میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلوچستان میں 100دنوں میں تیسری بڑی دہشت گردی

بلوچستان میں 100دنوں میں تیسری بڑی دہشت گردی

منتظم
اتوار, ۱۳ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

کیا سانحہ شاہ نورانی سیکورٹی اداروں کی ناکامی نہیں ؟؟؟
7کلوگرام سے زائد دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا جبکہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کے لیے بال بیرنگز کا بھی استعمال کیا گیا
شاہ نورانی مزار پر خودکش حملہ کرنے والا کم عمر اور افغانی لگتا تھا،5نومبر کو حکومت کی جانب سے الرٹ جاری کیا جا چکا تھا
وحید ملک
بلوچستان میں رواں سال تیسرا بڑا سانحہ شاہ نورانی کا ہے، سو دنوں کے دوران تیسرے بڑے واقعے میں درجنوں افراد شہید ہوگئے۔ 8اگست کوسول اسپتال کوئٹہ میں خودکش حملہ ہوا جس میں 80 افراد شہید ہوئے۔ دھماکے سے قبل کوئٹہ کے نواحی علاقے نوجان روڈ پر فائرنگ سے وکیل رہنما بلال انور کاسی شہید ہوئے، درجنوں وکیل ایمرجنسی پہنچے تو وہاں خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا جس سے 80شہادتیں ہوئیں،80افراد میں سے 50وکیل تھے،ڈیڑھ سو افرادزخمی بھی ہوئے۔ابھی اس واقعے کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ 24اور 25اکتوبر کی درمیانی رات ایک اور خوفناک حملہ کیا گیا، پولیس ٹریننگ سینٹر پررات تین دہشت گردوں نے اس وقت یلغار کی جب وہاں 700 کے قریب زیرتربیت پولیس اہلکار موجود تھے،اندھا دھند فائرنگ اور خودکش دھماکے میں 61ریکروٹ موقع پر شہید ہوئے، دو نے اسپتال پہنچ کردم توڑ دیا ،150اہلکار زخمی ہوئے۔ ہفتے کو ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کے دور افتادہ علاقے میں شاہ نورانی کی درگاہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، دھماکا درگاہ میں دھمال کے لیے مخصوص کی گئی جگہ پرکیا گیا جہاں درجنوں زائرین موجود تھے۔واضح رہے صوبہ بلوچستان میں پڑوسی ملک بھارت کی در اندازی اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آچکے ہیں حال ہی میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے حاضر افسرکلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور انکشافات کے بعد پاکستان نے عالمی سطح پربھی بھارتی جارحیت اور دہشت گردوں کی معاونت پر آواز اٹھائی تھی۔
بلوچستان کے ضلع خضدار میں واقع شاہ نورانی کے مزار پر دھماکے کی ابتدائی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے، رپورٹ کے مطابق دھماکا خود کش تھا اور حملہ آور نے شام 5بج کر 50منٹ کے قریب اس جگہ خود کو دھماکے سے اڑایا جہاں دھمال ہورہا تھا۔7کلوگرام سے زائد دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا جبکہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کے لیے بال بیرنگز کا بھی استعمال کیا گیا، مزار پر کوئی چاردیواری نہیں ہے۔شاہ نورانی مزار پر خودکش حملہ کرنے والا کم عمر اور افغانی لگتا تھا،تحقیقاتی حکام کے مطابق دھماکے میں ایک سے زائد کالعدم تنظیموں کا گٹھ جوڑ تھا۔بلاول شاہ نورانی کا مزار خضدار میں لیویز ایریا میں آتا ہے، جہاں مزار اور اس کے اطراف میں 12 لیویز اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔تحقیقاتی حکام کے مطابق شاہ نورانی کے مزار کے اطراف کوئی چار دیواری نہیں تھی اس لیے مزار پر میٹل ڈیٹیکٹر یا واک تھرو گیٹس بھی نہیں لگائے گئے تھے۔حکام کے مطابق اس طرح کے دھماکے کراچی میں عبداللہ شاہ غازی، داتا دربار لاہور اور پشاور کے رحمان بابا اور پنج پیری مزارات میں ہوچکے ہیں۔ سی پیک سلسلے میں تجارتی جہاز کی گوادر سے روانگی سے چند گھنٹے قبل بلوچستان کے علاقے حب میں درگاہ شاہ نورانی کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ واقعے میں افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور بھارتی ایجنسی را ملوث ہیں، ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ وفاق کی جانب سے افغانستان سے دہشت گرد بلوچستان بھیجے جانے کا الرٹ پانچ نومبر کو جاری کیا گیا تھا کہ دہشت گرد قلعہ عبداللہ کے راستے داخل ہوئے ہیں۔سی پیک منصوبہ پاکستان دشمن قوتوں کی آنکھ میں بری طرح کھٹک رہا ہے۔ اس لئے سی پیک کے تحت تجارتی سامان کی پہلی کھیپ کی روانگی سے ایک دن قبل دھماکا کیا گیا۔ پاکستان کی ترقی روکنے کے لئے دشمن ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ محکمہ داخلہ بلوچستان نے تمام اداروں کو خود کش حملہ آوروں کے داخلے کی اطلاع دی تھی۔ حساس اداروں کی اطلاع کے مطابق خود کش حملہ آور عوامی مقامات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ درگاہ پر حملے میں را کے ملوث ہونے کے پہلو پر بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ہفتے کی شام بلوچستان میں شاہ نورانی کے مزار پر خودکش حملے میںخواتین اور بچوں سمیت 52افراد جاں بحق اور 100سے زائد زخمی ہوگئے،درجنوں خاندان اپنے پیاروں کی تلاش میں کراچی اور حب کے اسپتالوں میں مارے مارے پھرتے رہے ،دھماکے میں جاں بحق 6افراد کا تعلق کراچی کے ایک ہی خاندان سے تھا۔بلوچستان کے ضلع خضدار میں واقع شاہ نورانی کے مزار میں ہفتے کی شام زائرین پر قیامت ٹوٹ پڑی،غروب آفتاب کے وقت خودکش دھماکا کئی قیمتی جانوں کے چراغ گل کرگیا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے مزار کے احاطے میں 600سے زائد افراد موجود تھے اور دھمال ڈالا جارہا تھا کہ اس دوران دھماکا ہوا اور پھر ہر طرف خون ہی خون پھیل گیا۔ڈی سی خضدار سہیل رحمان کا کہنا ہے حملہ آور نوجوان تھا، دھماکے کے لیے 8سے 10کلوگرام بارودی مواد اور بال بیرنگ استعمال کیے گئے۔دھماکے سے متعدد افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے ، زخمیوں اور لاشوں کو حب اور کراچی کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ۔ کئی زخمی فوری طبی امداد نہ ملنے سے اسپتال لے جاتے ہوئے چل بسے،دھماکے کی اطلاع ملتے ہی اسپتالوں میںایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی۔سول اسپتال حب میں مناسب طبی سہولتیں نہ ہونے کے باعث زیادہ تر زخمیوں کو کراچی منتقل کیا گیا۔پاک آرمی کی میڈیکل کور بھی جدید ایمبولینس کے ساتھ شاہ نورانی پہنچیں جبکہ پاک بحریہ، ایف سی ، رینجرز اور ایدھی کی امدادی ٹیمیں بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف رہیں۔واقعے کے بعد مزار کے احاطے کو کلیئر کردیا گیا ہے، اتوارکی صبح 7بجے کے بعد سیکورٹی اداروں نے شاہ نورانی کا مزار زائرین کے لیے دوبارہ کھول دیا ہے۔ سینئر ایم ایل او سول اسپتال قرار عباسی کا کہنا ہے کہ اب تک 36لاشیں سول اسپتال لائی جا چکی ہیں۔ 34جاں بحق افراد کی لاشوں کو شناخت کے بعد لواحقین کے حوالے کر دیا گیا ہے 42زخمیوں کو بھی سول اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ وزیر صحت سندھ سکندر میندرو نے سول اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔ انہوں نے اسپتال عملے کو زخمیوں کو بہتر طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔سول اسپتال حب میں 2لاشیں اور 13زخمی منتقل کئے گئے ۔ ایدھی فاونڈیشن کے فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ شاہ نورانی سے باقی لاشیں اور زخمی افراد کی منتقلی کے لئے ریسکیو کارراوئیاں جاری ہیں۔ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہناہے کہ سانحہ نورانی کے زخمیوں میں زیادہ تعدادکراچی کے لوگوں کی ہے۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کراچی کے سول اسپتال میں سانحہ نورانی کے زخمیوں کی عیادت کی اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہناتھا کہ اس سانحے کے بعد شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عرس کے لیے سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔وزیراعلی سندھ کا کہناتھا کہ کمشنرکراچی کو احکامات جاری کیے ہیں کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے جلداز جلد معلومات اکھٹی کی جا ئیں۔انہوں نے کہا کہ محکموں میں اہم مسئلہ افرادی قوت کا ہے جس کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعلی سندھ کا کہنا تھاسول اسپتال میں 42کے قریب زخمی آئے تھے ان میں سے16کو طبی امداد کے بعد فارغ کردیا ہے اور باقی 29افراد میںسے 4سے 5افراد زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔مرادعلی شاہ کا کہناتھا کہ 34لاشوں میں سے 32کی شناخت ہوچکی ہے جو قانونی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کردی جائیں گی تاہم دو افراد کی شناخت نہیں ہوسکی۔داعش نے شاہ نورانی درگاہ خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ بین الاقوامی خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق داعش کی خبر ایجنسی عماق کے مطابق جاری بیان میں داعش نے کہا ہے کہ شاہ نورانی درگاہ کو انہوں نے نشانہ بنایا۔
آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن نے کہا ہے کہ خودکش حملہ آور کا سر مل گیا ہے اور متعلقہ محکمے تفتیش کررہے ہیں۔میجر جنرل شیر افگن نے شاہ نورانی کے مزار کا دورہ کیا، اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں انہو ں نے کہا کہ دھماکے کے منصوبہ سازوں تک پہنچ گئے ہیں۔آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ شاہ نورانی دھماکے میں کون ملوث ہے تحقیقات سے پہلے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔کمشنر قلات ڈویژن ہاشم غلزئی نے میڈیا سے گفتگومیں کہا کہ واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں، سیکورٹی میں کوئی غفلت پائی گئی تو غفلت کرنے والوں کو نہیں بخشیں گے۔
٭٭٭٭
شاہ نورانی کا مزار
خضدار کے علاقے نورانی کی وجہ شہرت حضرت سید بلاول شاہ کا صدیوں پرانا مزار ہے، جہاں ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں۔بلوچستان کے ضلع خضدار کا علاقہ شاہ نورانی کراچی سے 200کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، یہ مقام چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، علاقے کی وجہ شہرت صدیوں پرانا حضرت سید بلاول شاہ نوارنی کا مزار ہے۔شاہ نورانی سنگلاخ پہاڑی علاقہ ہے، دور دراز ہونے کے سبب علاقے میں کوئی اسپتال نہیں، مکین بجلی،موبائل فون سروس اور دوسری اہم اور بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔زائرین اپنی گاڑیوں کے ذریعے محبت شاہ کے علاقے تک پہنچ پاتے ہیں، مزار جانے کے لیے یا تو دشوار گزار راستوں پر پیدل چلنا پڑتا ہے یا پھر وہاں چلنے والے ٹرک کا استعمال کرنا پڑتا ہے جسے کیکڑا کہتے ہیں۔زائرین کو علاقے میں گھاٹیاں، نوکیلے پتھروں اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کمیونیکیشن کی مخدوش صورتحال، درجنوںافراد لاپتا
درگاہ شاہ نورانی پر دھماکے سے کئی گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ، کئی افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری سے بڑی تعداد میں لوگ درگاہ شاہ نورانی گئے تھے۔گلستان جوہرکے ایک خاندان کے 15افراد بھی گزشتہ صبح شاہ نورانی گئے تھے۔میٹھادرسے بھی خواتین اور بچوں سمیت 70 سے زائد افراد درگاہ شاہ نوارانی گئے ہیں، رشتے داروں کا کہنا ہے کہ کسی سے بھی رابطہ نہیں ہورہا،درگاہ شاہ نورانی پر خودکش دھماکے میں جہاں کئی زائرین جانوں سے گئے وہیں درجنوں افراد لاپتہ ہیں۔ لانڈھی کے ایک ہی خاندان کے 28افراد درگاہ پر حاضری کیلئے گئےجبکہ حیدرآباد کے 60سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ ان کے خاندان کے کسی بھی فرد سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی نادرحسین نے سول ہسپتال کے باہر گفتگو میں کہنا تھا کہ لاپتا افراد کی تلاش کیلیے بلوچستان انتظامیہ سے رابطہ کیا جارہا ہے۔
شاہ نورانی مزار پر ہلاک ہونے والے6افراد سپرد خاک
سانحہ شاہ نورانی میں جاں بحق ماں بیٹی اور دو سہیلیوں سمیت کراچی کے رہائشی چھ افراد کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی، لیاقت آباد اور لانڈھی سے جنازے اٹھنے پر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی، پیاروں کے بچھڑنے پر گھروں میں بھی کہرام مچ گیا۔دہشت کی بھینٹ چڑھ کر زندگی سے منہ موڑنے والی دو سہلیوں سمیت چھ افراد منوں مٹی تلے جا سوئے۔ سانحہ شاہ نورانی میں جاں بحق چودہ سالہ اقصیٰ، اس کی ماں اور سہیلی اقراءکے جنازے اٹھے تو کہرام مچ گیا۔ لواحقین دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔نماز جنازہ میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ علاقے کی فضاءبھی سوگوار رہی۔ لیاقت آباد میں بھی سانحہ شاہ نورانی میں جاں بحق تین افراد کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ لیاقت آباد کے محمدی گراو¿نڈ میں نماز جنازہ کے وقت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے
بلوچستان میں رواں سال40بم دھماکے
بلوچستان میں رواں برس اب تک چالیس بم دھماکوں میں دو سو سے زائد شہری اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ پانچ سو زائد زخمی بھی ہوئے۔بلوچستان کی سرزمین دہشت گردوں کا آسان ہدف بن گئی سفاک دہشت گرد کہیں سے بھی آتے ہیں اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل جاتے ہیں۔جنوری میں دہشت گردوں نے کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاو¿ن میں قائم پولیو سینٹر کو نشانہ بنایا،خودکش حملے میں تیرہ سیکیورٹی اہلکاروں سمیت سولہ افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ پچیس سے زائد زخمی بھی ہوئے۔چھ فروری کی صبح کوئٹہ ایک بار پھر زور دار دھماکے سے گونج اٹھا۔اس بار سیٹلائٹ ٹاو¿ن کے قریب سیکیورٹی فورس کی گاڑی پر حملہ کیا گیاجس کے نتیجے میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت تیرہ افراد جاں بحق اور اڑتیس زخمی ہوئے۔آٹھ اگست کا سورج کوئٹہ کے لیے ہولناک صبح لے کر طلوع ہوا،ظالم دہشت گردوں نے سول اسپتال کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بنایاخودکش حملے میں پچھتر افراد شہید اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔چوبیس اکتوبر کی شب دہشت گردوں نے ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی،اس بار نشانہ بنایا گیا نیو سریاب پولیس کالج کو دہشت گردوں کے حملے میں چونسٹھ جوان شہید اور ڈیڑھ سو زائد زخمی ہوئے تھے۔رواں برس اب تک چالیس بار بلوچستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاچکا ہے جس میں سیکیورٹی فورسز کے جوانوں سمیت دوسو کے قریب افراد جاں بحق اور پانچ سو سے زائد زخمی ہوئے۔
شاہ نورانی مزار حملے میں خاتون خود کش بمبار؟
شاہ نورانی کے مزار پر دھماکے میں خاتون کے ملوث ہونے کا انکشاف ہو ا ہے۔ذرائع کے مطابق بزرگ بلا ل شاہ نورانی کے مزار پر گزشتہ شب ہونے والے دھماکے میں ایک خاتون کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مزار کے احاطے میں نماز مغرب سے پہلے دھمال ڈالی جا رہی تھی کہ ایک خاتون نے زور دار آواز میں کہا کہ ”دیکھنا ابھی کیا ہونے والا ہے “۔ خاتون کے ان الفاظ کے چند منٹ بعد ہی مزار ایک زور دار دھماکے سے گونج اٹھا۔عینی شاہدین نے مزید بتایا کہ مردوں کے احاطے میں مشکوک خواتین کے آنے کے چند مٹ بعد ہی دھماکا ہوا تاہم ان خواتین کو کوئی بھی پہچان نہیں سکا کیونکہ وہ نقاب میں چھپی ہوئی تھیں۔دھمال کے دوران ہونے والے دھماکے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 52افراد شہید اور 100سے زائد زخمی ہیں۔ جنہیں کراچی کے سول اور عباسی شہید کے علاوہ دیگر ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے ۔
پاکستان میں مزاروں پر حملے
پاکستان میں ماضی میں بھی دہشت گردوں نے درگاہوں کو نشانہ بنایا ہے، امن دشمنوں نے کراچی کے عبداللہ شاہ غازی، لاہور کے داتا دربار اور ڈیرہ غازی خان کے دربار سخی سرور میں زائرین کو نشانہ بنایا تھا۔کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر اکتوبر 2010 میں ہونے والے دھماکوں میں 8 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ڈیرہ غازی خان میں 2011 میں صوفی سخی سرور کے مزار پر خود کش حملے میں 50 افرادجاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔27 مئی 2005 میں اسلام آباد میں بری امام کے مزار پر خود کش بم حملے میں 18 افراد جاں بحق اور 86 زخمی ہوئے تھے۔یکم جولائی 2010 میں داتا دربار پر 3 دھماکوں میں 35 سے زائد افراد جاں بحق اور 170 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔25 فروری 2013 کو شکارپور کی درگاہ غازی غلام شاہ میں ہونے والے دھماکے میں 3 افراد جاں بحق اور 24 زخمی ہوگئے تھے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں