مزاحمت کی علامت
شیئر کریں
مزاحمتی سیاست کا ایک درخشندہ باب بندہوگیا مصر کے سابق صد ر ڈاکٹرمحمد مرسی دوسال پہلے عدالت میں پیشی کے دوران اچانک غش کھاکر گرے اورانتقال کرگئے، شاہ فیصل، ذوالفقارعلی بھٹو، صدام حسین ،کرنل معمرقذافی کے بعد محمد مرسی اس عالمی سازش کا شکارہوئے جس کا مقصد اسلامی دنیاکو عدم استحکام سے دوچارکرنا ہے ،عالم ِ اسلام کی جن فکری تنظیموںنے لوگوںکو بہت متاثرکیاہے ان میں اخوان المسلمون بڑی نمایاں ہے ،اس تنظیم نے بڑی قربانیاں د ی ہیں مصر میں اسی فکری جماعت کو ہمیشہ دبایا گیا ،ایک صدی پر محیط جدوجہد نے مصر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر ڈاکٹر محمد مرسی 8اگست 1951 ء میں پیدا ہوئے انہوںنے جامعہ قاہرہ اور جامعہ جنوبی کیلیفونیا سے تعلیم حاصل کی۔پیشہ کے لحاظ سے وہ انجینئر تھے کچھ عرصہ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں بھی پڑھاتے رہے انہوں نے پی ایچ ڈی بھی کررکھی تھی ۔ ڈاکٹر محمد مرسی کا شمار مصر کے ممتاز سیاستدانوںمیں ہوتا تھا آپ 2012 میں صدر حسنی مبارک کے بعد برسرِ اقتدار آئے تھے۔ محمد مرسی کی پارٹی عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ان کی فقیدالمثال کامیابی نے عالمی مبصرین کو ششدرہ کرکے رکھ دیا اسطرح حسنی مبارک کا 30 سالہ اقتدار کاخاتمہ ہوگیا تھا۔حسنی مبارک کے خلاف 2011 میں مصر میں پرتشدد مظاہرے اور احتجاج شروع ہوا تھا جسے ’بہارِ عرب‘ یا عرب اسپرنگ سے تعبیر کیا گیا تھا جس کے بعد انتخابات ہوئے محمد مرسی 30 جون 2012 سے تین جولائی 2013 تک مصر کے صدر رہے، جولائی 2013 میں فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا، اس طرح مصری صدر محمد مرسی اپنے چارسالہ دورِ اقتدار میں سے صرف ایک سال ہی حکومت کرسکے اور اسی دوران ان کی مشہور سیاسی اسلامی جماعت اخوان المسلمون پربھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس کے بعد حال ہی میں امریکا نے بھی اخوان المسلمون کو دہشت گرد جماعت قرار دیا ہے۔
ڈاکٹرمحمد مرسی مصر کی تاریخ کے پہلے منتخب جمہوری صدر بھی تھے جو 67 سال کی عمر میں رحلت کرگئے۔ آخری مرتبہ عدالت میں پیشی پر انہوں نے جج سے 20 منٹ تک بات کی اور وہ بہت پرجوش دکھائی دے رہے تھے کہ اسی دوران وہ بے ہوش ہوکر گر پڑے اور انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔ ہسپتال میں ان کی جان بچانے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔جولائی 2013 میں مصر کے فوجی جنرل عبدالفتح السیسی نے ان کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کرلیا تھا اور خود مصر کے صدر بن گئے ۔ ان پر مخالف مظاہرین کے قتل کا الزام تھا جس پر 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ایک اور مقدمہ میں ان کو سزائے موت سنائی گئی تھی ،آ پ مصر کے ممتاز سیاست دان اور اس کے پانچویں صدر تھے۔ وہ اپنی اسلام پسندی کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ اس کی وجہ سے وہ اکثر مغربی ممالک اور آزاد خیال مصری، فوج اور حزب اختلاف سے کئی بار متصادم رہے۔ اسی رسہ کشی کے سبب مصری فوج نے انکا تختہ الٹ دیا تھا۔ ان پر کئی مقدمات عائد کیے گئے تھے جن کی صداقت سیاسی مبصرین کے نزدیک مشکوک ہے۔
اخوان المسلمون سے وابستہ سابق صدر ڈاکٹر محمد مرسی پر 2011ء میں مصر میں جیل توڑنے اور فسادات پھیلانے کا الزام تھا جس کے پاداش میں انہیں اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت 16 مئی کو سزائے موت سنائی گئی تھی اوراس پر عمل درآمد کا فیصلہ 17 جون 2015ء کو سنایا گیا۔ مصر میں قانون کے تحت اگر کوئی عدالت موت کی سزا سناتی ہے تو یہ فیصلہ مفتی اعظم کو بھیجا جاتا ہے جو حقائق کی روشنی میں حتمی فتویٰ دیتے ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق محمد مرسی قطر کیلئے جاسوسی کے الزام میں مقدمے کا سامنے کر رہے تھے اور کیس کی سماعت کے دوران جیسے ہی کارروائی برخاست ہوئی وہ بے ہوش ہوکر گر پڑے ہسپتال جاتے ہوئے طبی امداد ملنے سے قبل ہی وہ راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ مصر کے سابق صدر اور اخوان المسلمون کے رہنما ڈاکٹر محمد مرسی کی تدفین قاہرہ کے مشرقی علاقے مدینتہ النصر میں کر دی گئی، تدفین کے وقت سابق صدر کا خاندان موجود تھا۔
اخوان المسلمون نے محمد مرسی کی موت کو ’مکمل طور پر قتل‘ قرار دیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے محمد مرسی کی موت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا لیکن اس پرکوئی اثرنہیں ہوا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ڈاکٹر محمد مرسی کو قید کے دوران صرف 3 بار اپنے رشتے داروں سے ملنے کی اجازت دی گئی جبکہ انہیں ان کے وکیل اور ڈاکٹر سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ کی مشرقِ وسطیٰ کی ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن نے محمد مرسی کی موت کو ’خوفناک‘ قرار دیا تھا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے محمد مرسی کی موت کا الزام مصر کے ’غاصبوں‘ پر عائد کیا ہے جبکہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد ال ثانی نے ان کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسے المناک قراردیا دوسری جانب اخوان المسلمون نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر محمد مرسی کی موت ایک ’مکمل قتل‘ ہے سچ تو یہ ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ ڈاکٹرمرسی کو مزاحمت کی علامت سمجھاجاتارہے گا جس کے اثرات مسلم دنیا کی سیاست پرغالب رہیں گے اس حوالہ سے انہیں ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔