میرا حجم۔۔ میری مرضی...
شیئر کریں
خلیل الرحمان قمر سے ناراض ایک خاتون کا فون آیا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے کا مرد ، ہماری عورت کو آگے بڑھنے روکنا چاہتا ہے۔ہماری عورت جب اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے تو اسے بدکرداری کے طعنے سننے پڑتے ہیں اور اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔
میں نے ان سے عرض کیا، آپ کوملالہ یاد ہے نا ؟ کہنے لگیں کیوں نہیں؟ وہ تو عورت ذات کے لیے ایک آئیکن کی مانند ہے۔ میں نے عرض کیا، بالکل آئیکن کی مانند ہے ، لیکن آپ کو پتا ہے کہ ملالہ کی وجہ شہرت کیا ہے؟ بولیں ملالہ نے عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔
ان کی اس بات سے میں حیران ہوا۔میں نے عرض کیا، نہیں ملالہ کی وجہ شہرت کچھ الگ ہی ہے، کہنے لگیں ہاں اسے نوبل پرائز بھی ملا ہے۔ میں نے کہا نوبل پرائز تو بہت بعد کی بات ہے، آپ کو پتا ہے اس کو پہلی بارشہرت کب ملی؟ یہ سن کر وہ خاموش ہوگئیں۔
میں نے کہا ملالہ نو سال کی تھی جب اس نے وادی سوات کے حسین خطے میں بچیوں پر اسکولوں کے دروازے بند ہوتے دیکھے۔وادی پر ان دنوں ایسے عناصر کا قبضہ ہوچکا تھا جو بچیوں کے اسکولوں کو دھماکے سے اڑا رہے تھے۔ملالہ نے ایسے خوف کے عالم میں تین سال گزارے۔۔2009 میں ملالہ نے بچیوں کی تعلیم کے حق کے لیے خاص انداز سے آواز اٹھائی ،وہ بھی ایسے وقت میں جب مینگورہ کے چوک پر دہشت گردوں نے لوگوں کو مار کر ان کی لاشیں لٹکائی ہوئی تھیں،ملالہ نے ایسے میں بھی جان کی پرواہ کیے بغیر ایسے پْر تاثیر مضامین لکھے کہ دنیا کی آنکھیں کھلنے لگیں۔
۔ملالہ کی آواز ہم سب بنے ، سب ہی نے اسکا ساتھ دیا۔ میں نے ان خاتون سے پوچھا گل مکئی کا پتا ہیَ؟ کہنے لگیں نہیں۔ میں نے عرض کیا گل مکئی ہی وہ فرضی نام تھا جس سے بلاگ لکھ کر ملالہ نے اپنی بات آگے پہنچائی۔ اور یہی بات ملالہ کی اصل وجہ شہرت تھی۔ میں نے کہا اور ہم سب نے ملالہ کی تائید کی۔ کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ بچیوں کی تعلیم کو ختم کرانے والے عناصر کی سرکوبی کی جائے۔ملالہ نے کوئی نعرہ لگائے بغیراور کوئی پوسٹر اٹھائے بغیر اپنا مشن شروع کیا جو اس قوم کی مدد سے پورا ہوتا گیا۔
میں نے سوال کیا کہ کیا چند عناصر کی جانب سے کم عمر ملالہ کو دشمن، غیرملکی ایجنٹ ، اور حتی کے کردار پر انگلیاں اٹھانے والے طعنے نہیں ملے ، اور کیا ہم سب نے مل کر اس منفی سوچ کو ناکام نہیں بنایا؟ حالانکہ اس بچی نے تو کوئی بیہودہ نعرہ لگانا تو دور کی بات ، کبھی سر سے دوپٹہ نہیں اتارا تھا۔۔
بیہودہ نعرے کی بات سن کر وہ خاتون تلملا سی گئیں۔میں نے عرض کیا ، ناراض ہونے کی بات نہیں۔ ان نعروں سے کسی کوسستی شہرت تو ضرور مل سکتی ہے لیکن ان نعروں کے پوسٹرز کو بیٹی کے ہاتھ میں دیکھ کر کوئی باپ یا بھائی شاید فخر سے اپنا سر نہیں اٹھا سکتا۔
میں عرض کیا اچھا مختاراں مائی یاد ہے؟کہنے لگیں کون سی مائی؟ میں نے کہا کہ مختاراں مائی، جس نے اپنا جسم چند بھیڑیوں کے حوالے کیے جانے پر آواز اٹھائی؟ فرمانے لگیں ہاں ہاں کچھ یاد آرہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ سن 2002 کی بات ہے جب مظفر گڑھ کی ایک مظلوم لڑکی کو پنچایت نے چھ بھیڑیوں کے حوالے کیا۔اور سماج کو اطلاع بھی نہ ہوئی ، لیکن وہ لڑکی جب اس ظلم کے خلاف دْہائی دینے کے لیے سڑکوں پر آئی تو پھر دنیا اس کے ساتھ ہوگئی۔ اور ہم اور اس ملک کے تمام مرد مختاراں مائی کی آواز بن گئے،سب ملکر اس دیہاتی لڑکی طاقت بنے اور چند غنڈہ عناصرکو قانون کے شکنجے میں کسوا دیا۔
اس پر ان خاتون کا کہنا تھا کہ اچھا چلو ٹھیک ہے ، ہوا ہوگا۔
میں نے عرض کیا اس ملک میں چاہے تیزاب گردی کا واقعہ ہو یا کوئی زیادتی کا کیس، کوئی ایک ایسی مثال بتادیں کہ اس عمل کی مذمت نہ کی گئی ہو۔ چند پسماندہ علاقوں کو چھوڑ کر ملک میں کوئی ایک ایسا گھرانہ دکھا دیں جو کم عمری کی شادی کی حوصلہ افزائی کرتا ہو۔
میں نے عرض کیا، کیا زینب قتل کیس یاد ہے؟ فرمانے لگیں اچھی طرح۔۔ میں کہا، شکر ہے۔
زینب کا لہو جب گرا تو کیا رنگ نہیں لایا؟ کیا ایک بیٹی کے اس کرب پر کسی نے تالیاں بجائیں؟ بلکہ سب ملکر ہم آواز ہوئے تو قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
وہ بولیں کہ لیکن حوا کی بیٹیوں پر یہ مظالم تو اب بھی جاری ہیں۔میں عرض کیا کہ یہی تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم کسی معاملے کو ، کسی دوسری بات سے جوڑ دیتے ہیں۔ حوا کی بیٹیوں پر مظالم کے واقعات کی ذمہ دار کوئی صنف نہیں بلکہ قانون کی عدم حکمرانی ہے، جیسے ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے سے ہر سال ستر ہزار افراد ہلاک یا معذور ہوجاتے ہیں۔تو کیا اس کا ذمہ دار کسی صنف کو قرار دیا جاسکتا ہے؟
دوسری طرف سے اب کوئی آواز نہیں آئی ، میں نے کہا کہ ہیلو۔ ہیلو۔۔۔لیکن شاید لائن کٹ چکی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ان کا میسیج آیا کہ۔۔ سوری بیلنس ختم ہوگیا۔
دوستو : دنیا میں ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہے۔ سن 1982 کی بات ہے کہ کینیڈا میں پہلی بار ٹاپ لیس ہوکر درجنوں عورتوں نے شاہراہ پر شدید احتجاج کیا۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں مردوں کی طرح شرٹ اتار کر گھومنے سے کیوں روکا جاتا ہے۔ان کے اس مطالبے کے جواب میں ٹورنٹو کے میئر نے انہیں صرف ایک ہی جواب دیا۔ کہ ‘کیوں کہ آپ میں اور مردوں میں فرق ہے’۔۔
تھوڑا ہمیں افسوس اپنے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی ہے جس نے خواتین کے عالمی دن پر ، خواتین کے بجائے ان چند عورتوں پر فوکس کیا، جو شاید حقوق کے بجائے بیوقوفیاں کرنیکی آزادی مانگ رہی تھیں۔ عورت صنف نازک ہے،خدا نے اسے مردوں کے لیے پرکشش بنایا ہے۔کشش کا مطلب ہے کھنچاؤ، شاید اسی لیے ہر سوسائٹی میں عورت کو خود کو ڈھانپنے پر زور دیا جاتا ہے، کہ کہیں کوئی بے چارہ بلا وجہ کھنچا نہ چلا آئے ، کیونکہ اس میں اس کی ‘مرضی’ نہیں ہوتی۔
ہمارے ایک دوست خلیل الرحمان قمر کے بہت بڑے حمایتی بن کر سامنے آئے۔فرمانے لگے کہ اس نے ماروی سرمد کے ساتھ بالکل درست کیا۔ہم نے عرض کی۔بات یہ نہیں کہ غلط کون اور سہی کون ہے؟ ماروی سرمد ٹی وی پر جس طرح نعرے لگا رہی تھی وہ بھی شرمندہ کردینے والا فعل تھا، اور خلیل الرحمان قمر نے جو زبان استعمال اور غصہ کیا، وہ بھی قابل حمایت نہیں تھا، ان دونوں کیرکٹرز نے ٹی وی اسکرین پر قوم کے بچے بچیوں کو غلط میسیج دیا۔دونوں کی لڑائی کہیں سے بھی مرد و عورت کے حقوق کی لڑائی نہیں کہی جاسکتی۔
دوست فرمانے لگے کہ اچھا چھوڑو اس موضوع کو یہ بتاؤ کہ ملاقات کب ہورہی ہے۔ایسا کرتے ہیں سپر ہائی وے چلتے ہیں۔مٹن کڑہائی کا موڈ ہورہا ہے، میں نے کہا اللہ کو مانو ڈاکٹر نے تمہیں مرغن کھانوں سے منع کیا ہے۔اپنا وزن اور حجم تو دیکھو۔۔اس پر انہوں نے ایک ہی جملہ کہہ کر ساری بات ہی ختم کردی۔ بولے۔۔ میرا حجم۔۔ میری مرضی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔