سعودی فرمانروا کے تدبر کاامتحان
شیئر کریں
عرب لیگ کا اجلاس 15 اپریل کو سعودی دارالحکومت ریاض میں طلب کیاگیاہے یہ اجلاس ہونا تو مارچ میں تھا مگر مصر میں ہونے والے انتخابات اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ یورپ و امریکہ کے باعث ملتوی کردیا گیا تھا۔ اس اجلاس کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اس میں قطر کی شرکت کے بھی قوی امکانات ہیںجبکہ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات و مصر نے قطر کا مقاطعہ کیا ہوا ہے اطلاعات کے مطابق 5 اپریل کو قطر کو بھی شرکت کا دعوت نامہ دیا گیا ہ جو اس نے قبول بھی کرلیا ہے۔
عرب لیگ کی تنظیم 1945 میںقائم کی گئی تھی اس کے ارکان کی تعداد 22 ہے جس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یمن، مصر، بحرین، عراق، اردن، کویت، عمان، تنظیم آزادی فلسطین، قطر، شام، لبنان، الجزائر، افریقی جزائر پر مشتمل الاتحاد القمری، جبوتی، لیبیا، مراکش، ماریطانیہ، صومالیہ، سوڈان اور تیونس شامل ہیں۔ ان میں سے فی الوقت شام کی رکنیت معطل ہے۔ عرب لیگ کے ان سارے رکن ممالک میں سے قطر اور شام کے سوا سارے کے سارے ممالک کی حکومتیں سعودی عرب کی اتحادی ہیں۔ گو کہ سوڈان نے حال میں ترکی کو فوجی اڈہ بنانیکے لیے اپنا ایک جزیرہ سواکن دے دیا ہے مگر یمن کے محاذ پر لڑنے کے لیے اسی سوڈان نے سعودی عرب کو اپنے 6 ہزار فوجی جوان بھی کرائے کی فوج کے طور پر دیے ہوئے ہیں۔ جس کے بدلے میں سعودی عرب نے سوڈان کی مالی امداد کے علاوہ اس پر عالمی پابندیاں نرم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کویت نے گزشتہ برس دسمبر میں خلیج تعاون کونسل کا ایک سربراہ اجلاس بلا کر سعودی عرب اور قطر کے مابین کشیدگی کے خاتمے کے لیے کوشش کی تھی جسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سربراہوں کے بجائے کم درجے کے وفود بھیج کر ناکام بنادیا تھا۔ ارکان کی عدم سنجیدگی کی بناپر یہ اجلاس ایک ہی دن میں ختم کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی فورم پر قطر اور سعودی عرب اکٹھا ہوں گے۔ تاہم اس اجلاس میں سعودی عرب اور قطر کے مابین کسی بریک تھرو کی امید نہیں کی جارہی ہے۔ قطر نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ سعودی عرب اور اتحادیوں کی جانب سے قطر کا مقاطعہ یا خلیجی بحران عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ قطر کی جانب سے کس درجے کا وفد اس اجلاس میں شرکت کرے گا۔ تاہم قرائین بتاتے ہیں کہ قطر بھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے اپنا نچلے درجے کا وفد ہی بھیجے گا۔
اس صورت حال کے باوجود عرب لیگ کا یہ مجوزہ اجلاس کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اول یہ کہ اس وقت سعودی عرب شدید دبائو میں ہے ،اور اس دبائو کاہی نتیجہ ہے کہ سعودی حکمراں امریکہ اور مغربی ممالک کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرگزرنے پر کمر بستہ نظر آرہے ہیں ، سعودی عرب میں ہندوئوں کے لیے مندر کاقیام اورسینما گھر قائم کرنے کے لیے امریکی کمپنیوں کو دئے جانے والے اجازت نامے اس کامنہ بولتا ثبوت ہیں ، اس کے علاوہ سعودی حکمراں سمجھتے ہیں کہ ترکی ایران اتحاد سعودی عرب کا گھیراؤ مکمل کرچکے ہیں۔ جبوتی میں سلامتی کونسل کے سارے مستقل ارکان کے علاوہ جاپان اور ترکی کے بھی فوجی اڈے موجود ہیں۔ اس کے برابر صومالیہ میں بھی ترکی موجود ہے جبکہ جبوتی سے ذرا اور آگے سوڈان کے ایک اور جزیرے میں بھی ترکی فوجی اڈہ بنا رہا ہے۔ اس طرح بحیرہ احمر میں سعودی عرب کے دونوں جانب ترکی کی فوجیں موجود ہیں۔ سعودی عرب کا دوسرا کنارہ خلیج فارس پر ہے جہاں ایران موجود ہے۔ سعودی عرب کے شمال میں اردن، عراق اور کویت ہیں تو جنوب مشرق میں یمن واقع ہے۔ سعودی عرب جزیرہ نما ہے اور اس کی سرحدوں کا بیش تر حصہ ساحلی ہے۔یہی وہ صورت حال ہے جس کے پیش نظر سعودی عرب نے گزشتہ دو برسوں میں جنگی سازو سامان کی خریداری پر بھاری رقم خرچ کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے اسلحہ کی خریداری کے اب تک کیے گئے معاہدوں کی رقم ایک کھرب ڈالرتک پہنچ چکی ہے۔امریکہ اور دیگر یورپی ممالک سعودی عرب کو حقیقی معنوں میں کتنا محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں اس کااندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ امریکہ اوریورپی ممالک نے سعودی عرب کو جو اسلحہ فروخت کرنے کامعاہدہ کیا ہے وہ صرف اور صرف زمینی اورفضائی فوج ہی استعمال کرسکتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دو تہائی سے زاید سرحد سمندری ہونے کے باوجود سعودی عرب کی بحریہ کی حالت ناقابل ذکر ہے اور وہ اپنے بحری دفاع کے لیے پاکستانی بحریہ پر انحصار کرتا ہے،دوسری جانب ایران اورترکی کے ساتھ بھی پاکستان کے گہرے برادرانہ تعلقات قائم ہیں ،اور یہ دونوں ملک ہر آڑے وقت پرامریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی ناراضگی کی پروا کیے بغیر پاکستان کا کھل کر ساتھ دیتے رہے ہیں، جس کااندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ حال میں پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کے نام نہاد الزام کے تحت جب گرے لسٹ میں شامل کرنے کے لیے امریکہ کی ایما پر اجلاس ہورہاتھا تو پاکستان کے خلاف ووٹ دینے والوں میں سعودی عرب جیسا برادر ملک تو امریکہ کے ساتھ کھڑا تھا لیکن ترکی وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی حمایت میں ووٹ دیاتھا۔ اس صورت حال میں ترکی یا ایران کے ساتھ تنازعہ کی صورت میں پاکستان کو سعودی عرب کی حمایت کافیصلہ کرتے وقت بہت کچھ سوچنا پڑے گا،اور یہ فیصلہ کرناپاکستان کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ سعودی عرب کے محاصرے کی صورت میں شیر کا ساتھ دیتا ہے یا شکاری کا۔ دوسری صورت میں سعودی عرب کو امریکہ اور اتحادیوں پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب ہوگا شکاری ہی سے رحم کی بھیک مانگنا ہوگا۔
موجودہ صورتحال جبکہ حوثی جنگجو سعودی آئل ٹینکروں کو نشانہ بنارہے ہیں اور ساری سعودی بندرگاہیں محاصرے میں ہیں، سعودی عرب کے لیے سخت پیغام کی حیثیت رکھتاہے مگر وہ امریکی، اسرائیلی اور یورپی اتحادیوں کی یقین دہانیوں پر مطمئن ہے۔ عرب لیگ کا گزشتہ اجلاس بھی کسی نتیجے پرپہنچے بغیر ختم ہوگیاتھا اور عرب لیگ کسی بھی ایک نکتے پر واضح اور مشترکہ موقف نہیں اپنا سکی تھی۔ اس مرتبہ زیادہ مشکل حالات ہیں۔ سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ ہنی مون جاری ہے۔ حماس کے خلاف سعودی موقف بھی سامنے آچکا ہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ اسرائیل کی طرح سعودی عرب بھی حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔ اسی عرب لیگ میں مصر کا سیسی بھی موجود ہے جو اسرائیل کا یورپ سے زیادہ حامی ہے۔ دیگر ممالک کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ موجودہ صورت حال جبکہ حماس کے پرامن احتجاج کے دوران مظاہرین پر اسرائیلیفوج کے بہیمانہ حملوں میں درجنوں فلسطینی نوجوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں، عرب لیگ مسلم دنیا سے زیادہ اسرائیلی موقف کی حمایت کرتی نظر آرہی ہے عرب لیگ کے اس اجلاس میں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر ایک کمزور سی قرارداد کے سوا کسی اور چیز کی توقع عبث معلوم ہوتی ہے۔تاہم حالات وواقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ یمن سے سعودی عرب پر
میزائیل حملے اور، بحیرہ احمر میں سعودی آئل ٹینکروں پر حملے ضرور بحث کا حصہ ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عرب لیگ کے اجلاس کامحور صرف اور صرف ایران ہوگا۔ اس پوری صورت حال سے ظاہرہوتاہے کہ حالات خلیج میں ایک خوفناک جنگ کی طرف جار ہے ہیں جس میں نقصان تو پوری مسلم دنیا کا ہی ہوگا مگر اس میں قربانی کا بکرا سعودی عرب ہی ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عرب لیگ کامجوزہ اجلاس سعودی اور اس کے اتحادی ممالک کے سربراہوں کے تدبر اوربالغ نظری کاامتحان ہوگا،امید کی جاتی ہے کہ سعودی عرب کے فرمانرو اور ان کے اتحادی اس صورتحال پر توجہ دیں گے،اور خلیج کو ایک نئی خوفناک جنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے ایران ،ترکی اورقطر کے ساتھ اپنے فروعی اختلافات کوبالائے طاق رکھ کر وسیع تر مسلم اتحاد کویقینی بنانے پر توجہ دیں گے تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورت حال میں پاکستان اور سعودی عرب کے دیگر ہمدردوں اوردوستوں کو سعودی عرب کی مدد کے لیے کسی آزمائش سے نہ گزرنا پڑے اورسعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کوبروقت مدد فرہم کرسکیں۔