بانسری ، جورتی شہنائی پرفارمنس،پنجاب ویلج،ہیر گائیکی،ماہیے ٹپے بولیاں،بھنگڑا پرفارمنس،صوفی رقص اورپنجاب کرافٹ بازار شامل ہیں۔اس موقع پر معروف گلوکار فضل جٹ ، عارف لوہار،سائیں ظہور،شاہد لوہار،جمیل لوہار،صائمہ جہاںا ور دیگر آرٹسٹ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پنجاب دنیا کا قدیم ترین خطہ بھی کہلاتاہے، لاکھوں سال قبل پتھر کے زمانہ میں بھی یہاںا نسان زندگی بسر کرتے تھے،ان کے پاس پتھر کے اوزار تھے جن سے وہ شکار کیا کرتے تھے۔پنجاب میں رہنے والے لوگ پنجابی کہلاتے ہیں۔آریاقوم اپنا آبائی وطن ترک کرکے نئے وطن کی تلاش میں نکلے تو پنجاب میں آگئے جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں تاریخی دور
کا آغاز آریاؤں کی آمد کے بعد سے ہواتھا۔آریاؤں نے پنجاب میں قیام کے دوران ایک کتاب تصنیف کی کی جس کانام ”رِگ وید” ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں پنجاب کا ذکر ”سپت سندھو” کے نام سے آیا ہے۔سپت کے معنی سات اور سندھو کے معنی دریا ہیں ۔ اسی لیے مسلمانوں کی آمد سے قبل پنجاب کو ” سپت سندھو”یعنی سات دریاوں کی سرزمین کہا جاتا تھا۔ اس وقت پنجاب کا علاقہ بیاس سے غزنی کی دیواروں تک پھیلا ہوا تھا۔ جب دریائے سندھ اور اٹک کے علاقہ اس سے علیحدہ ہوئے تو اس کا نام ”پنج ند” میں تبدیل ہوگیا۔”پنج ند” فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے مطابق” پنج ”کا مطلب ”پانچ” اور” ند” کا مطلب ”دریا” یعنی ”پانچ دریاوں” کی سرزمین۔مہا بھارت کے قصہ کہانیوں میں پنجاب کا ذکر ”پنج ند” یعنی پانچ ندیوں کے نام سے کیا گیا ہے۔مسلمانوں نے جب کابل کے راستے اس سرزمین پر قدم رکھا تو اس کا نام ”پنج ند” کی بجائے ”پنجاب” رکھ دیا ۔پنجاب پنجند کا فارسی ترجمہ ہے۔چودھویں صدی میں مسلمان سیاح ابن بطوطہ یہاں سیر کرنے کے لیے آئے تو اپنی تحریروں میں پنجاب کا ذکر کیا۔سولہویں صدی میں شیر شاہ سوری کے عہد میں پنجاب کا لفظ وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبرکے عہد کی مستنددستاویزی کتاب ”آئین اکبری”اورمغل بادشاہ نور الدین جہانگیرکی فارسی زبان میں تصنیف”تزک جہانگیری” میں پنجاب کا ذکر ملتا ہے۔ یونانیوں کے عہد میں پنجاب کو ”پنیٹاپوٹامیہ” کہا جاتا تھا، جس کا مطلب بھی پانچ دریاوں کی سرزمین ہے۔پنجاب کی قدیم ترین تہذیب ”سواں تہذیب” کہلاتی ہے جبکہ پنجاب میں واقع ہڑپہ کا شمار بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیب میں ہوتا ہے۔پنجاب کی ثقافت اور اصل پہچان کو زندہ رکھنے کے لیے ثقافتی دن کے علاوہ سرکاری سطح پر انٹرنیشنل پنجابی ادبی کانفرنس کا انعقادبھی ہونا چاہئے۔
٭٭٭