ایم ڈی واٹر بورڈ کراچی کے لاکھوں لوگوں کو پیاسا مارنے پر تُل گئے!!!
شیئر کریں
٭مصباح الدین فریدنے اجازت نامہ نہ رکھنے والی کثیر المنزلہ عمارتوں کا پانی روکنے کے منصوبے بنانا شروع کردیے
٭2002 کے بعد سے دس ہزار سے زائد تیار ہونے والے فلیٹس زد میں آسکتے ہیں،بااثر بلڈرز پر جرمانوں کے بجائے شہریوں کو تنگ کرنے کا انوکھا فیصلہ
٭ ایم ڈی واٹر بورڈ کے وزیراعلیٰ کو لکھے گئے دوصفحات پر مبنی خط نے مراد علی شاہ کو ہکابکا کردیا، وزیراعلیٰ نے سیکریٹری بلدیات سے جواب مانگ لیا
عقیل احمد راجپوت
عروس البلاد کراچی ایشیاکے ان چند شہروں میں شمار ہوتا ہے جس کی آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس شہر کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کسی ادارے نے نہیں کی۔ اس شہر میں آبادی کس حساب سے بڑھ رہی ہے؟ شہر عمارتوں کا جنگل بن رہا ہے؟ ٹھیلے سڑکوں پر گاڑیوں سے زیادہ ہوگئے ہیں‘ زمینوں پر قبضے عام سی بات بن گئی ہے‘ مسلح گروپ چھوٹے چھوٹے جرم کرکے کئی علاقوں پر قابض بنتے جارہے ہیں لیکن کسی سیاسی ومذہبی جماعت کی کیا مجال کہ اس پر ایک لفظ بھی بولے۔ ایم کیو ایم‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کو اتنی توفیق نہیں کہ وہ صرف ٹریفک‘ آلودگی‘ ٹھیلوں اور قبضوں پر بات کریں اور ایسی تجاویز پیش کریں جس سے اس شہر کی خوبصورتی بڑھے اور شہر کے کاروبار میں ترقی ہو‘ ٹریفک کے مسائل حل ہوں‘ حادثات کم ہوجائیں‘ لیکن افسوس کہ جس طرح عوام نے ظلم زیادتی کو تقدیر سمجھ کر خاموشی اختیار کرلی ہے، سیاسی ومذہبی جماعتوں نے بھی جوں کے توں حالات پر سمجھوتہ کرلیا ہے۔
قیام پاکستان سے لیکر آج تک کراچی میں پانی کا مسئلہ ہمیشہ سنگین رہا‘ حالانکہ اب دبئی سمیت کئی ممالک نے سمندری پانی کو فلٹر کرکے پینے کے لائق بنادیا ہے۔ اسی طرح کراچی کے لیے کسی بھی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو اتنی زحمت نہیں ہوتی کہ وہ کراچی میں پینے کے پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کریں‘ بمشکل ابھی کے تھری منصوبہ مکمل ہوا ہے اور اب کے فور منصوبہ کی تکمیل کے لیے بھاگ دوڑ کی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ 1200 کیوسکس کے فور منصوبہ کے لیے چاروں صوبے دیں‘ اب مشترکہ مفادات کی کونسل فیصلہ کرے گی کہ کراچی کو چاروں صوبے 1200 کیوسکس پانی دیتے ہیں یا نہیں؟ لیکن ابھی یہ مسئلہ حل ہی نہیں ہوا کہ ایم ڈی کراچی واٹر اینڈ سیوریج مصباح الدین فرید نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو دو صفحات پر خط لکھ کر بھونچال کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا ہے کہ اب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والے سر پھرے ہوگئے ہیں ۔پہلے جب کوئی بھی کثیر المنزلہ عمارت بنتی تھی تو اس کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سے این او سی لیا جاتا تھا لیکن 2002ءکے بعد یہ سلسلہ ہی ختم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا ہے کہ جن عمارتوں کی تعمیر سے قبل واٹر بورڈ سے این او سی نہیں لیا گیا ان عمارتوں کو اب کراچی واٹر بورڈ کی جانب سے پانی کا کنکشن اور سیوریج کی لائنیں فراہم نہیں کی جائیں گی۔ جس کا مطلب ہے کہ گلستان جوہر‘ گلشن اقبال‘ نارتھ ناظم آباد‘ نارتھ کراچی‘ ملیر‘ سرجانی ٹاﺅن سمیت کراچی کے ایک درجن سے زائد علاقوں کو اب پانی نہیں ملے گا۔
ایک اندازے کے مطابق 2002ءکے بعد کراچی میں دس ہزار سے زائد فلیٹ تیار کیے گئے ہیں۔ اس طرح ان دس ہزار خاندانوں کو اب پینے کا پانی نہیں ملے گا کیونکہ ایم ڈی واٹر بورڈ کا موقف ہے کہ جس طرح کراچی کی آبادی ہر سال پانچ فیصد بڑھ رہی ہے، اس حساب سے کراچی میں پینے کے پانی کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے اور اب کے تھری منصوبہ سے بھی پینے کے پانی کی ضرورت پوری نہیں ہورپاہی ہے۔ اس لئے کے فور منصوبہ شروع کردیا گیا ہے مگر جو تعمیراتی منصوبے واٹر بورڈ سے این او سی نہیں لے چکے ان کو اب پانی نہیں ملے گا ۔ان کو سیوریج کے سسٹم سے بھی منسلک نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ کو جب یہ خط ملا تو وزیراعلیٰ سندھ سکتے میں آگئے اور انہوں نے فوری طورپر سیکریٹری بلدیات کو ایک خط لکھ کر ہدایت کی کہ وہ ایم ڈی واٹر بورڈ کے اس خط پر اپنے کمنٹس دیں کیونکہ یہ ایک فطری ضرورت ہے کہ ہر شہری کو پینے کا پانی فراہم کیا جائے۔ ایم ڈی واٹر بورد کا پانی کم ہونے کا عذر اپنی جگہ پر ٹھیک ہے مگر یہ حق ان کو کسی نے بھی نہیں دیا کہ وہ کسی شہری کا پانی روک دیں۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کو چاہئے کہ وہ کثیر المنزلہ عمارتیں بنانے والے بااثر بلڈرز پر جرمانے عائد کرائے تاکہ آئندہ کوئی بھی بلڈر اپنی عمارت تعمیر کرنے سے قبل واٹر بورڈ سے این او سی ضرور لے لیکن بلڈرز کی غلطی کی سزا ان فلیٹوں اور گھروں میں رہنے والے افراد کو کیوں دی جائے؟ کیا عام شہری فلیٹ یا گھر لینے کے بعد اس وجہ سے پورے خاندان سمیت پیاسا رہے کہ اس کے بلڈر نے واٹر بورڈ سے این او سی نہیں لےاتھا؟ میئر کراچی بھی اس ناانصافی پر خاموش ہیں حکومت سندھ کیا کرتی ہے اس کا بھی فیصلہ سیکریٹری بلدیات کے کمنٹس پر ہوجائے گا لیکن سیاسی‘سماجی اور مذہبی حلقوں کی خاموشی ایسے افسران کو مزید دلیر بنادے گی پھر آنے والے وقتوں میں پانی کی قلت کو مزید بڑھاکر کراچی کو کربلا بنادیا جائے گا؟