میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دھمکی آمیزخط ، پاکستان کے امریکا سمیت کئی ممالک سے تعلقات متاثر ہونگے،ماہرین

دھمکی آمیزخط ، پاکستان کے امریکا سمیت کئی ممالک سے تعلقات متاثر ہونگے،ماہرین

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۳ اپریل ۲۰۲۲

شیئر کریں

ماہرین نے کہاہے کہ پاکستان کو مبینہ دھمکی آمیزخط کے معاملے پر عمران خان کے بیانیے سے پاکستان کے امریکہ سمیت کئی ممالک سے سفارتی تعلقات متاثر ہونگے ،سفارتی کیبل سے زیادہ سیاسی بیانات سے نقصان پہنچا،کیبل میں فوری کوئی حقیقت یا خطرے اور پریشانی کی بات ہوتی تو سپریم کورٹ اس کو ضرور سنجیدہ لیتی،چین کے ساتھ بہتر تعلقات اور امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کی کوشش کا خمیازہ تو پاکستان پہلے ہی بھگت رہا ہے ۔ بی بی سی کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات سے منسلک ڈاکٹر قندیل عباس نے کہاکہ پہلے پاکستانی وزیراعظم سے آج کے وزیر اعظم تک امریکہ کا پاکستان کی سیاست میں ملوث ہونا ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جس سفارتی کیبل کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ بظاہر ایک معمول کی کیبل ہے جو پاکستان میں موجود غیر ملکی سفارتکار اپنے ممالک کو بھیجتے رہتے ہیں اور ہمارے سفارتکاروں کے ذریعے دوسرے ممالک سے پاکستان بھی آتی ہیں،ماضی میں اس سے زیادہ خطرناک کیبلز اور مراسلے آتے رہے ہیں لیکن اس بار اس خط کا وقت اس کو اہم بنا رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ اب امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے میں وقت لگے گا،میرا خیال ہے کہ اس کیبل میں فوری کوئی حقیقت یا خطرے اور پریشانی کی بات ہوتی تو سپریم کورٹ اس کو ضرور سنجیدہ لیتی۔ انہوںنے کہاکہ یہ سفارتی خط اتنا اچھالا نہ جاتا مگر اس سے قبل بعض امریکی شخصیات کی پاکستان کی اہم شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ شاید امریکہ پہلے سے ہی اس ملوث تھا، میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اس کیبل کا متن سامنے نہیں آتا اس پر رائے دینا ہی کافی مشکل ہے۔انہوںنے کہاکہ مستقبل میں ایک طویل عرصے تک اس خط اور عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کا اثر پاکستان پر ہو گا۔انہوںنے کہاکہ ہماری بہت سے مذہبی اور سیاسی قوتیں ہیں جو امریکہ مخالف ہیں، اور گزشتہ چند ہفتوں میں ان گروپس اور افراد نے بھی عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کی حمایت کی ہے جو عام طور پر اْن سے سخت اختلاف رکھتے ہیں اور ان کے اتحاد کا حصہ نہیں بنتے، اگر عمران خان کا یہ بیانیہ ان کی انتخابی مہم میں بھی جاری رہا تو پاکستان میں ایک ایسا اتحاد بن سکتا ہے جو امریکہ مخالف بیانیے کی حمایت کرتا ہو۔انہوںنے کہاکہ اس اتحاد کا منفی اثر اس لیے بھی ہو گا کہ اس وقت تقریباً تمام ہی بین الاقوامی سٹرکچرز یا ادارے امریکہ یا مغربی قوتوں کے زیر انتظام یا ان کی نگرانی میں ہیں جیسا کہ آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف حتی کہ اقوام متحدہ بھی تو کسی بھی مزاحمت یا تصادم کی صورت میں پاکستان کے لیے بقا کی جنگ قدرے مشکل ہو گی۔نئی حکومت ان حالات کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر قندیل عباس آنے والے دنوں میں امریکہ پاکستان تعلقات میں استحکام نئی حکومت کے ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہیں، اْن کا خیال ہے کہ کسی بھی طرح حالات میں بہتری کو عمران خان کے بیانیے سے جوڑا جائے گا کہ چونکہ امریکہ حکومت کی تبدیلی میں ملوث تھا سو اب اپنی پسند کی حکومت کے لیے حالات سازگار کیے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر قندیل کے مطابق مستقبل کی حکومت کیلئے یہ بڑا چیلنج ہو گا کہ ایک متوازن خارجہ پالیسی لائے۔ ابھی ہمیں انڈین سینٹرک پالیسی سے نکلنا ہو گا اور حالیہ قومی سلامتی پالیسی کے مطابق جیو سٹریٹجک کی بجائے جیو اکنامک پالیسی پر عمل کریں گے تو بہتر ہو گا، ہمیں توازن لانا ہو گا امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں اور اس کے ساتھ ساتھ چین اور روس کے ساتھ تعلق میں بھی۔بین الاقوامی اْمور کی ماہر ہما بقائی نے کہاکہ چین کے ساتھ بہتر تعلقات اور امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کی کوشش کا خمیازہ تو پاکستان پہلے ہی بھگت رہا ہے اور اب اس غیرجانبداری پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں