میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسلمانوں کے پیٹ پر مودی کی لات

مسلمانوں کے پیٹ پر مودی کی لات

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۳ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

کسی کے پیٹ پر لات مارنا پرانا محاورہ ہے،یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی پر روزگار کے دروازے بند کر دیے جائیں۔ بھارت سرکار نے اس محاورے کو حقیقت میں تبدیل کر دیا ہے۔ گائے کے پجاریوں نے گﺅ ماتا کے نام پر گوشت فروشوں اور گوشت کھانےوالوں کے پیٹ پر لات ماردی ہے۔ مودی کے چہیتے سنگھ پریوار اور ہندوتوا کے حامی یوپی کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ذبیحہ خانے بند کرادیے ہیں، پی جے پی حکومت کے اس اقدام سے گوشت فروخت کرنے والوں کی ہزاروں دکانوں پر تالا لگ چکا ہے،اس کاروبار سے منسلک لاکھوں مسلمان چشم زدن میں بے روز گار ہوگئے ہیں۔ مودی یوگی حکومت نے اقدام سے مسلمانوں کو ایک بڑا جھٹکا دینے کی کوشش کی ہے کیوں کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بھارت میں گوشت صرف مسلمان کھاتے ہیں، اور گوشت کے کاروبار بھی صرف مسلمان ہی کرتے ہیں، اس فیصلے سے نہ صرف اترپردیش کے مسلمان اپنی مرغوب ترین غذا سے محروم ہوگئے ہیں ساتھ ہی جو مسلمان گوشت کاٹنے اور بیچنے کے کاروبار سے منسلک ہیں ان کی کمر بھی ٹوٹ گئی ہے۔لگتا بھی یہی ہے کہ مودی یوگی حکومت مسلمانوں کا معاشی قتل عام کرنا چاہتی ہے کیونکہ گوشت کے کاروبار پر پابندی سے اس سے جڑی کیٹرنگ ، ہوٹلنگ اور چمڑے کی صنعتیں بھی متاثر ہوئی ہیں اور مسلمانوں کی بڑی تعداد ان صنعتوں سے منسلک ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی ریاست یو پی میں گوشت کی دکانیں بند ہیں،ہوٹل بند ہیں،ریسٹورینٹ بند ہیں،ڈبہ پیک کھانے والوں کا کاروبار بند ہے،چمڑے، کھال اور ہڈی کی صنعتیں بند ہوگئی ہیں۔ صنعتوں اور کاروبار کی اس بندش کا نشانہ لاکھوں مسلمان بنے ہیں۔ مودی سرکار نے اس کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ دیگر مسلمانوں کے ساتھ قریشی برادری کی جانب سے گوشت کی دکانوں اور ذبیحہ خانوں پر پابندی کے خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے،آل انڈیاجمعیت القریش نے مودی کو خط لکھ کر اس انسانی مسئلے کی جانب نشاندہی اور اس غیرقانونی اور غیرانسانی اقدام کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا لیکن مودی سرکار نے اس خط کا جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا۔
گوشت کے کاروبار پر پابندی کا ایک دوسرا نقصان بھی ہو رہا ہے جس کا تعلق روایت اور ثقافت کے ساتھ ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق لکھنوﺅں کے مشہور ٹنڈے کباب کی دکان ایک سوسال میں پہلی بار بند ہوگئی اور مراد آباد کی بریانی کا ذائقہ بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی روایتی لذت سے محروم ہو گیا۔ پکوانوں کی مشہور دکانیں بند ہو رہی ہیں،اس کاروبار سے بھی مسلمان بڑی تعداد میں منسلک ہیں جن کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔مودی کی سرکار ایک کے بعد ایک ریاست میں گوشت کے کاروبار پر پابندی لگا رہی ہے ،صاف ظاہر ہے گائے کے نام پر مسلمانوں کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے۔ انتہا پسند ہندو صرف گائے کے نام پرمسلمانوں کا معاشی قتل عام ہی نہیں کررہے بلکہ گﺅ ماتا کے نام پر مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ قتل بھی کیا جا رہا ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی کے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ نے گائے کو انسانی جان سے زیادہ اہم اور مقدس قرار دیدیا۔ ان کا کہنا ہے گائے سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ نہیں ہے،کوئی انسان کسی گائے سے بڑھ کر نہیں ہے اس لیے گائے کو بچانے کے لیے انسان کی جان لی جا سکتی ہے۔ ہندو انتہا پسند اس فلسفے پر پوری طرح عمل پیرا ہیں کئی جگہ گائے کے خود ساختہ محافظوں (گﺅ رکشکوں) نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے سیکڑوں مسلمانوں کوتشدد کا نشانہ بنایا جن میں کئی کی موت بھی واقع ہو گئی ، لیکن انتظامیہ کی جانب سے انتہا پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مسلم دشمنی میں اندھی مودی سرکار شائد مکافات عمل کے ابدی قانون کو بھول گئی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں