2016ءشامی بچوں کےلیے بدترین سال ‘شام کی خانہ جنگی نے معصوم کلیوں کو کمھلا دیا
شیئر کریں
کم وبیش 50 فیصدبچے اسکول جانے سے محروم ہوچکے ، 25 فیصد بچے جنگ اور قحط جیسی صورت حال کی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں کا شکار
2015ءکے مقابلے میںگزشتہ سال 20 فیصد زیادہ بچے جنگ میں مارے گئے،حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے ،یونیسیف
تہمینہ نقوی
شام کی خانہ جنگی اپنے چھٹے سال میں داخل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے تقریباً 60 لاکھ بچے انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد پرانحصار کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں،عالمی اداروں کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق شام میں جاری لڑائی کے نتیجے میں کم وبیش 50 فیصدبچے اسکول جانے سے محروم ہوچکے ہیں جبکہ کم وبیش 25 فیصد بچے جنگ اور قحط جیسی صورت حال کی وجہ سے ذہنی اور دماغی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں،اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ 2016ءشام کے بچوں کے لیے بدترین سال رہا کیونکہ شام میں جاری جنگ کے دوران سب سے زیادہ بچے اسی سال ہلاک ہوئے ہیں۔ادارے نے بتایا کہ گزشتہ سال کم از کم 652 بچے ہلاک ہوئے اور ان میں سے 255 بچے سکول یا اس کے پاس مارے گئے۔ یہ تعداد 2015ءمیں مارے جانے والے بچوں سے 20 فیصد زیادہ ہے۔رپورٹ میں مصدقہ اموات کا ہی ذکر کیا گیا ہے تاہم یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔یونیسیف نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ گزشتہ سال 850 سے زیادہ بچوں کو لڑنے کے لیے بھرتی کیا گیا ہے اور یہ تعداد سنہ 2015ءکے مقابلے دگنی ہے۔بھرتی کیے جانے والے بچوں کو عام طور پر محاذ پر لڑنے کے لیے بھیجا گیا اور بعض معاملات میں انہیں پھانسی دینے والے، خودکش حملہ آور اور جیل کے محافظوں کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔شام کی خانہ جنگی اپنے چھٹے سال میں داخل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے تقریباً 60 لاکھ بچے انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد پر انحصارکررہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے یونیسیف کے ڈائریکٹر گیرٹ کیپیلارے نے شام کے شہر حمص میں بتایا کہ ’شامی بچوں کی تکالیف کی کہیں مثال نہیں ملتی ہے۔ شام میں لاکھوں بچے روزانہ ہونے والے حملوں کی زد میں ہیں اور ان کی زندگی برباد ہو چکی ہے۔‘یونیسیف کا کہنا ہے کہ ان میں سے 23 لاکھ بچے تو ملک سے باہر نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن 28 لاکھ بچوں کو سب سے زیادہ سنگین صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ وہ دور افتادہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان میں سے پونے تین لاکھ سے زیادہ تو محصور علاقوں میں ہیں۔گیرٹ کیپیلارے نے مزید کہا: ’صحت، دیکھ بھال اور مستقبل کے حوالے سے ہر ایک بچے کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔‘گزشتہ ہفتے فلاحی ادارے سیو دا چلڈرن نے متنبہ کیا تھا کہ لاکھوں بچے ’زہریلے دباو¿‘ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس خیراتی ادارے نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ان کی فوری مدد نہیں کی گئی تو انہیں اس سے نکالنا مشکل ہوگا۔اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو تہائی بچے کسی نہ کسی اپنے سے محروم ہو گئے ہیں، یا ان کے گھر بمباری اور شیلنگ کی زد میں آئے ہیں یا پھر وہ جنگ کے نتیجے میں زخمی ہوئے ہیں۔شام میں ریاستی میڈیا کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں حلب میں حکومتی زیرِ اختیار علاقے میں باغیوں کی جانب سے ایک سکول کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں 7 بچے اور ایک خاتون ہلاک ہو گئے ہیں۔خبر رساں ادارے صنا کے مطابق حملے میں کم سے کم 32 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔یہ حملہ باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر کئی دن سے جاری بمباری کے بعد کیا گیا ہے۔اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے ایلچی سٹیفن ڈی مستورا نے تجویز دی تھی کہ حکومت شہر کے ان حصوں کو خود مختاری دے دے جن پر باغیوں کا قبضہ ہے تاہم شامی حکومت نے اسے مسترد کر دیاتھا۔ڈی مستورا نے گزشتہ دنوں امن معاہدے کے لیے کوششوں کے سلسلے میں دمشق گئے تھے اور انہوں نے باغیوں کی ایک خودمختار انتظامیہ کے قیام کی تجویز دی تھی۔تاہم شام کے وزیرِ خارجہ ولید معلم نے ان کی تجویز کو مسترد کردیا۔ان کا کہنا تھا ’اس خیال کو مکمل طور پر یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیاکہ یہ ہماری سالمیت کے خلاف ہے۔‘شام میں وائٹ ہیلمٹ کے نام سے پہچانے جانے والے شہری دفاع کے ادارے کے مطابق صرف ایک دن کے دوران کم سے کم 108 فضائی حملے کیے گئے۔ان کے مطابق ان حملوں کے دوران الشکور ضلعے میں بیرل بم بھی پھینکے گئے۔اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا ہے کہ باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں بسنے والے عام شہری زندگی میں ہی ‘جہنم’ کی صعوبتوں سے دوچار ہیں۔سٹیفن اوبرائن نے متحارب فریقین سے کہا کہ وہ سینکڑوں ایسے لوگوں کے انخلا کی اجازت دیں جن کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اگلے مورچوں پر روسی جنگی جہازوں نے گزشتہ رات درجنوں حملے کیے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے شامی فوجوں کو شہر کے شمالی علاقوں میں مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے اعلیٰ افسر سٹیفن اوبرائن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں شہر کے مشرقی علاقے پر ہونے والے مسلسل حملوں پر شدید تشویش ہے۔انھوں نے کہا کہ جنگ زدہ شہروں کے مختلف متاثرہ علاقوں میں طبی سہولتیں تقریباً تباہ ہو چکی ہیں۔بمباری کے دوران ہسپتال بھی زد میں آرہے ہیں جس کی وجہ سے جنگ زدہ علاقوں کے ہسپتالوں میں خدمات انجام دینا بھی جان جوکھوں کا کا م بن چکا ہے گزشتہ دنوں باغیوں کے خلاف کارروائی کے دوران شہر کے مرکزی ٹروما ہسپتال کو تیسری بار نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات ملی تھیں جس کے نتیجے میں رپورٹوں کے مطابق ہسپتال کے ریڈیالوجی کا شعبہ تباہ ہوگیاتھا ، ہسپتال کے ریڈیالوجی کے شعبے میں کام کرنے والے ایک ملازم کے حوالے سے برطانوی خبر رساں ادارے نے خبر دی تھی کہ ہسپتال اب مکمل طور پر ناکارہ ہو چکا ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق شام میں جاری تشدد میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں, برطانیہ میں قائم ایک ادارے کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد 4 لاکھ30 ہزار ہے جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ48 لاکھ افراد ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں جبکہ 65 لاکھ ملک کے اندر نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
”©۔۔۔روز جیتے ہیں،روز مرتے ہیں“
یونیسیف کے ڈائریکٹر گیرٹ کیپیلارے نے شام کے شہر حمص میں بتایا کہ ’شامی بچوں کی تکالیف کی کہیں مثال نہیں ملتی ہے۔ شام میں لاکھوں بچے روزانہ ہونے والے حملوں کی زد میں ہیں اور ان کی زندگی برباد ہو چکی ہے، 23 لاکھ بچے تو ملک سے باہر نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن 28 لاکھ بچوں کو سب سے زیادہ سنگین صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ وہ دور افتادہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان میں سے پونے تین لاکھ سے زیادہ تو محصور علاقوں میں ہیں۔ سیو دا چلڈرن نے متنبہ کیا کہ لاکھوں بچے ’زہریلے دباو¿‘ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس خیراتی ادارے نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ان کی فوری مدد نہیں کی گئی تو انہیں اس سے نکالنا مشکل ہوگا۔