میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پی کے 661

پی کے 661

منتظم
منگل, ۱۳ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syedobaid-new

عبید شاہ
مسافروں کے چہروں پر خوشی نماےاں تھی ، کےوں نہ ہوتی ان کی محبوب فٹبال ٹےم کے کھلاڑی ان کے ہم سفر تھے ۔ نوجوان کھلاڑی اٹھکےلےوں مےں مگن تھے، کوئی سےلفی بنا رہا تھا کوئی دوسرے کھلاڑی کی پےٹھ پرچڑھا بےٹھاتھا۔ کچھ کھلاڑی گروپ بنا کر اپنا پسندےدہ نغمہ گنگنانے مےں مصروف تھے ۔ فلائٹ کی روانگی کا اعلان ہوا تو ےہ نوجوان کھلاڑی اےک دوسرے کو پھلانگتے دوڑ پڑے ۔ ےہ برازےل کی فٹبال ٹےم کے کھلاڑی تھے ۔ وہ کولمبےا مےں ساﺅتھ امرےکا کے سالانہ فٹ بال ٹورنامنٹ کا فائنل کھےلنے جا رہے تھے ۔ برازےل کی ٹےم 28سال بعد اس ٹورنامنٹ کے فائنل تک پہنچ پائی تھی۔ اس لئے وہ سب بہت پرجوش تھے۔ لامےا ائر لائن کے چارٹرڈ طےارے نے بولےوےا کے شہر سانتا کروز سے اڑان بھری، ےہی پرواز کھلاڑیوں کو برازےل سے لائی تھی۔ بولےوےا انکی عبوری منزل تھی اور حتمی منزل کولمبےا تھی ۔ پرواز کو اڑان بھرے 55منٹ گزرے تھے، منزل قرےب ہی تھی کہ اچانک جہاز کے انجن نے کام کرنا بند کر دےا ۔پائلٹ نے کنٹرول ٹاور پر ہنگامی پےغامات بھےجے ، چند سےکنڈز کے اندر ہی جہاز نے گلائےڈنگ بند کر دی اوردھڑام سے عموداً زمےن پر آگرا ۔ طےارے مےں کھلاڑی، ٹےم کے انتظامی افسران، صحافی، فوٹو گرافرز اور جہاز کے عملے سمےت کل77افراد سوار تھے، ان مےں سے 71افراد اس حادثے مےں ملک عدم کوچ کر گئے اور دو گول کےپرز سمےت چھ افراد انتہائی زخمی حالت مےں بچا لیے گئے تاہم اےک گول کےپر ہسپتال مےں چل بسا۔ ےہ حادثہ 28نومبر2016کو پےش آےا ، فوری طور پر حادثے کی وجوہات جاننے کےلئے تحقےقات کا آغاز کےا گےا ، جہاز مےں موجود کا ک پٹ وائس رےکارڈ رکھوجا گےا اور اسے تفتےش کاروں کے حوالے کےا گےا ، تمام تکنےکی معلومات بھی اکٹھی کی گئےں ۔ معلوم ہوا کہ جہاز کو حادثہ اےندھن ختم ہو جانے کی وجہ سے پےش آےا ۔ تفتےش کاروں کے مطابق جہاز کے ٹےنک مےں زےادہ سے زےادہ 3ہزار کلو مےٹرز تک پرواز کرنے کے مساوی اےندھن بھرے جانے کی گنجائش موجود تھی جبکہ برازےل سے بولےوےا اور بولےوےا سے کولمبےا تک کا سفر3ہزار400کلو مےٹر بن رہاتھا۔ ائر لائن کے حکام نے روٹ کو مختصر کر کے منزل تک پہنچانے کا منصوبہ بناےا تھا جو کامےاب نہ ہو سکا۔ بولےوےا کی حکومت نے فوری طور پر ائر ٹرےول اتھارٹی کے تمام حکام تبدےل کر دئےے اور لامےا ائر لائن کے چےف اےگزےکٹو کی گرفتاری کا حکم دے دےا ، جب چےف اےگزےکٹو کو حراست مےں لے کر عدالت کے روبرو پےش کےا گےا توبولےوےا کے چےف پراسےکےوٹر نے کہا کہ اس کے خلاف ”قتلِ عمد“ کا مقدمہ قائم کرنے کےلئے کافی شواہد موجود ہےں ۔ اسی اثناءمےں بولےوےا کی اےک ائرٹرےفک کنٹرولر سےلےا کاسٹےڈو (Celia Castedo) نے خاموشی سے سرحد عبور کر کے برازےل مےں سےاسی پناہ کی درخواست دےدی، اس کے حوالے سے برازےل کے ٹی وی چےنل نے اپنی اےک رپورٹ مےں بتاےا کہ اس کا مو¿قف ہے کہ اس نے جہاز کے اضافی فلائنگ پلان پر سوال اٹھاےا تھا مگر کسی نے اس کی بات نہ سنی، اب اسے قربانی کا بکرا بناےا جا رہا ہے ۔ بولےوےا کے وزےر نے اس پر اپنے ردِ عمل مےں کہا کہ کاسٹےڈو بہرصورت مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے اور اس نے انصاف سے فرار ہونے کی کوشش کی ہے۔ برازےل اسے فی الفور ملک بدر کرے ۔ بولےوےا کی حکومت نے فوری طور پر لامےا ائر لائن کا لائسنس بھی معطل کر دےا۔ےہ اےک بد قسمت پرواز 2933کی کہانی ہے مگراس کے کم وبےش اےک ہفتے بعد 7دسمبر کو اےسے ہی حادثے کا شکار ہونے والے طےارے پی کے 661کی کہانی نجانے کےوںاس سے مختلف ہے ؟
پی کے 661نے 7دسمبرکی سہ پہر چترال سے اڑان بھری ، منزل بےنظےر بھٹو انٹر نےشنل ائر پورٹ تھا۔ جہاز مےں عملے کے 6افراد سمےت 47افراد سوار تھے، پرواز شروع کرنے کے 22منٹ بعد اچانک اس کا اےک انجن بند ہو گےا ۔ تکنےکی معلومات کے مطابق اس وقت طےارے کے باہر کا درجہ¿ حرارت23ڈگری تھا، ہوا مےں نمی کا تناسب 44فےصد تھا ، ہوا کی رفتار 7.4کلومےٹر فی گھنٹہ تھی اور حدّ ِ نگاہ 16کلو مےٹرز تک تھی، سب کچھ معمول کے مطابق تھا، طےارہ 13ہزار 375فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا، اےک انجن بند ہو جانے پر اچانک 12800فٹ پر آگےا، مبےّنہ طور پر پائلٹ نے دوسرا انجن اےک مرتبہ بند کر کے دوبارہ آن کےا جس کے بعد طےارہ 50فٹ ہوا مےں بلند ہو کر 12850فٹ پر پہنچ گےا لےکن پھر اگلے 60سےکنڈز مےں ےہ جہاز مزےد 2ہزار فٹ نےچے آگےا۔ اس کے بعد اس نے گلائےڈنگ ہی بند کر دی اور سےدھا پہاڑ سے جا ٹکراےا۔ عالمی اےوی اےشن ماہرےن کا خےال ہے کہ جب پائلٹ نے اےک انجن بند کر کے اسے دوبارہ آن کےا تاکہ جہاز پوری طاقت سے پرواز کر سکے، اس وقت انجن مےں شاےد دھماکا ہوا اور اس کے دائےں ونگ مےں آگ لگ گئی۔ ماہرےن کا کہنا ہے کہ طےارے کے دونوں انجن بند ہو جا ئےں تب بھی وہ گلائےڈنگ کرنا بند نہےں کرتا اور کم از کم 25کلو مےٹرز تک سےدھا پرواز کرتا رہتا ہے۔ اس دوران میں پائلٹ کو طےارے کو قدرے نےچے لا کر انجن کو بند کرکے دوبارہ آن کرنا ہو تا ہے۔ اس طرح جہاز کو حادثے سے بچاےا جاتا ہے۔ لےکن اس بدقسمت پی کے 661نے ذرا بھی گلائےڈنگ نہ کی۔ اس کی وجہ بظاہر ےہی معلوم ہوتی ہے کہ اوّل تو اس کے انجن نے پائلٹ کا ساتھ نہ دےا۔ دوسرے اس کے اسٹرکچر ےعنی باڈی مےں کچھ نہ کچھ نقص پےدا ہوا اور اس کا توازن ختم ہو گےا ۔ ےہ رائے بھی ہے کہ غالباً جہاز کا داےاں انجن اےک بار بند کرکے دوبارہ آن کےا گےا تو وہ اُلٹا چلنا شروع ہو گےا تھا ۔ جائے حادثہ پر جہاز کے ملبے سے اس کے مےٹرز کی جو تصاوےر کھےنچی گئی ہےں اس سے پتہ چلتا ہے کہ تمام مےٹرز کی سوئےاں زےرو پر تھی ےعنی نہ صرف انجن بلکہ کمپرےسرز بھی فضا مےںہی مکمل بند ہو چکے تھے گوےا جہاز کو ہوا مےں ہی برےکس لگ چکے تھے لہذا وہ گلائےڈنگ کرنے کے بجائے دھڑام سے نےچے آگرا ۔ جہاز کے پائلٹ صالح جنجوعہ اےک پےشہ ور پائلٹ تھے وہ 12ہزار گھنٹوں سے زائد فلائنگ کر چکے تھے اور انہےں شمالی علاقہ جات مےں پرواز کے حوالے سے مہارت حاصل تھی ۔ بےنظےر بھٹو ائر پورٹ جائے حادثہ سے صرف 80کلو مےٹر کے فاصلے پر رہ گےا تھا۔ کاش ےہ 80کلومےٹرز اور اُڑ پاتا۔
پی کے 661اےک اے ٹی آر500جہاز تھا۔ےہ 3مئی2007کو تےار ہوا اور 14مئی2007کو پی آئی اے کے حوالے ہوا، اس کی رجسٹرےشن 18مئی2007کو ہوئی اس کا رجسٹرےشن نمبرAB-BHOاور نام ”حسن ابدال“ رکھا گےا تھا ےہ 89فٹ لمبا تھا، انٹرنےشنل ائر ٹرےول اےسوسی اےشن(IATA) کے مطابق پی کے661اضافی7500 کلو گرام وزن اٹھا سکتا تھا اور اس مےں اوسطاً68سے70افراد کے سوار ہونے کی گنجائش موجود تھی گوےا طےارے کے 47مسافر اور ان کا سامان وغےرہ مقررہ حد کے اندر ہی تھا، مسئلہ انجن کا ہی تھا ۔ پی آئی اے حکام کے مطابق سن 2014ءمےں اس جہاز کے انجن مےں خرابی کی شکاےت کے بعد پورا انجن ہی تبدےل کر دےا گےا تھا اور ےہ طےارہ اےک ماہ قبل اے کلاس چےک ہوا تھا ۔ بہر کےف وجہ کچھ بھی ہو بلےک باکس مل چکا ہے مگرشاےد تفتےش کبھی نہ ہو سکے گی، اگر رسمی طور پر ہوئی بھی تو پچھلے حادثات کی طرح جہاز کا پائلٹ غرےب صالح جنجوعہ ہی ”اصل“ قصور وار نکلے گا۔ ٹائےں ٹائےں فش۔
حکومت نے سوگ کا اعلان کےا ، چےئرمےن پی آئی اے نے تحقےقات کروانے اور مسافروں کے لواحقےن کو پانچ لاکھ فی کس ادا کرنے کا اعلان کےا اللہ اللہ خےر سلّا۔ اب رےلوے کے وزےر کراچی مےں ببانگِ دھل کہہ گئے کہ جہاز مےں کوئی خرابی نہےں تھی ۔ سمجھ نہےں آتی کہ ان کی اس معاملے مےں بولنے کا کےا تُک ہے ،کےا وہ اےوی اےشن کے ماہر ہےں ےا تحقےقاتی کمےٹی کے رُکن۔ ےقےنا اےسا تو کچھ نہےں مگر لگتا ہے وہ جہاز کے حادثے کوبھی مےاں صاحب کی ساکھ پر دھبہّ سمجھتے ہےں۔ اس لئے ”نوکری پوری کرنے سے “ ےہاں بھی نہےں چُوکے حالانکہ دھّبہ ،مےاں صاحب کی ساکھ پر حادثے سے نہےں حادثے کے بعد کے طرزِ عمل سے ضرور لگتا ہے بہر کےف حکمرانوں اورپی آئی اے حکام کو چھوڑئےے ان سے اللہ ہی پوچھے گا سوال تو آپ کے اور مےرے جےسے عام آدمی کے طرزِ عمل کا ہے جہاں تک پی آئی اے کا تعلق ہے، اس نے تو مسافروں کو براہِ راست جنت پہنچانے کی سروس شروع کر رکھی ہے ، ان کا سلوگن ہے ”کم فلائی وِداَس“ اب کسی دل جلے نے فلائی کاٹ کہ”ڈائی“ (Die) لکھ دےا ہے ۔
لاشےں پمز ہسپتال کے سرد خانے مےں پڑی ہےں ، مسافروں کے اہل خانہ غم سے نڈھال ہےں ، اےک جنےد جمشےد پر ہی کےا موقوف اس ائر ہوسٹس کے دو معصوم بچے بار بار باپ سے کہتے ہےں ”پاپا مّما کو بلاﺅ“۔ ڈی سی چترال کو چاہنے والوں کے آنسو ہےںکہ تھمنے کا نام نہےں لے رہے ۔کہتے ہےں غم کا کوئی مسلک نہےں ہو تا مگر اےسا شاےد برازےل اور بولےوےا جےسے معاشروں کےلئے ہی کہتے ہو ں گے جہاں فٹ بال ٹےم کا ترجمان جہاز کے حادثے کے بعد ٹی وی کےمروں کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے زاروقطار رو پڑا، اس نے کہا کہ مےں نے انہےں روانہ کرتے ہوئے انکی آنکھوں مےں خواب دےکھے تھے وہ سب خواب برباد ہوگئے، اب مےں کبھی اسٹےڈےم کی گھاس پر پاﺅں بھی نہےں رکھ سکوں گا۔ اگلے روز برازےل کے لاکھوں لوگ ہاتھوں مےں گلاب کے پھول لیے اپنے اپنے گھروں کے قرےب اسٹےڈےم مےں ننگے پاﺅ ں جمع ہوگئے۔
بد قسمت پی کے 661کے سب سے نماےاں مسافر جنےد جمشےد تو اپنے ہمراہ اپنی مغفرت کےلئے بہت سی جمع پونجی لے گئے، انہوں نے اللہ کی تسبےح اور اس کے رسول ﷺکی توصےف کرتے ہوئے اپنی جان فرشتہ¿ اجل کے سپرد کی مگر ہم کےا کرنے مےں لگے ہےں کوئی انہےں گستاخِ رسول ثابت کرنے مےں مصروف ہے اور کوئی پکا جنّتی ، معلوم نہےں جنّت دوزخ کا فےصلہ کرنے والے ےہ لوگ کون ہےں جو اتنے دلےر ہےں کہ اللہ کے فےصلے بھی اپنے ہاتھ سے کرنے کے بزعم خود دعوےدار ہےں ، جنےد جمشےد کا جنازہ تو ابھی نہےں پڑھاےا گےا مگر اس سال امجد صابری کے بہےمانہ قتل ، عبدالستار اےدھی کے انتقالِ پر ملال اوراب جنےد جمشےد کی المناک موت کے بعد قوم کا روّےہ دےکھ کر ےقےن ہو چلا ہے کہ ہماری تہذےب کا جنازہ ضرور اٹھ چکا ہے ۔
مےں نے کئی بار سوچا کہ فلائٹ اےل اےم آئی2933اور پی کے 661کی قسمت اےک جےسی ہے مگر کہانی اتنی مختلف کےوں ہے،اندر سے جواب آےاجب تک ہم لاشوں پر رقص کناں رہےں گے ، جب تک ہمارے مردے متنازع اور غم مسالک کی چادروں مےں لپٹے رہےں گے کبھی گڈانی کے ساحلوں پر کھڑے ہمارے بحری جہازوں مےں آگ لگے گی،کبھی ہمارے فائےو اسٹار ہوٹل جلےں گے ، ہماری ٹرےنےں پٹرےوں سے اُترتی رہےں گی اور جہاز پہاڑوں سے ٹکراتے رہےں گے اور کوئی ذمہ دار کبھی انصاف کے کٹہرے تک لاےا نہےں جا سکے گا۔
یہ تحریر پی آئی اے کے چیئرمین کے استعفیٰ سے قبل سپرد قلم کی گئی تھی۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں