میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لیلا بجٹ

لیلا بجٹ

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۳ جون ۲۰۲۵

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔
وفاق کے بعد پنجاب کا بجٹ بھی پیش ہو گیا ۔بجٹ میں سب سے زیادہ دلچسپی سرکاری ملازمین کو ہوتی ہے۔ وہ بھی تنخواہوں کی حد تک اور اس بار تو وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین پر کمال مہربانی کرتے ہوئے انکی تنخواہوں میں 10فیصداضافہ کردیا ۔حالانکہ نیچے سے 6فیصد کے حساب سے سمری چلی تھی جسے وزیر اعظم نے سختی سے مسترد کردیا ۔باقی بجٹ سے کسی کو کوئی سروکار نہیں کہ ٹیکسوں کا معاملہ کہاں پر جاکے رکے گا۔ بجلی کی قیمتوں نے عوام کا خون نچوڑ لیا ہے ۔بجٹ پر رد عمل دیتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ عوام دشمن ،غر یب مکا ئو اورزراعت مٹاو بجٹ قوم پر مسلط کرکے زراعت کو تباہ اور کسان کو زندہ دفن کر دیا ہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا دعوی کرنے والی حکومت نے عوام کا دیوالیہ نکال دیا حکومت کو اپوزیشن سے خطرہ نہ بھی ہو بجٹ نے عوام کو احتجاج کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے جبکہ سابق وزیر اعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے بھی حکومت کی موجودہ اکنامک پالیسی کا راز کھولتے ہوئے بتایاکہ اسکا مطلب ہے ملک کی ترقی کو بند کر دیں کیونکہ امپورٹ کو محدود کرنے سے گروتھ نہیں ہوگی ۔جب فیکٹریوں کے لیے خام مال نہیں ہوگا تو ملک کیسے چلے گا ۔ملکی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے ہمارے پاس وسائل نہیں ہے کہ عوام دوست بجٹ لاسکیں۔ کالے قوانین ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں اور ان کا اثر ہمیشہ منفی ہوتا ہے ۔ملک کی ترقی روک دینا کوئی معاشی پالیسی نہیں ہو سکتی ۔امپورٹ پر سخت پابندیاں اور خام مال کی عدم دستیابی سے صنعتی پہیہ رک گیا ہے جو مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ملک پر قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔شاہد خاقان نے ملکی قرضوں کا ذکر کیا ہے تو اس حوالہ سے عرض ہے کہ قومی اقتصادی سروے 25-2024 کے مطابق مارچ کے اختتام تک حکومت کے مجموعی قرضوں کا حجم 76 ہزار 7 ارب روپے ہو گیا ہے جس میں ملکی قرضوں کا حجم 51ہزار 518ارب روپے اور بیرونی قرضوں کا حجم 24 ہزار 489 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ مالی سال کے پہلے 9ماہ میں سرکاری قرضوں پر سود کی ادائیگی کا حجم 6 ہزار 439ارب روپے رہا جس میں 5 ہزار 783 ارب روپے ملکی اور 656ارب روپے بیرونی قرضوں پر ادا کیا گیا۔ اس مدت میں حکومت نے ایک ٹریلین روپے کی حکومتی سیکیورٹیز کی خریداری کی مالی سال کے پہلے 9ماہ میں 1.6ٹریلین روپے کے شریعہ کمپلائنس سکوک جاری کیے جبکہ5.1ارب ڈالر کی بیرونی معاونت موصول ہوئی جس میں 2.8ارب ڈالر کثیر الجہتی شراکت داروں اور 0.3ارب ڈالر دوطرفہ شراکت داروں نے فراہم کیا ۔حکومت نے نیا پاکستان سرٹیفکیٹ سے 1.5ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں سے 0.56 ارب ڈالر کے قرضے بھی حاصل کیے ۔عالمی مالیاتی ادارہ(آئی ایم ایف)کے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کو 1.03 ارب ڈالر کی معاونت رہی۔ اسی حوالہ سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے حکومت کے اقتصادی اعداد وشمار پرانکشاف کرتے ہوئے بجٹ کو لیلا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں غربت 44.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔پاکستان میں قوت خرید برباد ہوچکی ہے۔ 2022 میں جو شخص 50ہزار روپے کما رہا تھا ،آج اس کی قدر تقریبا 22ہزار روپے رہ گئی ہے اور مہنگائی کے اس طوفان میں عوام کا جینا مشکل ہوچکا ہے جسکی وجہ سے لوگ پاکستان سے روزگار کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں ۔اسی حوالہ سے اقتصادی سروے رپورٹ بھی ملاحظہ فرمالیں جس میں انکشاف ہوا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان سے لاکھوں افراد روزگار کے لیے بیرون ملک چلے گئے۔ رواں مالی سال کے دوران 7 لاکھ 27 ہزار سے زائد افراد روزگار کے لیے بیرون ملک گئے ۔سب سے زیادہ سعودی عرب میں 62 فیصد افراد روزگار کے لیے گئے سعودی عرب جانے والوں کی تعداد 4 لاکھ 52 ہزارہے، اومان میں 11فیصد، متحدہ عرب امارات میں 09فیصد افراد روزگار کے لیے گئے اور بیرون ملک کام کے لیے جانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ پنجاب سے ہے ،جہاں سے ایک سال کے دوران 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد بیرون ملک گئے جبکہ خیبر پختونخوا سے بیرون ملک کام کے لیے جانے والے افراد کی تعداد 1لاکھ 87ہزار ہے اور سندھ سے 60 ہزار 424 افراد بیرون ملک کام کے لیے گئے ۔اسی طرح قبائلی علاقوں سے 29 ہزار 937 افراد بیرون ملک کام کے لیے گئے آزاد کشمیر سے بیرون ملک جانے والی لیبر کی تعداد 29ہزار 591ہے ۔ایک سال میں وفاقی دارالحکومت سے 8ہزار 621ورکرز بیرون ملک گئے۔ بلوچستان سے بیرون ملک جانے والے ورکرز کی تعداد 5ہزار 668ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات سے بیرون ملک جانے والے افراد کی تعداد 1692ہے ۔یہ وہ تعداد ہے جو حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہے جو غیر قانونی طریقے سے جارہے ہیں۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں اور ہماری حکومتیں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آتی۔ ابھی تو پنجاب اور سندھ کے درمیان نوک جھونک کا سلسلہ جاری ہے ۔لاہور وزیراطلاعات کوئی نہ کوئی ایسی بے تکی چھوڑ دیتی ہیں جس کے جواب میں مجبوراً دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی جواب دینا پڑتا ہے ۔پنجاب کی وزیر اطلاعات کا ذکر آیا ہے تو ان کے زیر نگرانی اداروں میں بے عزت کرنے کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا ہے ۔میں نے ایک کالم میں محترمہ عظمی بخاری کی تعریفیں لکھ دی جس پر میں بہت شرمندہ ہوں کہ بے عزت کرنے کا طریقہ تو خود انہوں نے شروع کررکھا ہے۔ باقی ڈی جی حضرات تو انکے نقش قدم پر ہی چلیں گے۔ اس وقت الحمرا میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے ،پلاک والوں کا کام پنجابی کی ترقی تھا وہ بھی ختم ہوگیا اور رہی بات ڈی جی پی آر کی وہاں چونکہ خود وزیرصاحبہ تشریف رکھتی ہیں اور انکے منظور نظر ڈی جی نے بھی اپنے ہی محکمہ کے افسران کو بے عزت کرنے کا پروگرام شروع کررکھا ہے ۔انتہائی محنتی اور قابل افسر اور سابق ڈی جی پی آر میڈم روبینہ کا داخلہ بند کیے رکھا ۔عابد نور بھٹی جو ایڈ یشنل ڈی جی پی آر ہیں انہیں ذلیل وخوار کیا گیا۔اس کے علاوہ محکمہ کی گاڑیاں اور ملازمین کہاں کہاں مصروف ہیں۔ ایک لمبی داستان ہے۔ اس پر اگلے کالم میں تفصیل سے لکھوں گا۔ ابھی تو ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید کا خوبصورت تبصرہ پڑھیں اور مزے لیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بلدیاتی نظام نہ ہونا عوام سے زیادتی ہے۔ افسوس ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو کبھی گٹر کھلوانے اور کبھی صفائی کروانے خود آنا پڑتا ہے جہاں لوکل گورنمنٹ مشینری کام نہ کرتی ہو وہاں وزیراعلیٰ کو اشتہارات دینے پڑتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں