میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
معزز ججوں کے بجائے مجمع کو منصف بنانے کے نتائج!

معزز ججوں کے بجائے مجمع کو منصف بنانے کے نتائج!

منتظم
منگل, ۱۳ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

دارالعلوم نعیمیہ میں منعقدہ تقریب میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تا حیات قائد نواز شریف خطاب کرنے اسٹیج پر آئے تو ایک شخص نے ان پر جوتا دے مارا۔دارالعلوم نعیمیہ کی انتظامیہ نے جوتا پھینکے والے شخص کو پکڑ لیا اور بعد ازاں سیکیورٹی اداروں نے مذکورہ شخص کو گرفتار کرلیا۔جب نواز شریف مفتی محمد حسین نعیمی کی برسی سے متعلق دارالعلوم نعیمیہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرنے اسٹیج پر آئے تو ایک شخص نے جوتا دے مارا تاہم جوتا ان کے کندھے اور بائیں کان کو چھو کر پیچھے جا گرا۔جوتا لگنے کے چند سیکنڈز تک واقعے پر نواز شریف ہکا بکا رہ گئے، دوسری جانب تقریب میں موجود لوگوں نے جوتا پھینکنے والے شخص پر تشدد کیا۔واقعے کے بعد نواز شریف نے تقریب سے مختصر خطاب کیا اور واپس چلے گئے۔واقعے کی منظر عام پر آنے والی ویڈیو میںنظر آنے والے مناظر سے ظاہرہوتاہے کہ جوتا پھینکنے کے بعد اس شخص نے نعرہ لگاتے ہوئے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کیے، تاہم اطراف میں موجود شہریوں نے اسے پکڑ لیا۔ گزشتہ روز وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف پر ایک تقریب کے دوران ایک شخص نے سیاہی پھینک کر ان کی باتوں سے نفرت کااظہار کیا تھا۔

پاکستان کی کم وبیش تمام سیاسی جماعتوںکے رہنمائوں نے اس واقعہ کی مذمت کرکے اس طرح کے واقعات کے خلاف نفرت کااظہار کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ پاکستانی سیاستداں ایک دوسرے کے ساتھ بدترین سیاسی اختلافات کے باوجود اس حد تک نیچے گرنے کوتیار نہیںہیں کہ کسی رہنماپر جوتے پھینکنے کے واقعے پر بغلیں بجاکر جوتا کھانے والے رہنما کو عوامی نفرت کاسبب بننے کی وجوہات یاد دلانے کی کوشش کرکے اس فعل کو درست قرار دینے کی کوشش کریں، جس کااندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان میں مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے سب سے بدترین مخالف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نواز شریف پر جوتا پھینکے کے واقع کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات ہمارے اخلاقیات کا حصہ نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ ایسے عمل میں تحریک انصاف کا کوئی کارکن ملوث نہیں۔انھوں نے کہا کہ سیاہی یا جوتا پھینکنا کوئی مہذب طریقہ نہیں۔پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے بھی نوازشریف پر جوتا پھینکنے کے عمل کو غیر سیاسی رویہ قرار دیاہے۔انہوں نے کہا کہ ان کے مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے ساتھ سیاسی اختلافات ضرور ہیں تاہم اس طرح کی حرکتوں کی روک تھام ضروری ہے۔انھوں نے کہاکہ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے کا عمل اور سابق وزیراعظم نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے عمل میں شدت پسند عناصر ملوث ہیں۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے واقعے کو غیر سیاسی عمل قرار دیا۔شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے نواز شریف کی بے عزتی ہوئی ہے، تاہم وہ اس حرکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو،آصف زرداری، سینیٹر شیریں رحمٰن،سینیٹر رحمٰن ملک اورقمر زمان کائرہ نے بھی نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے معاملے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی کم ہے اور تمام جماعتوں کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا سیاسی بیانیہ کیا بن گیا ہے، اور ہمارا اظہارِ خیال کیا ہوگیا اس بارے میں بھی ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے تو پھر عوامی نمائندے اپنی سیکورٹی حصار کو بڑھا دیں گے، اس طرح وہ عوام سے گھلنے ملنے سے محروم ہوجائیں گے جس کے بعد پھر میڈیا اور عوام ہی یہ کہیں گے کہ لیڈر عوام سے دور ہوگئے ہیں۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اس واقعے پر اپنے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے کی اتنی تذلیل، ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ،ملکی استحکام کے لیے کام کرنے اور جمہور کی حکمرانی مانگنے کا صِلہ یہاں ہمیشہ یہی ر ہا۔سابق وزیر اعظم نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ایک دوسرے کی اتنی تذلیل الامان۔ اب ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا پھانسیاں جلاوطنیاں قتل نااہلیاں جیلیں تشدد بہتان دشنام الزام ڈنڈے جوتے، چور اور غدار کے لقب ملکی استحکام کے لیے کام کرنے اور جمہور کی حکمرانی مانگنے کا صِلہ یہاں ہمیشہ یہی ر ہا ہے۔خواجہ سعدرفیق نے کہا ملک کوچلنے دو، دشمن کا کام آسان نہ کرو، متحدہ قومی قوومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رکن فیصل سبزواری اور دیگر نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے جوتا مارنے کے اس عمل کوناقابل جواز عمل قراردیاہے۔

نواز شریف پہلے سیاستدان نہیں ہیں، جن کو جوتے سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے قبل ان کے متعدد ہم وطن سیاستدانوں، جن میں ان کے بھائی شہباز شریف بھی شامل ہیں، کے علاوہ امریکا، بھارت اور دیگر ممالک میں بھی متعدد سیاستدانوں پر جوتے سے حملے کی کوشش کی گئی۔جوتا کلب کا حصہ بننے والے تازہ ترین رکن بلدیو کمار ہیں جنہیں 28 فروری کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رکن ارباب جہانداد نے جوتا دے مارا تھا۔لاہور میں 4 مارچ 2017 کو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو ریلوے اسٹیشن پر نامعلوم شخص نے جوتا دے مارا تھا۔24 اپریل 2014 کو لاہور میں ہی سائوتھ ایشیا لیبر کانفرنس کے افتتاح کے دوران وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف پر ایک صحافی نے جوتا اچھال دیا تھا۔اس کے علاوہ مارچ 2013 میں سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف پر ایک وکیل نے اس وقت جوتا دے مارا تھا جب وہ سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیس میں ضمانت کے لیے آئے تھے۔اس کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب رحیم کو اپریل 2008 میں بطور نو منتخب رکن سندھ اسمبلی کا حلف لینے کے بعد اسمبلی کے باہر جوتے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سے قبل سقوط مشرقی پاکستان کے بعد کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں ایک جلسہ عام کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی جوتے دکھائے گئے تھے اور بھٹو نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ یہ کہہ کر جوتے دکھانے والوں پر اوس گرادی تھی کہ مجھے معلوم ہے کہ جوتے مہنگے ہوگئے ہیں۔ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر عراق میں اس وقت جوتا پھینکا گیا تھا جب وہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے بعد ازاں عراقی عدالت نے سابق امریکی صدر جارج بش پر جوتا پھنکنے والے صحافی منتظر الزیدی کو 3 سال کی سزا سنائی تھی۔ لاس ویگاس میں 11 اپریل 2014 کو سابق امریکی وزیر خارجہ اور سابق امریکی خاتون اوّل ہلیری کلنٹن پر ایک پروگرام کے دوران ایک خاتون نے جوتا اچھال دیا تھا۔بھارت کے بھی کئی سیاستدان جوتا کلب میں شامل ہیں۔عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال پر کئی مواقع پر جوتا پھینکے جانے کے واقعات پیش آئے۔گزشتہ سال ستمبر میںکانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی پر بھی ریلی کے دوران جوتا پھینکا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ نواز شریف پر جوتا پھینکنے کا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے ، بلکہ مدرسے کے طالبعلموں کی جانب سے نواز شریف یا ان کی پالیسیوں کے خلاف نفرت کے ایک اظہار کا ایک ذریعہ ہے کیونکہ آج کے دور میں کیا کسی بھی دور میںعام آدمی کی مایوسی اورحکومت کے خلاف جذبات کو کبھی پوری طرح عوام کے سامنے نہیں آنے دیاجاتا جس کے بعد عام آدمی کے پاس اپنی نفرت یا حکمرانوں کی پالیسیوں کی مخالفت کے اسی طرح کے ذرائع باقی رہ جاتے ہیں جو دنیا بھر میں وہ استعمال کرتے نظر آتے ہیں، اس توضیح سے ہمارا ارادہ اس قبیحہ فعل کو حق بجانب قرار دینا نہیں ہے بلکہ ہم حکمرانوں اور سیاست دانوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ انھیں اس طرح کے واقعات کو نوشتہ دیوار تصور کرتے ہوئے اپنے قول وفعل کے تضاد کو دور کرنے اور ایک دوسرے کی کردار کشی کرنے سے گریز کرنے کی راہ اپنانی چاہئے، اس حوالے سے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بصورت دیگر سیاستدانوں اور خاص طورپر حکمرانوں کی لوٹ مار سے تنگ آئے ہوئے عوام کچھ بھی کر گزر سکتے ہیں، اور اس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود حکمرانوں اور سیاستدانوں پر ہی عاید ہوگی۔

امید کی جاتی ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور خاص طورپر اس کے قائد اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوںکو محسوس کریں اور اپنے جلسوں میں مخالفین خاص طورپر عدلیہ کو بے وقعت کرنے کی کوشش میں سیاق وسباق سے ہٹ کر بات کرنے اور عدلیہ کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے، انھیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر وہ ملک کی اعلیٰ ترین ججوں کے مقابلے میں عوام کے مجمع کو جج بنانے اور ان سے فیصلے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر عوامی اجتماعات کی جانب سے اسی طرح کے فیصلے سامنے آنا غیر متوقع نہیں ہوگااور عوام کی جانب سے آنے والے اس طرح کے ردعمل آنا شروع ہوگئے تو اس کو روکنا آسان کام نہیں ہوگا اور اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو اس ملک میں جنگل کاقانون رائج ہوجائے گا جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا ،اس لیے نواز شریف ، ان کی چہیتی بیٹی مریم صفدر اور ان کے دیگر حامیوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور سپریم کورٹ کے معزز ججوں کے فیصلوں پر عوام سے فیصلے مانگنے کی یہ روش فوری طورپر ترک کردینی چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں