میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

ویب ڈیسک
منگل, ۱۳ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
قوم ہر سال 14/اگست کوپاکستان کایومِ آزادی بڑے جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔میڈیا میں اس دن کے حوالے سے بہت سیر حاصل معلومات پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں اور اسی حوالے سے اسلامیانِ برصغیر کے متفقہ،جرات مند اور بے داغ کردارکے مالک قائد اعظم نے قیامِ پاکستان کی صورت میں جو عظیم اور تاریخی کارنامہ انجام دیا،اس پر خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے تقریبات کا اہتمام کیا جاتاہے۔بی بی سی کے زیرِ اہتمام ایک عالمی سروے میں قائد اعظم کو جنوبی ایشیا کا عظیم ترین رہنما تسلیم کیا گیا ہے۔ان کی عظمت کے کئی پہلو ہیں ،جن کا اعتراف دنیا کے تمام انصاف پسند حلقوں نے کیا ہے حتی کہ منصف مزاج ہندو مصنفین اور دانشوروں نے بھی ان کی جرات و استقامت ،بالغ نظری ،دور اندیشی ،جمہوریت وقانون پسندی اور دیانت وامانت کو خراجِ تحسین پیش کیا اور بعض ہندورہنماں نے یہ تک کہا کہ کانگرس میں ایک قائد اعظم ہوتا تو برصغیر کی تقسیم نہ ہوتی ۔
قائد اعظم نے علیحدہ وطن کا مطالبہ اس وقت کیا جب سفیر اتحاد کی حیثیت سے برصغیر کی دونوں قوموں کو اکٹھا رکھنے اور ہندو اکثریت کو مسلم اقلیت کے سیاسی و اقتصادی حقوق جمہوری اصولوں کے مطابق تسلیم کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور انتہا پسند ،تنگ نظراور مسلم دشمن کانگریسی قیادت نے ثابت کردیا کہ وہ متحدہ ہندوستان میں ماضی کی حکمران مسلمان قوم کا وجود برداشت کرنے اور آزادی کے بعد اسے عزت و احترام کے ساتھ اپنے ساتھ رکھنے پر آمادہ نہیں۔قائداعظم نے ایک گولی چلائے بغیر اپنی باعزم قیادت اور اسلامیانِ برصغیر کی جمہوری جدوجہد کے ذریعے آزاد خود مختارریاست حاصل کی جس کے بارے میں وہ باربار یقین دلا چکے تھے کہ نئی ریاست اسلام کا قلعہ ہوگی اور اس کے سنہری اصولوں کا احیا کرے گی،جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت کام کرے گی اور جدید تقاضوں کے مطابق صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست ہوگی۔
اقبال نے دوقومی نظریہ کے تحت ایک آزاد مسلم ریاست کو جو تصور پیش کیا اور جسے قائد اعظم نے حاصل کرنے کیلئے مردانہ وار جدوجہد کی، اس کے بارے میں بانی پاکستان نے بار بار واضح کیا کہ وہ مسلمانوں کے معاش اور روزگار کا مسئلہ حل کرے گی۔ایک موقع پر انہوں نے کھل کر یہ کہا کہ مجھے ایسے پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں جو جاگیرداروں،وڈیروںاور سرمایہ داروں کے حقوق کا محافظ ہو۔قائد اعظم نے اپنی زندگی میں پاکستان کیلئے اسلامی جمہوری پارلیمانی نظا م پسند کیا،آئین کے بارے میں واضح طور پر کہا کہ اسلام کے جمہوری اصولوں کے مطابق مدون ہوگا۔نئی ریاست میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہونگے جو اسلام نے انہیں عطا کئے ہیں اور فوج کا کردار منتخب جمہوری حکومت کے ایک ماتحت ادارے کا ہوگا۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قائد کی زندگی ہی میں فوج کے انگریز کمانڈرانچیف نے حکم عدولی کی اور قائد اعظم کے احکامات کے تحت پاکستان کی شہہ رگ کشمیر میں فوجی دستے بھیجنے سے انکار کیا جب کہ بھارت کے فوجی کمانڈر انچیف نے جواہرلال نہروکے احکام کی مکمل اطاعت کی اور سرینگر ائیر پورٹ پر قبضہ کرکے مجاہدین کے بڑھتے ہوئے قدم روک دیئے۔
قا ئد اعظم کی وفات کے صرف دس سال بعد جنرل ایوب خان نے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کر ملک میں فوج کی حکمرانی کا اصول متعارف کرایاجو کسی نہ کسی شکل میں مروج ہے اورآج زرداری صاحب بھی جمہوریت کی آڑ میں سترھویں ترمیم کے تحت فوجی ڈکٹیٹر کے تمام اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ موجودہ صدر نے فوجی یونیفارم نہیں پہنا ہوا بلکہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ڈکٹیٹر کے سارے اختیارات کے ساتھ قوم پر حکمرانی کر رہے ہیںجس کی وجہ سے یہ ملک اقبال اور قائد اعظم کی تعلیمات کے مطابق نہ تو جدید جمہوری پارلیمانی ریاست بن سکااور نہ اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکی ہے۔ البتہ فوجی حکمرانی اور ہمارے سیاسی لیڈروں کی غلط حکمت عملی کے نتیجے میں پاکستان کا اکثریتی حصہ جدا ہوگیااور باقی ماندہ ملک میں لسانی،نسلی فرقہ واریت ، صوبائی تعصبات اور اس خطے میں امریکی مداخلت نے ملک کو ایسے خطرات سے دوچار کر رکھا ہے کہ ملک کی سلامتی کی ہر وقت فکر رہتی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کو تاریخ کے حوالے سے بتایا جائے کہ کن مشکل حالات میں پاکستان کو حاصل کیا گیااس کا اندازہ ہمیں قائد اعظم کے اس خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے ٢٥ ستمبر١٩٤٤ء کو یعنی ملاقاتوں کے آخری دنوں میں گاندھی جی کو لکھا۔ قائداعظم لکھتے ہیںکہ آپ پہلے ہی قرارداد لاہور کے بنیادی اصولوں کو مسترد کر چکے ہیں، آپ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ مسلمان ایک قوم ہیں ،آپ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ مسلمانوں کو حقِ خود اختیاری ہے اور وہی اسے استعمال کر سکتے ہیں،آپ یہ نہیں مانتے کہ پاکستان دو خطوں اور چھ صوبوںپر مشتمل ہے ۔۔۔آپ سے خط و کتابت اور بحث کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوںکہ انڈیا کی پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کی آواز صرف آپ کے لبوں پر ہے ،یہ آپ کے دل کی آواز نہیں۔،،گاندھی کے اس رویے سے ناکامی اس بات چیت کا مقدر بن گئی۔
٢٩ستمبر١٩٤٤ کوویول نے اپنی ڈائری میں لکھاکہ مجھے (اس گفت و شنید سے)بہتر نتیجے کی توقع تھی۔اس سے ایک لیڈرکے طور پر گاندھی کی شہرت کو شدید دھچکا لگا ہے۔جناح کا کام بہت آسان تھا،انہیں گاندھی جی سے صرف یہ کہتے رہنا تھاکہ تم بکواس کر رہے ہو اور یہ بات ٹھیک بھی تھی لیکن انہوں نے یہ بات گستاخانہ انداز میں کی۔۔۔میرے خیال میں اس سے اپنے پیروکاروں میں جناح کی عزت تو شاید بڑھ گئی ہولیکن اس معقول آدمیوں کے درمیان ان کی شہرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔۔۔”ویول اور دیگر انگریز حکمرانوں کی نظر میں معقول آدمی وہ ہے جو ان ہی کے دماغ سے سوچے اور اس پر عمل کرے۔ان کی معقولیت کی ڈکشنری میں آزادانہ فکروعمل کی کوئی گنجائش نہیں!
مذاکرات کی ناکامی کے بعد قائد اعظم نے14/اکتوبر1944 کو ایک پریس کانفرنس میں اپنے نقطہ نظرکی وضاحت کی۔ایک اخباری نمائندہ نے ان سے پوچھاکہ کیا مستقبل قریب میں گاندھی جی سے آپ کی ملاقات کا کوئی امکان ہے؟قائد اعظم نے مزاحاًکہا کہ مسٹر گاندھی جی کہتے ہیں کہ اس کا انحصار ان کے دل کی آواز پرہے ،چونکہ میری وہاں تک رسائی نہیں ،اس لئے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ گاندھی جی کی نیت معاملات کو طے کرنے کی تھی ہی نہیں۔قائد اعظم سے گفت و شنید کے دوران ہی انہوں نے راج گوپال اچاریہ سے کہا تھا کہ اس بات چیت سے میرا اصل مقصد جناح کے منہ سے یہ کہلوانا ہے کہ پاکستان کا تصور ہی غلط اور لغو ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ گاندھی جی کو قائداعظم کی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ نہیں تھا اس لئے ان کی تمام تدابیر غیر مؤثر رہیں۔
1945میں قائد اعظم کو نظر آرہا تھا کہ اب برطانوی حکومت کو ہندوستان میں الیکشن کرانے ہی پڑیں گے چنانچہ انہوں نے اپنی مہم کا آغاز کرتے ہوئے ١٦/اگست ١٩٤٥ کو بمبئی سے یک بیان میں کہا کہ مسٹر گاندھی جی جب مناسب سمجھیںوہ کسی کے بھی نمائندے نہیں ہوتے ،وہ ذاتی حیثیت میں بات کرتے ہیں،وہ کانگرس کے چارآنے کے بھی رکن نہیں۔ وہ اپنے آپ کو صفر کر لیتے ہیں اور اپنی اندرونی آواز سے مشورہ کرتے ہیں،تاہم جب ضرورت پڑے تو وہ کانگریس کے سپریم آمر بن جاتے ہیںاور اپنے آپ کو سارے ہندوستان کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔مسٹر گاندھی ایک معمہ ہیں۔۔۔مسلمانوں اور مسلم لیگ کے خلاف کانگریس میں اتنا زہر اور تلخی ہے کہ انہیں نیچا دکھانے کیلئے وہ ہر سطح سے نیچے گر سکتی ہے اور تمام اصولوںکو ترک کر سکتی ہے۔
10/اکتوبر1945 کو کوئٹہ مسلم لیگ کے زیرِ اہتمام ایک جلسہ عام میں انہوں (قائد اعظم) نے گاندھی جی کی سیاست کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہاکہ:لیڈری حاصل کرنا ،پولیس لاٹھی چارج کے موقع پر بکری کی طرح بیٹھ جانا،پھر جیل چلے جانا،پھر وزن کم ہونے کی شکایت کرنااور پھر اس طرح رہائی حاصل کرلینا،میں اس قسم کی جدوجہد پر یقین نہیں رکھتالیکن جب آزمائش کا وقت آئے تو سب سے پہلے میں اپنے سینے پر گولی کھاؤں گا”۔
21نومبر1945کو پشاور میں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ کانگریس کو پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنا ہوگایا مسلمانوں کو کچلنا ہوگالیکن اب کوئی طاقت دس کروڑ مسلمانوں کو کچل نہیں سکتی۔24نومبر کو انہوں نے اسی شہر میں کہا کہ”جب تک میں زندہ ہوںمسلمانوں کے خون کا ایک قطرہ بھی بے فائدہ نہیں بہنے دوں گا،میں مسلمانوں کو کبھی بھی ہندوؤں کا غلام نہیں بننے دوں گا۔۔۔انگریز اور ہندو دونوں مسلمانوں کے دوست نہیں ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں یہ بالکل واضح ہے کہ ہمیں ان دونوں سے لڑنا ہے۔۔۔ہم ان کی متحدہ طاقت سے لڑیں گے اور انشا اللہ کامیاب ہوں گے۔”
3دسمبر1945 ء کو گاندھی جی کی بنگال کے گورنر،،کیسی(Casey)سے ملاقات ہوئی تو گاندھی جی نے ان سے کہا کہ”جناح ایک جاہ پسند آدمی ہیں اور ان کی سوچ یہ ہے کہ وہ ہندوستان،مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے درمیان رابطہ قائم کریں،میں نہیں سمجھتاکہ جناح اپنے ان خوابوں سے باہرآسکتے ہیں”۔دراصل گاندھی جی الیکشن کے نتائج اور اس کے متوقع اثرات کااندازہ ہورہا تھااس لئے قیامِ پاکستان سے پہلے ہی انہیںاسلامی یکجہتی کی فکر پریشان کر رہی تھی ،واضح رہے کہ یہ وہی گاندھی جی ہیں جومسلمانوں میں بھی اپنی لیڈرشپ قائم کرنے کیلئے تحریکِ خلافت کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے،اب وہ بنگال کے پاکستان مخالف گورنر کے ذہن کومزید زہر آلودکرنے کیلئے اپنے ترکش کے سارے تیر استعمال کررہے تھے۔
23مارچ 1946کو کیبنٹ مشن ہندوستان آیا۔3/اپریل1946کو گاندھی جی کی مشن سے گفتگو ہوئی،انہوں نے صرف ایک دھوتی باندھی ہوئی تھی اور بہت صحت مند دکھائی دے رہے تھے۔گاندھی جی نے مشن سے کہا کہ جناح کو ملک کی پہلی)عبوری(حکومت بنانے دیں،وزراء ا ملک کے منتخب نمائندوں میں سے ہوں،جناح جس کو چاہیں لیں لیکن وزارا کو اپنی اپنی اسمبلی سے اعتمادکا ووٹ لینا پڑے
گا۔ اگر جناح حکومت بنانے سے انکار کر دیںتو پھر کانگریس کویہی پیشکش کی جائے۔آپ نے گاندھی جی کا انداز دیکھا کہ وزیراعظم جناح صرف ان لوگوں کو چن سکیں گے جن پر ان کی اسمبلیاں اعتماد کا اظہار کریں۔اپنی آبادی کی وجہ سے مسلم اقلیتی صوبوںکی اسمبلیوں میں ہندوؤں کی بڑی بھاری اکثریت تھی،ادھر عوام میں انتہائی مقبولیت کے باوجود،مسلم اکثریتی صوبوںکی اسمبلیوں میں مسلمانوں کو آبادی کے لحاظ سے نشستیںنہ ملنے پر مسلم لیگ کو قطعی اکثریت حاصل نہ تھی ۔اس لئے مجبورا ًاسے تقریباسارے کے سارے کانگریسی ہندو یاغیر لیگی مسلمان وزیررکھنے پڑتے۔ایسی پیشکش کو قائداعظم کیوں قبول کرتے اور اس کے بعد حکومت خود بخود کانگریس کے پاس چلی جاتی۔یہ تھی گاندھی جی کی پیشکش قائد اعظم کیلئے!
بر وایں دام بر مرغ دگرنہ
کہ عنقارابلنداست آشیانہ
پیتھک لارنس نے گاندھی جی سے کہا کہ اس طرح تو جناح کے زیادہ تر وزارا غیر لیگی ہی ہونگے،گاندھی جی نے کہا کہ اس سے تو گریز نہیں، ایسی بات کو کون آگے بڑھاتا۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے کے طورپر24مارچ کو حلف اٹھایااور فورا ًبعد سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔گاندھی جی نے 31مارچ سے 14پریل1947 تک ہر روز لارد ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی ۔یکم اپریل کی ملاقات میں گاندھی جی نے تجویز کیاکہ مسٹر جناح کو متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بنا دیا جائے ۔۔۔ اور جب تک وہ ہندوستانی عوام کے مفاد میں کام کرتے رہیں گے،کانگریس ان کے سا تھ پورے خلوص کے ساتھ تعاو ن کرے گی۔۔۔اس بات کا فیصلہ کہ وہ عوام کے مفاد میں کام کر رہے ہیں یانہیں،صرف اور صرف لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہی کریں گے،اگر جناح یہ تجویز نہ مانیں تو پھر کانگریس کو یہی پیشکش کی جائے۔ماؤنٹ بیٹن تسلیم کرتے ہیں کہ میں گاندھی کی یہ تجویز سن کر ہکا بکا رہ گیا۔انہوں نے گاندھی جی سے پوچھا کہ اس تجویز کے بارے میں مسٹرجناح کاکیا تاثر ہوگا؟گاندھی جی نے جواب دیا :اگر آپ انہیں یہ کہیں گے کہ یہ تجویز گاندھی کی طرف سے آئی ہے تو جناح کہیں گے”مکارگاندھی”۔ماؤنٹ بیٹن نے مزے لے لے کر پوچھا”غالبا یہ بات درست ہوگی”۔اس پر گاندھی جی بڑے جوش سے کہا” نہیں نہیں میں یہ تجویزپورے خلوص سے پیش کررہا ہوں”۔
قائداعظم سے بات کرنے سے پہلے ماؤنٹ بیٹن نے اسی دن یہ بات نہرو کو بتائی تو یہ سن کران کے مہاتما (گاندھی)ان کی جگہ قائدِ اعظم کو وزیراعظم بنانے کی پیشکش کررہے ہیں، نہرو کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔نہرو نے ماؤنٹ بیٹن سے کہا کہ گزشتہ برس گاندھی جی کیبنٹ مشن کے سامنے بھی ایسی ہی تجویز پیش کی تھی لیکن یہ مسئلے کا ایک غیر حقیقی حل ہے۔ گاندھی جی کو دہلی میں چند دن اور رہنا چاہئے کیونکہ چار مہینے تک مرکز سے دور رہنے کی وجہ سے وہ تیزی سے معاملات سے بے خبرہوتے جا رہے ہیں۔نہرو کی رائے سننے کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظم سے بات کرنا مناسب نہ سمجھااور اگر ماؤنٹ بیٹن قائد اعظم سے یہ بات کر بھی لیتے کیا ہوتا؟کیونکہ ماؤنٹ بیٹن بخوبی جانتاتھاکہ وہ اپنی ذات کیلئے قوم کو دا ؤپر لگادینے والے ہر گز نہیں تھے،اس قسم کی پیشکش کووہ بغیر کسی تامل کے ٹھکرا دیتے۔
ان چند واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ گاندھی جی کی نیت اور طریقِ کارکو قائداعظم خوب سمجھتے تھے اور اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ان کا ہر
لحاظ سے مناسب جواب دیا!
آ ئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں