میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سولجر بازار اسکول انہدام اسکینڈل

سولجر بازار اسکول انہدام اسکینڈل

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۳ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

فضل اللہ پیچوہو نے تاریخی ورثے کو فروخت کیاتھا ،معاملہ گلے پڑگیا
فریال تالپور کے فرنٹ مین اورنئے وزیر قانون ضیا لنجار ،انکے کزن ایس ایس پی سانگھڑفرخ لنجار و دیگر اسکول کی زمین ہتھیانے میں شامل ہیں،ذرائع
آئی جی کی جانب سے مقررتحقیقاتی افسران آفتاب پٹھان اور ثنا ءاللہ عباسی سندھ حکومت کیلیے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں،معاملے کو دبانے کی کوششیں ناکام
چار پانچ ارب روپے کی زمین کوڑیوں کے داموں خریدی گئی تھی، اب اگر یہ زمین کا ٹکڑا ان کو نہ ملا تو ان کے کروڑوں روپے بھی ڈوب جائیں گے
الیاس احمد
سابق سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر فضل اللہ پیچو ہو نے اپنے دور میں کراچی کے 2 ہزار سے زائد سرکاری اسکول فروخت کر دیے تھے۔ ان کی کہانیاں اب کھلتی جا رہی ہیں۔انہوں نے بدمست ہاتھی کی طرح محکمہ تعلیم میں ایسے ایسے فیصلے کیے اور اس صوبے کو اتنا پیچھے دھکیلا کہ شاید 50 برس بھی گزر جائیں تو ان کے گند کو صاف نہیں کیا جاسکتا۔ فضل اللہ پیچو ہو نے سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کے ہاتھوں نیشنلائزڈکیے گئے اسکولوں کو ڈی نیشنلائز کر دیا۔ حد یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو نے 500 اسکول نیشنلائز کیے تھے ،فضل اللہ پیچوہو نے 2 ہزار اسکول ڈی نیشنلائز کر دیے اور کراچی میں اب صرف 85 اسکول سرکاری تحویل میں بچ گئے ہیں۔ مگر انہوں نے یہ کام اس ہوشیاری اور مہارت کے ساتھ کیا کہ کسی کو کانوں کان پتہ بھی چلنے نہ دیا، کھربوں روپے اس کھیل میں بٹورے گئے اور سب کو اپنا حصہ دیا گیا، اب کوئی بھی سیاسی ،مذہبی و سماجی تنظیم اس میگا اسکینڈل پر بات کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں ۔ پھر آصف علی زرداری کی منظوری سے انہیں محکمہ صحت میں سیکریٹری لگا دیا گیا۔
اب ایک حیرت انگیز کہانی سامنے آگئی ہے، سولجر بازار میں 9 اپریل اتوار کے روز کچھ بااثر افراد آئے، پولیس کو بھی ساتھ لائے اور 1928 کا بنا ہوا اسکول مسمار کر دیا۔ جب میڈیا کو علم ہوا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا، پولیس اور حکومت سندھ نے نوٹس لیا۔ تحقیقات شروع ہوئیں تو دل دہلادینے والے انکشافات سامنے آگئے۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ فضل اللہ پیچوہو نے چارپانچ ارب روپے کی عمارت فریال تالپور کے فرنٹ مین ضیاءالحسن لنجار کو فروخت کر دی جس نے یہ عمارت ایس ایس پی سانگھڑ فرخ لنجار کو دی کہ وہ پولیس کی مدد سے اس عمارت کو فروخت کرے اور ایس ایس پی فرخ لنجار نے فریال تالپور اور ضیاءالحسن لنجار کا رعب دبدبہ استعمال کرکے اپنے بھائی عدنان لنجار کے ذریعے پولیس کی گاڑیاں لے جاکر تاریخی ورثہ قرار دی گئی اس عمارت کو مسمار کر دیا۔ حالانکہ رواں سال ہی 19 جنوری 2017 کو محکمہ ثقافت نے اس عمارت کو تاریخی ورثہ قرار دیا تھا۔ مگر ان بد مست ہاتھیوں کو کون روکے؟ 10 اپریل کو آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے ایس ایس پی سانگھڑ فرخ لنجار کا نام آنے پر ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ آفتاب پٹھان اچھی شہرت کے حوالے سے مشہور ہیں، جب وہ ڈی آئی جی لاڑکانہ تھے تو انہوں نے ایس ایس پی لاڑکانہ کامران نواز کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ دی کہ وہ ڈاکوﺅں کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ان کو اسلحہ فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے پھر جب سپریم کورٹ نے آفتاب پٹھان کو پولیس میں بھرتیوں کی تحقیقات کے لیے کہا تو اس وقت کے آئی جی سندھ پولیس غلام حیدر جمالی نے ان کو لالچ بھی دی اور دھمکی بھی ۔ اور پھر ان کی خدمات وفاق کے بھی حوالے کیں لیکن آفتاب پٹھان نے ان بھریتوں کو جعلی قرار دیا اور ان بھرتیوں میں بھاری رشوت لیے جانے کا بھی انکشاف کر دیاتھا۔
اب آفتاب پٹھان نے تاریخی ورثہ قرار دی گئی عمارت کو مسمار کیے جانے کی تحقیقات شروع کر دی ہے ۔ یوں فریال تالپور اور ضیاءالحسن کو کپکپی لگی کہ معاملہ خراب ہوسکتا ہے، فوری طور پر ضیاءالحسن لنجار کو 10 اپریل کو سندھ کابینہ میں شامل کرکے ان کو محکمہ قانون دے دیا گیا تاکہ وہ اپنے قریبی رشتہ دار ایس ایس پی فرخ لنجار کو تحفظ دے سکیں۔ سیکریٹری اسکول ایجوکیشن عبدالعزیز عقیلی نے آئی جی سندھ پولیس کے ساتھ مل کر ہمت کی اور ایف آئی آر درج کرالی۔ جس پر سندھ پولیس نے فوری طور پر عدنان لنجار اور ان کے ساتھیوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا۔ اب ایک مرتبہ پھر فریال تالپور اور ضیاءالحسن لنجار کو خوف نے گھیر لیا ہے کہ آئی جی سندھ پولیس گرفتاریاں کرائیں گے تو اصل کہانی سامنے آجائے گی۔ اب حکومت سندھ کے ذریعے آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اس معاملے کو دبالیں اور بات آگے نہ جانے دیں۔ ایس ایس پی فرخ لنجار کو چھ ماہ قبل آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے سانگھڑ سے ہٹایا تو سب سے زیادہ ناراض فریال تالپور،انور مجید، ضیاءالحسن لنجار ہوئے اور جب آئی جی سندھ پولیس نے سمیع اللہ سومرو کو ایس ایس پی سانگھڑ لگادیا تو حکمرانوں کو برداشت نہ ہوا اور بلآخر فرخ لنجار کو ہی چار ماہ بعددوبارہ ایس ایس پی سانگھڑ مقرر کر دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق پیر اور منگل کے روز فریال تالپور، ضیاءالحسن لنجار، فضل اللہ پیچوہو نے سرتوڑ کوشش کی کہ یہ کیس آگے نہ بڑھنے دیا جائے لیکن ان کی یہ کوشش رائیگاں گئی کیونکہ آئی جی سندھ نے ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی ختم کرنے سے قطعی انکار کردیا۔ آفتاب پٹھان نے واضح کر دیا ہے کہ چاہے کوئی بھی روکے وہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر رپورٹ دیں گے اور تمام کرداروں کو بے نقاب کریں گے۔ اوپر سے دباﺅ آنے کے بعد اتوار اور پیر کے روز وزیراعلیٰ سندھ پہلے سرگرم تھے مگر منگل کے روز وزیراعلیٰ بھی پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے معاملہ سے ہاتھ اٹھالیا ۔
اس وقت عوام اور میڈیا نمائندے مشتعل ہیں اور اسکول کے بچوں میں نیا جوش و جذبہ ہے، وہ زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اور یہ معاملات اب حکمرانوں کو چین سے سونے نہیں دے رہے کیونکہ چار پانچ ارب روپے کی زمین کوڑیوں کے داموں خریدی گئی تھی، اب اگر یہ زمین کا ٹکڑا ان کو نہ ملا تو ان کے خواب چکنا چور ہو جائیں گے اور ان کے کروڑوں روپے بھی ڈوب جائیں گے گیند ایک مرتبہ پھر آئی جی سندھ کی کورٹ میں ہے۔بعد ازاں آئی جی نے تحقیقات کیلیے ایس پی آپریشن 1کو سونپ دی ہیں جبکہ ایڈیشنل آئی جی سربراہ سی ٹی ڈی ثنا ءاللہ عباسی کمیٹی کو سپروائز کریں گے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں