میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سانول اور شہنائی کی گونج

سانول اور شہنائی کی گونج

ویب ڈیسک
منگل, ۱۴ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

جولائی 2013 ءکے آخری عشرے کی ایک حبس زدہ شام میں موسیقی کی گہری جڑیں اپنی سرزمین میں پیوست کرنے والے عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی کو ملاقات کا ایک پیغام بھجوایا ۔ ان دنوں عمران خان کے آبائی حلقہ انتخاب میں ضمنی الیکشن کا مرحلہ درپیش تھا ۔ جواب ملا کہ
مان لو عشق کی صدارت میں
ایک اجلاس اب ضروری ہے
اُن سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے محمد زین العابدین کا ان سے تعارف کروایا ۔۔ جواب میں انہوں نے اپنے دائیں جانب کھڑے ایک سلیم الفطرت نوجوان کا بازو پکڑتے ہوئے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے ۔ سانول ۔
سانول سرائیکی ادب اور لوک موسیقی میں پیار، محبت خلوص اور رومان کا استعارہ ہے ۔ سانول بھتیجے سے یہ میری پہلی ملاقات تھی ۔ شہنشائے لوک موسیقی سے انٹرویو کے بعد سانول سے میرا پہلا سوال تھا کہ ” آپ اپنے والد کی سیاست میں دوبارہ سرگرمی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟؟؟ نوجوان کاجواب مجھے گہرے ادراک کا آئینہ دار لگا۔ میں کافی دیر تک لالہ عطاءکو اس سوچ کے ساتھ تکتا رہا کہ ۔۔۔ ”کچھ سوچ کر ہی فسوں گر لالہ آپ نے اس کا نام سانول رکھا ہوگا“ ۔۔۔۔۔۔ وہ نوجوان کہ رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔” مےں سمجھتا ہوں کہ مےرے والد سےاست کی نسبت بطورا ٓرٹسٹ بہتر طرےقے سے قوم کی خدمت کر سکتے ہےں۔ہر اےک شعبے اور فےلڈ کی اپنی اےک نوعےت ہو تی ہے ۔ مےرے والد آرٹسٹ بہت بڑے ہےں، اگر انہوں نے عملی سےاست مےں حصہ لےا تو مجھے نہےں پتہ کہ وہ اس کو کس طرےقے سے نبھاہ پائےں گے۔ بحرحال اےک آرٹسٹ اور اےک والد کی حےثےت سے بہت کم لوگ مےں نے ان جےسے دےکھے ہےں۔“
سانول نے یہ بھی کہا کہ یہ کہنا درست نہےں ہے کہ مےں اپنے والد سے متا¿ثر ہو کر گائےکی کی طرف راغب ہوا ہوں، اور بہت سی وجوہات اور بہت سے فنکار بھی تھے ۔البتہ والد صاحب کی گائےکی نے ےہ احساس ضرور دلاےا کہ آرٹ اےک خوبصورت چےز ہے۔اور ےہی چےز مجھے موسےقی کی دنےا مےں لے آئی ۔ “
سانول کا پہلا البم سرائےکی زبان مےں رےلےز ہوا تھا ۔ بعد مےں اُس نے اردو مےں بھی کام کےا۔ اردو اور سرائےکی دونوں زبانوں کے سرور اور چاشنی سے وہ فیض یاب ہوا۔ وہ ” پلے بےک سنگنگ“(Play Back Singing ) سے زےادہ متا¿ثر ہے، اس لئے غزل گائےکی پر بھی اُس نے خصوصی توجہ دی ہے۔ اُس کے کئی ترانے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔
سانول کی اس گفتگو کے دوران میں نے جب بھی عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی کی جانب دیکھا تو مجھے فکشن نگار ٹالسٹائی کے یہ الفاظ یاد آئے کہ ” عظیم فن انتشار کے دور میں جنم لیتا ہے “ ۔۔۔ عطاءنے گلوکاری سے پہلے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا ۔ یہ دور قوم کی ابتلاو آزمائش کا دور تھا ۔ ملک کے دولخت ہونے کا سانحہ ضمیر کی نعش کو کاندھا دیئے ہوا تھا ۔ لالہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی حصہ لیتا رہا ۔ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو سفاک موسموں سے بچانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کے قافلے میں شامل ہوا تھا ۔ پھر ایک دن وہ صرف گلوکاری کا ہو کر رہ گیا ۔۔۔ معاشرتی بحرانوں اور لالہ کے اندرونی طوفانوں نے اُسے ایک بڑا کلا کار بنا دیا ۔۔آڈیو کے دور میں اس کی شہرت نے ملکی سرحدوں کو ایک اساطیری داستان کی طرح عبور کیا ۔ وہ دلوں پر راج کرنے لگا ۔ یہ ایک منفرد اعزاز ہے کہ عیسیٰ خیل کے نیازی پٹھان کی آوازنے سننے والوں کی سماعتوں مےں اُس وقت رس گھولا جب ہمارے ہاں ابلاغ کے ذرائع ترقی پذےری کے مراحل سے بھی کوسوں دور تھے۔ اس نے مےانوالی اور عےسیٰ خےل مےں اپنے دوستوں کی بےٹھکوں سے گانے کی ابتداءکی۔ جذبہ صادق اور لگن سچی اور سُچی تھی کہ اس کے سُروں کی پرواز گلی، محلوں، شہروں اور قصبوں کی قےد سے ما ورا ہو کر پورے سرائےکی وسےب سے ہوتی ہوئی ملک بھر مےں اپنے رنگ اور آہنگ بکھےرنے لگی۔
آج کے دور مےں جب دنےاگلوبل ولےج مےں سمٹ چکی ہے۔ گلوکاری بہت آسان ہو گئی ہے۔ نئے گلوکار رےاضت کی بجائے پبلسٹی پر زےا دہ توجہ دےتے ہےں۔آج کی دنےا مےں تو لگانے والے کو ملتا ہے۔لےکن جب مےانوالی کی مٹی سے جنم لےنے والے اس لوک فنکار نے اپنے فنی سفر کا آغاز کےا تو اس وقت صرف محنت اور رےاضت ہی کام آتی تھی۔ اس بے مثال فنکار کی زندگی کا مطالعہ کرےں تو پوری زندگی محنت اور رےاضت کی اےک لازوال تصوےر کی صورت مےں ہمارے سامنے آ تی ہے۔ محمد محمود احمد نے کیا خوب کہا ہے کہ
رات گئے تک جاگنے والے شاعر اور ادیب
اپنی اپنی آگ میں جلتی مائیں اور بیوائیں
بس اسٹینڈ پر شور مچاتے ہاکر اور کلرک
گولیان ٹافیاں بیچنے والے چھوٹے چھوٹے بچے
ٹھنڈے فرش پہ سونے والے زندانوں کے قیدی
برف رُتوں میں لکڑیاں کاٹنے والے لکڑ ہارے
ماتھے پر محراب سجائے درگاہوں کے پیر
گھر کا زیور بیچ کر پڑھنے والے طالب علم
بہنوں کے چِنتے میں ڈوبے غیرت مند انسان
سرحدوں پر پہرا دیتے سوہنے ڈھول سپاہی
عید کے دن بھی روٹی کپڑے سے محروم بھکاری
چاند رُتوں میں ملنے والے عاشق اور معشوق
سَپنے بُنتی دوشیزائیں ، ہجر گزیدہ گھبرو
تیرے گیت سے چُن لیتے ہیں اپنے اپنے آنسو۔۔۔
اعزازات سے لدے عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے عملی سیاست سے دوری اختیار کر لی تھی، اپنے ضلع کے فرزند عمران خان کی وجہ سے سیاست میں دوبارہ سر گرم ہو ئے تو کپتان کی جماعت کا سب سے مقبول ترانہ لکھا ۔ یہ شخص لیجنڈ کپتان کے ایک کھلاڑی کی حیثیت سے تبدیلی کا پیغام لے کر گلی گلی گیا ۔ جدوجہد کی ان کٹھن ساعتوں میں کئی بار ایسا مقام بھی آیا جب انہیں سانول کا متذکرہ بالا انٹرویو یاد آیا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ ایسے مواقع پر انہیں اپنے دل سے یہ آواز بھی سنائی د ی ہو گی کہ
اُس نے جب میرے قلم کو توڑ پھینکا اک طرف
مرا بچہ اس گھڑی مجھ کو بڑا زیرک لگا
لیکن خوشبو کو رنگ سے کشید کرنے کا ہنر بھی پروردگارِ فکرو فن انہی لوگوں کو عطاءکرتا ہے جو فصلِِِ خزاں کو موسمِ گل کی ادا قرار نہیں دیتے ۔۔ ایسے نابغہ روزگار خود کو نہیں پوچتے ۔ احساسِ کمتری کی بیماری کوغرورِ انا قرار دے کر سرشت کا حصہ نہیں بناتے ۔۔۔ سو لالہ عطاءاپنے خواب کی تعبیر کے لیئے اب بھی پُر اُمید ہے۔۔اس جدوجہد میں وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیئے تیار ہے کہتا ہے کہ ” میری ماں نے مجھے بندوق چلانا سکھائی ہے لیکن میرے عشق نے مجھے گلوکار بنادیا ہے ۔ اگر میرے وطن کو میری ضرورت پڑی تو میں بندوق اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کروں گا ۔“
بات سانول سے چلی تھی، سانول پر ہی کالم کا اختتام ہونا چاہیے ۔ سانول کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے ۔ دوسروں کی خوشیوں کو پُر کیف سُروں اور اپنی پر سوز آواز سے دوبالا کرنے والے عیسیٰ خیلوی کے آنگن میں سانول کی شادی کی شہنائی گونج رہی ہے ۔۔۔۔ سانول کے لیے نیک تمنائیں، لالہ عطاءکے چمن کے دوسرے پھولوں بلاول ، بیٹیوں لاریب اور فاطمہ کے لیے ڈھیروں دعائیں ۔۔۔۔۔۔ عطاءاپنی دھرتی اپنی مٹی کے عشق کی پوشاک پہنے ہوئے تبدیلی کے خواب سے جڑا ہوا ہے، وہ اپنی آخری ساعتیں اپنی مٹی کو دینا چاہتا ہے ۔۔ آخر میں ان کے لیے ایک لسان دان کی یہ دعا نقل کرنا چاہوں گا کہ ” خدا کرے کہ تُم اپنے لوک گیتوں کے فطری آہنگ پر سانس لیتے رہو ۔ جذبوں کے نئے گیت بنتے رہو ۔ اور انہی کی لے پر نئے سُروں کی اُڑانوں پر آزاد پرندوں جیسے غوطے کھاتے رہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ اس لیے کہ
” سو سالاں وچ ہک جمدا اے تیں جیا سوہنا ڈھولا “


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں