میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیاحوں کے لیے مری موت کی وادی بن گئی

سیاحوں کے لیے مری موت کی وادی بن گئی

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۳ جنوری ۲۰۲۲

شیئر کریں

عطا ء اللہ ذکی ابڑو

چھ جنوری بروزمنگل کووفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹویٹ میں انکشاف کرتے ہوئے کہاتھاکہ مری میں سیاح کی ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں، ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں؟ انہوں نے سیاحوں کی تعداد میں اس اضافہ کو سیاحت اور عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافہ قراردیا؟ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ اس سال سو بڑی کمپنیوں نے 929 ارب روپے منافع کمایا ہے اور تمام بڑے میڈیا گروپس 33 سے چالیس فیصد منافع میں ہیں اورٹھیک ایک روزبعد یعنی ہفتہ کی صبح 8جنوری کو موصوف کا یہ کہا سیاحت اورمری کارخ کرنے والے سیاحوں پر لگی ایک کاری ضرب ثابت ہوا؟ ایک اندوہناک خبرملتی ہے کہ مری میں شدیدبرفباری کے باعث 20 افراداپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں؟ سوشل میڈیا پرفوٹیجزوائرل ہوناشروع ہوئیں یہ وہ افرادتھے جو وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بیان کے بعد پرجوش ہوکر اپنی فیملی بیوی،بچوں کے ہمراہ گاڑیوں میں سوارہوکر’’ اسنو فال‘‘ دیکھنے مری کے پرخطر راستے پرچل پڑے تھے؟مری کاٹوٹل رقبہ 434 کلو میٹر اوراس کی آبادی کم وبیش ایک لاکھ 76 ہزار 424 نفوس پرمشتمل ہے ان کاذریعہ معاش ٹورازم ہے یہ لوگ برفباری سے قبل اپنے بوڑھے والدین، بیوی، بچوں کو پہلے محفوظ پناگاہوں میں چھوڑکرآتے ہیں اورجوبچ جاتے ہیں وہ سخت موسم کوبرداشت کرنے کے تمام طریقے آزماتے ہوئے روزگارکی تلاش میں مری کی شاہراہوں کارخ کرلیتے ہیں ان کی غذاء سے لے کر لباس تک موسم کی سختیوں اورشدید برفباری کاسامناکرنے کے قابل ہوتا ہے مگر افسوس کے جولوگ مری سیروتفریح کی نیت سے آتے ہیں نہ توانہیں حکومت کی جانب سے کوئی مناسب بندوبست دیکھنے کوملتاہے اورنہ ہی وہ راستے کی سختیاں جھیلنے سے واقفیت رکھتے ہیں یہ لوگ اسلام بادسے مری ایک دوگھنٹے کے سفر کواپنی منزل مقصود کاحاصل سمجھ کر اس پرخطرراستے کاانتخاب کرتے ہیں؟ انہیں شدید برفباری سے بچنے کے لیے برف پوش پہاڑوں پر ریسکیوادارے اورنہ ہی کوئی سائبان بھی نظرنہیں آتاہے؟یہی وجہ تھی کہ لاکھوں کی تعداد میں ملکہ کوہسارآنے والے سیاح کی ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں بیچ سڑک پر فوری ریسکیو نہ ہونے کی وجہ سے برف کی سلوں میں تبدیل ہوگئیں ؟مری کے برف پوش راستے سیاح کے لیے ایک بھیانک موت کی وادی میں بدل گئے، برفباری کی شدت سے جاں بحق اے ایس آئی نوید اقبال سوشل میڈیا پروائرل اپنے آخری پیغام میں مدد کے لیے ریسکیوآپریشن اورکرین بھجوانے کے لیے رابطہ کرتے رہے؟چیختے رہے چلاتے رہے؟دل دہلادینے والے منظرسے ناواقف وفاقی وزیرفوادچوہدری پرمنظرنامہ دیکھ کرسکتہ طاری ہواتوانہوں نے المناک حادثہ رونماہوتے ہی مزید سیاح کو مری کا رخ نہ کرنے کی اپیل کی؟مری سانحے پر نوحہ کناں حکمرانوں پر انقلابی شاعر منیرنیازی کا یہ شعر صادق آتاہے کہ
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود ہی گرا تھا خنجر کی نوک پر
434 کلو میٹر رقبے پرمحیط ایک ایسا علاقہ جہاں گاڑیاں کھڑی کرنے کی گنجائش صرف 4 یا 5 ہزار سے زائد نہ ہو؟جہاں موسم کی خرابی سے قبل محکمہ موسمیات شدید برفباری پڑنے سے خبردارکرچکا ہو؟ایسے میں حکومت وقت کوچاہیئے تھاکہ پہلے سیاح کے لیے مناسب بندوبست کرتی ان کے لیے راستے ہموارکرتی؟مگرصد افسوس کی ہمارے وزراء موت کی ان وادیوں میں سہولیات دینے کے بجائے انہیں صرف معیشت کا بہترین ذریعہ قرار دے کر لوگوں کو شہہ دیتے رہے؟بے موت مارے جانے والے افراد جن کی سرکاری تعداد صرف 20 بتاکرہی اکتفا کیاگیا؟اور حادثہ سے بڑھ کرسانحہ یہ ہوا کہ حکومت وقت برف پوش پہاڑیوں میں دبی ڈیڈ باڈیز کودو تین روز تک ان کے ورثاء تک پہنچانے کا بندوبست بھی نہ کرسکی؟پاک فوج برف میں پھنسے لاکھوں سیاحوں کی مدد کو آئی فوجی دستے سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر ان کی مدد میں مصروف رہے،مری ڈویژن کے انجینئرڈ دستے برف باری میں پھنسے لوگوں کو نکالنے اور مرکزی شاہراہ سمیت تمام راستے کھولنے میں۔مددگار ثابت ہوئے،آئی ایس پی آر کی جانب سے برف باری میں پھنسے سینکڑوں لوگوں کو ریسکیو کرنے کے بعد انہیں شیلٹر،کھانا دیگر ضروری سامان فراہم کیاگیا،سوشل میڈیا پرمختلف شخصیات اورمری میں قائم ہوٹل مالکان نے اپنی خدمات مفت پیش کرنے کی پیغامات جاری کرنا شروع کردیئے؟تاریخ میں ایسی بے حسی کی مثال نہیں ملتی جی ہاں؟یہ گلیات کے وہی ہوٹل مافیازہیں کہ جنہوں نے حادثہ رونما ہونے سے قبل ہوٹل کا کرایہ چالیس سے پچاس ہزارکر رکھا تھا؟سنی بینک سے لے کر چھیکا گلی کے درمیان گاڑیوں کی قطار در قطار برف میں پھنسے سیاح سے مددکے عوض بھاری معاوضہ طلب کیاجاتارہا؟برف میں پھنسی گاڑیوں کودھکالگانے اورگاڑیوں کی ٹائروں میں زنجیر ڈال کر نکالنے کے لیے مسافروں سے ہزاروں روپے مانگتے رہے؟مجبورا تن تنہا یہ مسافراپنے بچوں کے ہمراہ گاڑیوں کو دھکالگاکراپنی مدد آپ کے تحت منزل مقصود پرجانے کی کوشش کرتے رہے؟سیاحتی مقامات پراس ہوشربا مہنگائی اور مافیاکو روکنے والا کوئی حکومتی نمائندہ نظرنہیں آیا؟زمینی حقائق سے ناآشنا پنجاب کے حکمراںہیلی کاپٹرکافضائی جائزہ لیتے رہے؟مری کو سانحہ کے بعد علاقہ آفت زدہ قرار دے کر سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے ؟تمام وسائل بروئے کارلانے؟ضروری امدادی اشیاء فراہم کرنے، راولپنڈی اور دیگر شہروں سے اضافی مشینری اور عملہ مری بھجوانے کے الرٹ جاری کرتے رہے؟ آخرکارلوگ اپنے پیاروں کی تلاش کے لیے خود اس خونی راستے پربے یارومددگارچل پڑے ؟اسلام آباد اورمری انتظامیہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ ان برف پوش علاقوں میں گنجائش اور وہاں کی صورتحال کے دیکھتے ہوئے سیاح کے لیے بہتر انتظامات کرتی؟لاکھوں کی تعداد میں سیاح مری کی جانب جاتے ہیں انتظامیہ نے جان بوجھ کروہاں جانے کے لیے کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کی؟ ہوٹلز کے بڑھتے کرایوں کو کنٹرول کرنے والا کوئی نہ تھا؟ اورنہ ہی ناگہانی صورتحال سے نبٹنے کے لیے ریسکیوٹیموں کو پہلے سے الرٹ کیاگیا؟ جس کے باعث20 افراد جن میں بچے بھی شامل تھے گاڑیوں میں ہی دب کربیٹھے زندگی کی آخری سانسیں لیتے رہے؟کم از کم فرسٹ ایڈ کے طور پر لوگوں کو پہلے سے آگاہ کردیا جاتا کہ شدید برفباری کے دوران جب آپ کی گاڑی چلنے کے قابل نہ رہے؟اس دوران اگرگاڑی کے شیشے بند ہونے اورانجن چلتارہنے کی وجہ سے گاڑی میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس بننے کاخطرہ پیداہوجاتاہے اوریہ ایک ایسی گیس ہے جس کی بو تک نہیں ہوتی؟اورنہ اس کاآسانی سے پتہ لگایاجاسکتاہے؟جو کہ جان لیواثابت ہو تی ہے ایسی صورت میں اگر آپ کی گاڑی کاانجن چل رہاہے تو آپ کو اپنی گاڑی کاشیشہ ہلکاساکھلا رکھناپڑتاہے اوراس دوران سائلنسر پائپ پربھی برف جمنے سے روکناہوتی ہے یقینا گاڑیوں میں بیٹھے اپنی جان گنوانے والے سیاح اس بات سے بھی ناواقف ہوں اورانہوں نے شدید برفباری میں سردی کی شدت کودور کرنے کے لیے گاڑیوں کواسٹارٹ رکھاہواہو؟ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ سخت سردی سے بچنے کے لیے اسٹارٹ گاڑیوں کے شیشے بندہونے کی وجہ سے ان کا دم گھٹ گیاہو؟کاش آج جوریسکیوٹیمیں کام کررہی ہیں اگرسانحہ رونماء ہونے سے قبل جب برفباری میں ابھی پوراایک سال باقی تھااسی جذبہ سے سرشارہوکر تمام حفاظتی اقدامات ہی بروئے کارلائے جاتے تو اس حادثے سے بچاجاسکتا تھا؟ مگربڑے افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ بے جب ان گاڑیوں میں پھنسے بے کس بے یارو مددگار لوگ اپنی سانسیں گن رہے تھے اسوقت حکومت وقت کو گاڑیاں گننے کی پڑی تھی؟ جب تک ہمارے سر پر کوئی مصبیت نہ آن پڑے؟ایسے حادثات سے قبل ان کے تدارک کے لیے کوئی تدبیرنہیں کی جاتی؟برف پوش پہاڑوں میں ڈھکا مری آج موت کی وادی میں تبدیل ہوچکاہے آج بھی جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ان کے قتل کامقدمہ کس کس پردرج کیاجائے؟مگر انہیں آج بھی یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے؟ کہ اس کرمنل کوتاہی کا ذمہ دارکون ہے؟ بقول جون ایلیاء
بنت آدم کے نرم لہجوں نے
ابن آدم بگاڑ رکھے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں