میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت کی شکست کے معنی کیا ہے؟

بھارت کی شکست کے معنی کیا ہے؟

ویب ڈیسک
منگل, ۱۳ مئی ۲۰۲۵

شیئر کریں

 

بھارت کی شکست سادہ نہیں ، نہ ہی پاکستان کی فتح۔ یہ دونوں ہی غیر معمولی ہیں۔

اس مرحلۂ فکر پر بھار ت کی شکست کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نریندر مودی بلاشبہ ہندوستان کے باطن کا چہرہ تھا۔ اب خود اس کے باطن کو ایک چہرہ درکار ہے۔

ہندوستان، سیکولرازم کی تہ در تہ پرتوں میں جس طرح خود کو لپیٹ کر پیش کرتا تھا ، اس میں یہ اہتمام موجود تھا کہ اُس کے تمیزِ  بندہ و آقا کا نظام چھپا رہے، برہمن بالادستی ظاہر نہ ہواور ہندوتوا، اہداف عیاں نہ ہوں۔ نریندر مودی ایک مختلف ”برانڈ” تھا، اُس کے نزدیک یہ سب کچھ ظاہر کرکے ہی ہندوستان کو ایک بالادست قوت بنایا جا سکتا ہے۔ اُس نے ڈر کو ہتھیار بنایا اور دنیا کی بالکل پروا نہیں کی۔ مودی جانتا تھا وہ ایک ارب 43 کرورڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کی ایک بڑی منڈی ہے۔

امریکی انوسٹمنٹ بینک جیفریز کے ماہرین یہ خیال ظاہر کر چکے ہیں کہ 2027 تک بھارت دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے۔ اگر چہ اس وقت بھی بھارت عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے عالمی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کی یہاں رالیں اس لیے بھی ٹپکتی ہیں کہ یہ قوت خرید کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ کیا یہاں وہ جملہ دُہرا لیں جو امریکا کے بعد اب ہر جگہ استعمال ہوتا ہے، ”یہ معیشت ہے ، بے وقوف”!(It’s the economy, stupid)۔ جیمز کارویل نے 1992 ء میں جب بل کلنٹن کی کامیاب انتخابی مہم کے لیے یہ جملہ وضع کیا تو یہ اُن تین پیغامات میں سے ایک تھا، جسے فوراً ہی پزیرائی ملی۔ کیونکہ یہ دنیا کے رجحانات کی عملی تفسیر رکھتا تھا۔ یہ کل دنیا کی حرکت کامرکزی نکتہ ہے۔ جمہوری اقدار، انسانی معیاراور بنیادی حقوق سمیت دیگر اعلیٰ الفاظ پر مبنی دیگر تسلیم شدہ معیارات اس کے بعد وغیرہ وغیرہ کے خانے میں ہیں۔ نریندر مودی کی دنیا میں پزیرائی، اس کے علاوہ دوسرا کوئی بھی تناظر نہیں رکھتی تھی۔ مگر کیا نریندر مودی کی حرکت کا اُصول بھی یہی معیشت تھی؟ مودی دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل بھارت کو ملنے والی پزیرائی کا استعمال ایک خاص ایجنڈے کے لیے کر رہا تھا۔ اس لیے بھارت کا مقام اُس کے لیے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کا محض ایک موقع تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے یاد کیجیے! نریندر مودی کون ہے؟
مودی 1950ء میں پیدا ہوا اور صرف آٹھ سال کی عمر میں آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) میں شمولیت اختیا رکر لی۔ اکیس برس کی عمر میں وہ سنگھ کا ایک مکمل رکن تھا۔ کون نہیں جانتا کہ آر ایس ایس ایک خفیہ انتہا پسند ہندو تنظیم ہے۔ جو رواں برس اپنا سو سالہ جشن منا رہی ہے۔ اس کی بنیاد 27 ستمبر 1925ء کو ناگپور میں پڑی تھی۔ اگر چہ یہ تنظیم ماضی میں اپنا تعارف ایک ”ثقافتی تنظیم” کے طور پر کراتی رہی ہے اور اپنے اہداف کا اہم  ترین حصہ زیر زمین رکھنے میں کامیاب رہی۔ پھر بھی یہ واضح رہا کہ آر ایس ایس کے اہداف انتہائی گہرے اور خطرناک ہیں جو بھارت کے موجودہ جغرافیے اور خود ہندو مذہب کے اندر بھی سمائی نہیں دیتے۔ آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک (سربراہ) موہن بھاگوت نے کچھ عرصہ قبل یہ کہہ کر بھارت بھر کو چونکا دیا تھا کہ ” ہنگامی صورت حا ل میں ان کی تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفہ میں 20 لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو جمع کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے ”۔ آرایس ایس متعدد خطرناک نظریات کی حامل ہے مگر ان تمام نظریات کو دو بڑے اہداف میں سمویا جائے تو پہلا بڑا ہدف یہ ہے کہ یہ تنظیم بھارت کے جغرافیے کو موجودہ حد بندیوں سے آگے دیکھتی ہے۔ آرایس ایس کے نزدیک ہندوستان وہی ہے جو 340 قبل مسیح میں چندر گپت موریا کے عہد میں تھا، یا سوچا گیا۔ عملی طور پر ہندوستان کی تاریخ میں ایسے تین ادوار تھے جو جغرافیائی طور پر آر ایس ایس کے مطابق ہندوستان کا جغرافیہ قرار دیے جا سکتے تھے۔ ایک تو یہی چندر گپت موریا کا عہد تھا، جس میں سیاسی اور جغرافیائی وحدت کے ساتھ یہ ہندو ذہن کے لیے تسلی بخش تھا اور آج تک آدرش دور بھی ہے۔ باقی دو ادوار میں یعنی مغلیہ اور انگریز کے زمانے میں ایک ملک کے طورپر تو ہندوستان کا پورا جغرافیہ برقرار تھا مگر سیاسی طور پر یہ ہندوؤں کے لیے غلامی کے ادوار تھے۔ یوں آر ایس ایس کا ہندوستان موجودہ بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان ، نیپال ، مالدیپ ، سری لنکا اور پاکستان کو اپنے اندر سموتا ہے۔ اب اس کا ذکر انتہائی مدہم الفاظ میں کیا جاتا ہے، مگر یہ آر ایس ایس کے باطنی نظریات کی بنیاد میں شامل ہے۔

آر ایس ایس کا دوسرا بڑا ہدف اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ بھارت کو ایک ”ہندو راشٹر” یعنی ہندو ملک قرار دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھارت میں موجود کسی اقلیت کا کوئی حق کسی نمائندہ حیثیت میں تسلیم بھی نہیں کرتی۔ آر ایس ایس کی تاسیس سے اب تک کل سو برسوں (1925 تا 2025) میں چھ سربراہان (سر سنگھ چالک) آئے ہیں، جن میں دوسرے سربراہ مادھو راؤ سدا شیوراؤ گولولکر کا عہد 1940ء سے 1973ء تک 33 برسوں پر محیط ہے۔ گولکر اپنی کتاب ”Bunch of Thoughts” میں جہاں بھارتی پرچم (ترنگا) کو ہندوستان کا نمائندہ پرچم سمجھنے سے انکار کرتے ہوئے زعفرانی پرچم (بھگوا) کو بھارتی تاریخ اور تہذیب کا نمائندہ کہتا ہے، وہیں بغیر الفاظ چبائے صاف صاف واضح کرتا ہے کہ مسلمان، مسیح اور کمیونسٹ ہندو قوم کے اندرونی دشمن ہیں۔ یہ پہلو بھی آر ایس ایس کے نظریات کی بہیمت کو پوری طرف واضح نہیں کرتا۔ درحقیقت گولکر اور آر ایس ایس کے نزدیک مسلم اور عیسائی اقلیتیں یہاں آکر آباد نہیں ہوئیں بلکہ یہ مقامی لوگ ہیں جنہیں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور (جی ہاں رضاکارانہ نہیں بلکہ مجبور) کیا گیا۔ چنانچہ آر ایس ایس ان اقلیتوں کو اقلیتیں نہیں بلکہ ہندو مذہب کا حصہ بنانے پر تلی ہے۔ ماضی میں گھر واپسی کے نام پرشدھی اور سنگھٹن سمیت جتنی تحریکیں بھی اُٹھیں وہ تمام کی تمام ان ہی نظریات کے زیر اثر تھیں۔ اور ان نظریات نے آر ایس ایس کے خمیر میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین پر گھر واپسی کا شور پچھلے چند ماہ سے مودی دور میں بھی سنا جا رہا ہے۔ گھر واپسی کی تمام تحریکیں ہندوستان میں پر تشدد ثابت ہوئیں اور آج بھی ہندو بلا استثنیٰ تمام اقلیتوں کے خلاف پرتشدد طریقوں کے استعمال کو جائز اور اپنا مذہبی حق سمجھتے ہیں۔

آر ایس ایس ایک بہت بڑا اور خوف ناک موضوع ہے، اس کا تنظیمی ڈھانچہ، کام کرنے کے مختلف میدان، اور اس کی مختلف شاخیں انتہائی حیران کن طور پر سمجھنے والے کو پریشان کرتی ہیں، یہاں اندرون بھارت آرایس ایس کی بناؤٹ اور کام کی نوعیت و وسعت کو نظرانداز کر دیتے ہیں، مگر یہ پہلو شاید قدرے حیران کن ہو کہ بیرونِ بھارت بھی آر ایس ایس سب سے زیادہ ایک فعال تنظیم کے طور پر اپنے کھلے اور چھپے اہداف رکھتی ہیں۔ آرایس ایس کی امریکا میں146 اور برطانیہ میں 84 شاخیں ہیں۔ اس تنظیم کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ یہ کینیا کے اندر بھی موجود ہے اور یہیں سے تنزانیہ، یوگنڈا، ماریشش اور جنوبی افریقہ تک اپنی جڑیں پھیلا چکی ہے۔ یہ ان تمام ممالک میں موجود ہندوؤں کو آر ایس ایس نظریات کے زیر اثر لا چکی ہیں۔ مسلم دنیا کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ آر ایس ایس کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں ۔ چونکہ ان ممالک میں کسی نوع کی جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں، لہٰذا یہاں یہ شاخیں زیر زمین کام کرتی ہیں۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ آر ایس ایس کو مشرق وسطیٰ کے ان ہی ممالک سے ملا تھا۔ آر ایس ایس پر کام کرنے والے انتہائی متعلق لوگوں نے یہ انکشاف اس خاکسار کو خود کیا تھا۔ اور یہ اطلاع بھی دی تھی کہ خود پاکستان میں بھی اس کی ایک شاخ کام کر رہی ہے۔
آر ایس ایس کے نمائندے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جب 14فروری 2024ء کو عرب سرزمین پر پہلے ہندو مندر کا افتتاح کیا تو بابری مسجد اصل میں اُس روز شہید ہوئی تھی اور کعبے کی تمام بیٹیاں تب روئی تھیں۔ یہ کل مسلم دنیا کی مذہبی غیرت کا ایک جنازہ تھا جو آر ایس ایس کے ”ماچو مین ” اور 56انچ چوڑے سینے کے زعم میں مبتلا مودی نے کھلے عام نکلوایا تھا۔ ابھی پاکستان کی شاندار فتح اور بھارت کی شرمناک شکست کے بنیادی سروں کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے کہ کالم کا ورق نبڑ چکا۔ باقی باقی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں