اٹک کا قیدی
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
عمران خان جب جیل سے باہر تھا تو مخالفین کو نیند نہیں آتی تھی اب وہ جیل میں ہے تو پھر بھی انکی نیندیں حرام ہیں۔ ساتھ میں جاتے جاتے پی ڈی ایم نے عوام کی نیندیں بھی اڑا دی ہیں، وہ کیسے؟ اس پر بعد میں لکھوں گا پہلے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے وہ کارنامے پڑھ لیں جب عمران خان باہر تھا تو وہ اس پر فتوے جاری کیا کرتے تھے کہ وہ نشئی ہے، وہ یہودی ایجنٹ ہے اور کیا کیا کہتے رہے؟ وہ لکھنے والا نہیں ہے لیکن جب سے عمران خان جیل گیا ہے تب سے سب کو سانپ سونگھ چکا ہے۔ اب کوئی نہیں بتاتا کہ جیل میں ایک منشیات کے عادی شخص کو نشہ کون فراہم کرتا ہے اور یہودی ایجنٹ سے کون کون سی بیرونی طاقتیں رابطے میںہیں؟ نشہ میں دھت رہنے والے کہتے تھے عمران خان نشہ کرتا ہے لیکن پولیس نے بتایا عمران خان کی صحت کا راز ورزش ہے۔ اسٹیج پر ہاتھ لہرا لہرا کرمخالفین کہتے تھے کہ عمران خان یہودی ہے، پولیس نے بتایا وہ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ تہجد بھی پڑھتا ہے۔ اپنے اوپر انڈے وار وار کر پھونکنے والی سابق وزیر اورمخالفین کہتے تھے کہ عمران خان جادو پر یقین رکھتا ہے پولیس نے بتایا عمران پورے دن صرف قران کی تلاوت کرتا ہے۔ اب شائد سب کے گھنگرو ٹوٹ چکے ہیں ۔اسی لیے تو ایسی آوازیں آنا بند ہوچکی ہیں۔
عمران خان کی اٹک جیل میں اسیری کی پہلی رات کو اگر ذکر کریں تو جیسے ہی کپتان جیل پہنچا قیدیوں نے عمران خان کے حق میںنعرے لگانے شروع کردیے، جنہیں بعد میںدوسری جیلوں میں بھیجنے پر سابق وزیراعظم و چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسیری کی پہلی رات اٹک جیل کے ہائی سیکورٹی بیرک میں گزاری۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو رات کا کھانا اور صبح کاناشتہ جیل مینوئل کے مطابق دیا گیا۔ عمران خان کو نماز فجر کے بعد ناشتے میں بریڈ سلائس، فرائی و اُبلا ہوا انڈہ، مکھن اور چائے دی گئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے شب کا کچھ حصہ سو کر بھی گزار ا۔ نماز تہجد کے لیے بھی اٹھے اور نماز فجر ادا کرکے جیل کا مہیا کردہ ناشتہ کیا ۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو جیل مینوئل کے مطابق دیگر سہولیات، استعمال کا ضروری سامان تولیہ، ٹشو پیپر، منرل واٹر، عینک، تسبیح، گھڑی، کرسی، زمین پر سونے کے لیے میٹرس فراہم کیا گیا۔ ڈسڑکٹ جیل اٹک میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت سابق وزرائے اعلیٰ و دیگر سیاسی شخصیات بھی ماضی میں اسیر رہ چکی ہیں ۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو بھی اسی سیکورٹی بیرک میں رکھاگیا ہے جہاں میاں نواز شریف بھی کچھ عرصہ اسیر رہے۔ سابق وزیراعظم کو اسیری کے دوران بہتر کلاس میں رکھا گیا تھاجس میں ٹی وی، اخبار، لکھنے پڑھنے کے کتب، اسٹیشنری، ائیر کنڈیشن یا روم کولر، چھوٹا فریج، بستر اور مشقتیوں کی اجازت ہوتی تھی جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے لیے ان سہولیات کو ہوم ڈیپارٹمنٹ یا عدالت کی اجازت سے مشروط کیا گیا ہے۔ ڈسڑکٹ جیل اٹک کے اندر اور بیرونی اطراف میں سیکورٹی ہائی الرٹ رہی ۔ہائی سیکورٹی بیرک جہاں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اسیر ہیں ،کے گرد محکمہ جیل خانہ جات کے کمانڈوز اور آوٹر کارڈن پر جیل پولیس کے اہلکار تعینات ہیں۔جیل کے بیرونی اطراف ضلعی پولیس اور رینجرز کی پیٹرولنگ بھی موجود تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اٹک جیل سے رات گئے سینٹرل جیل اڈیالہ منتقلی کی اطلاعات بھی گردش کرتی رہیں ۔جیل ذرائع کے مطابق اسیری کی پہلی رات چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کچھ بے چین رہے تاہم کسی قسم کی شکایت نہیں کی اور مورال بلند رکھا۔
یہ تو تھا قصہ عمران خان کا اٹک جیل میںپہلی رات کا اب آتے ہیں عوام کی طرف جس کا پی ڈی ڈی ایم حکومت نے جینا حرام کردیا اور جسکے اعمال کا خمیازہ کئی عشروں تک بھگتنا پڑے گا۔ اسی حکومت کے دور میں معیشت تباہ ہوئی،مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور دہشت گردی اور بدامنی کا دوبارہ جنم ہوا۔ اسمبلیوں میں طاقتور طبقات کے تحفظ، آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور این جی اوز کی تجاویز پر قانون سازی کی گئی، پارلیمنٹ نے ربڑا سٹمپ کا کردار ادا کیا، معاشرے میں پولرائزیشن بڑھی اور سیاسی افراتفری پھیلی ۔ اسمبلی کے الوداعی سیشن پر باجوڑ سانحہ کا ذکر ہوا نہ دیگر دہشت گردانہ واقعات میں ہونے والے شہدا کے حوالے سے کسی نے بات کرنا مناسب سمجھی۔ ممبران نے ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیں اور اعلان کیا گیا کہ حکومت کامیاب ہو گئی۔ حکمران صرف اس صورت میں کامیاب ہوئے کہ انھوں نے اپنے تمام کیسز معاف کرا لیے، اسمبلی کے آخری سیشن میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے اپنے اور سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کے لیے آیندہ 30سال سیاست کرنے کے لیے خوشگوار ماحول میسر کرنے کا مدعا اٹھایا جو بظاہر یہ اعلان تھا کہ دوخاندان ہی ملک پر حق حکمرانی رکھتے ہیں۔ ان کو مہنگائی سے کوئی سروکار نہیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے گزشتہ 16ماہ کے دوران بجلی کے ٹیرف میں 72گنا، پانی اور گیس کے بلوں میں 200فیصد اضافہ کیا، پی ڈی ایم کے دور میں پیٹرول کی قیمت 123روپے، ڈیزل 129روپے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 200فیصد اضافہ ہوا، آٹا، چینی، دالوں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں، حکومت نے ضم شدہ فاٹا قبائل، بلوچستان اور کراچی سے کیا گیا ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا، گزشتہ سات ماہ میں ملک کے مختلف حصوں میں 18خودکش دھماکے ہوئے، 2022 کے پورے سال میں 15خودکش دھماکے ہوئے، اسی دوران روپے کی قدر میں اس حد تک گراوٹ آئی کہ یہ جنوبی ایشیائی ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں سب سے نیچے ہے۔ عدالتوں میں 21لاکھ مقدمات زیرالتوا، پونے تین کروڑ بچے ا سکولوں سے باہر ہیں، 80فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم اور لاکھوں نوجوان ملک چھوڑ گئے۔ اس دوران سیلاب زدگان کی بحالی ممکن ہو سکی نہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا گیا۔ حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے معاملہ پر کوئی پیش رفت نہیں کی، بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 600ارب ڈالر اور ہمارے 4ارب ڈالر ہیں، حکومت اس وقت رخصت ہوئی جب پاک افغان 1400لمبی سرحد پر ٹینشن برقرار ہے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان بدامنی کی آگ میں جل رہے ہیں،لوڈشیڈنگ جاری ہے اور چترال سے کراچی تک ملک کا ہر شہری پریشان ہے۔
٭٭٭