دہشت گردی کیخلاف قائم پولیس کا محکمہ
شیئر کریں
سی ٹی ڈی شہریوں کیلئے دہشت کی علامت بن گیا
رپورٹر کی ڈائری
سندھ پولیس میں جہاں اچھے بہادر اور ایمان دار افسران واہلکار موجود ہیں وہیں اس محکمے میں وردی کے پیچھے چھپی ہوئی کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں، سینٹرل پولیس آفس میں کام کرنے والے ہر پولیس والے کی زبان پر ان ایمان دار بے ایمان افسران کی درجنوں کہانیاں ہر وقت رہتی ہیں، ایسی ہی ایک کہانی کا ذکر ان سطور کے ذریعے آپ تک پہنچا رہا ہوں، سندھ پولیس کا ایک سینئر افسر کراچی میں نوجوان کے اغوا اور رہائی کے نام پر 30لاکھ روپے تاوان کی واردات میں ملوث پایا گیا ہے۔ تحقیقات میں جرم ثابت ہونے پر آئی جی سندھ نے اس افسر کا تبادلہ کردیا۔ تحقیقات کے دوران سی ٹی ڈی کا ایک اور افسر بھی پیٹی بند بھائی کا سہولت کار ثابت ہوا ہے۔ دوسری جانب چوہدری اسد نے الزام کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے سے ان کوئی تعلق نہیں ہے انکی تعیناتی سی ٹی ڈی(کاﺅنٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ) میں نہیں تھی۔ تفتیشی رپورٹ کے مطابق 13 اکتوبر 2015کو کراچی کے دو بھائیوں سلیم احمد اور اخلاص احمد کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے سانحہ صفورا میں ملوث ہونے کے الزام میں گھر سے حراست میں لیا تھا۔ اہل خانہ کی مداخلت پر سی ٹی ڈی کے عملے نے اخلاص احمد کو تو چھوڑ دیا مگر سلیم احمد کی رہائی کے لئے ڈیل کرنے کا کہا گیا۔ سلیم احمد کے برادر نسبتی فیروز احمد اپنے دوست کیپٹن ریٹائرڈ شہزاد سہیل کے ہمراہ پولیس ہیڈ کوارٹر، گارڈن میں واقع ایس ایس پی فارنسک کیپٹن ریٹائرڈ محمد اسد علی کے پاس پہنچے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایس ایس پی چوہدری اسد علی نے ان سے بات چیت کے بعد اعجاز نامی شخص کا فون نمبر دے کر اس سے رابطہ کرنے کو کہا۔ رابطہ کرنے پر اعجاز نے سلیم احمد کی رہائی کیلئے 50لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق معاملہ 30لاکھ روپے میں طے ہوا۔ جس کے بعد 23اکتوبر 2015 کو اعجاز احمد کو 10لاکھ روپے ادا کئے گئے جبکہ فیروز احمد نے باقی 20لاکھ روپے 26اکتوبر 2015کو اعجاز کے ہمراہ جاکر ایس ایس پی کیپٹن اسد علی کو کیش کی صورت میں ادا کئے۔ رپورٹ کے مطابق 30لاکھ روپے کی ادائیگی کے باوجود سلیم احمد کو رہا نہیں کیا گیا اور ایس ایس پی کیپٹن اسد علی کئی روز تک مسلسل جھوٹے وعدے کرتے رہے بعد ازاں دھمکیوں کے بعد مزید رقم کا تقاضا شروع کردیا گیا۔تاہم اس خاندان نے 17دسمبر 2015کو عدالتی چارہ جوئی کے بعد سلیم احمد کو رہا کرالیا۔ جس کے بعد 29جنوری 2016 کو سادہ لباس اہلکارسلیم احمد کو گھر سے پھر حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔ جس کے بعد اس خاندان نے 28مارچ 2016کو سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن نمبر ڈی 1280دائر کی۔جس کے بعد 20جولائی 2016 کو سلیم احمد اچانک گھر واپس آگیا اور بتایا کہ اسے کیپٹن اسد علی اور سی ٹی ڈی کے لوگوں نے ہی اغوا کیا تھا اور لاپتہ ہونے کے عرصے میں وہ اسی ادارے کے کسی نجی ٹارچر سیل میں قید رہا۔جس کے بعد اس خاندان نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو تمام واقعات پر مشتمل تحریری درخواست دی۔ آئی جی سندھ نے آرڈر نمبر 933843کے ذریعے اس معاملے کی انکوائری ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کے حوالے کی۔جنہوں نے 29اگست کو تحقیقات کا آغاز کیا اورایس ایس پی اسد علی، اس کے فرنٹ مین اعجاز، فیروز احمد کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کیا تو 20اکتوبر 2015کے بعد تک کے عرصے میں مسلسل رابطے کی تصدیق ہوگئی۔ ثنا اللہ عباسی کے مطابق اغوا، حبس بے جا، 30لاکھ روپے کی رشوت کا جرم ثابت ہوا ہے جس پر ایس ایس پی کے خلاف اغوا برائے تاوان، بھتا، سرکاری طاقت کے بے جا استعمال پر مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی۔ تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے چوہدری اسد علی کو اینٹی انکروچمنٹ کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹانے کا آرڈر 17ستمبر کا جاری کیا۔ اس سلسلے میں موقف دیتے ہوئے انہوں نے الزام لگانے والے فریق کو جھوٹا قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی سی ٹی ڈی میں نہیں تھی۔اس معاملے سے انکا کوئی تعلق نہیں ہے،ایک اور معاملہ بھی سی ٹی ڈی کے حوالے سے سامنے آیا ہے سی ٹی ڈی نے دہشت گردوں کو پکڑنے کا کام چھوڑ کر زمینوں پر قبضوں کیلیے شارٹ ٹرم کڈ نیپنگ شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں سینٹرل پولیس آفس کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی ایس پی سی ٹی ڈی علی رضا نے بے گناہ شہری یوسف کو نرسری میں اپنے گھر سے اٹھا کر اس کے گھر سے اسکیم 33میں 4ایکڑ زمین کی ملکیت والی فائل منگواکر اپنے قبضے میں لیتے ہوئے دہشت گرد ظاہر کرکے فل فرائی کرنے کی دھمکی دی اور زمین کے معاملے سے ہاتھ اٹھانے کا حکم صادر فرمایا ہے ۔ مذکورہ زمین ہائیکورٹ کے حکم پر اینٹی انکروچمنٹ سیل نے چند روز قبل قبضہ مافیا سے واگزار کراکر اصل مالک یوسف کے حوالے کی تھی جسکو سی ٹی ڈی ٹیم نے اغوا کرکے تاوان میں ملکیت کا فائل چھین لیا ہے ۔ سی ٹی ڈی سربراہ ثنااللہ عباسی نے افسران کو غیر قانونی سرگرمیوں سے سختی سے دور رہنے کاحکم دیا ہے تاہم ڈی ایس پی علی رضا کس کے کہنے پر قبضہ مافیا کا ساتھ دے رہا ہے ،اس سوال کے جواب کاتو ظاہر ہے سب کو اندازہ ہوگا۔