میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہم وائٹ ہائوس میں ٹرمپ کے ساتھ پھنس گئے ہیں!

ہم وائٹ ہائوس میں ٹرمپ کے ساتھ پھنس گئے ہیں!

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۳ جنوری ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

نکولس کرسٹوف

کیا آپ کو مارٹن گوگینو یاد ہے؟ وہ 75 سالہ شخص جو جون میں بفیلو میں کالوں کے خلاف نسلی تعصب کے خلاف احتجاج کی پْرامن طور پر حمایت کر رہا تھا جب پولیس افسران نے اسے زمین پر پھینکا، اس کی کھوپڑی کو توڑ ڈالا جس سے اس کے دماغ کو نقصان پہنچا۔ گوگینو ابھی ہسپتال میں پڑا تھا، صدر ٹرمپ نے جھوٹ بولتے ہوئے گوگینو پر یہ الزام لگایا کہ وہ اینٹیفا جنگجو ہے۔اس لیے میں نے کچھ دن پہلے گوگینو کو فون کیا۔ آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے پْرامن طور پر کوشش کرنے پر ان کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کے بعد، کیا وہ آئینی انتخابات کو پامال کرنے کے لیے دارالحکومت پر حملہ کرنے والے فسادیوں سے انتہائی مہذب سلوک کے باعث پریشان تھے؟ گوگینو نے آہستہ سے مجھے بتایا، ’’مجھے بھوننے کے لیے دوسری مچھلی مل گئی ہے۔‘‘ وہ ابھی پولیس حملہ سے صحت یاب ہو رہا ہے: وہ ایک کان کی قوت سماعت سے محروم اور درست طور پر چل پھر بھی نہیں سکتا۔

وہ کینہ پرور نہیں تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ ایک پولیس افسر کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں جس نے کانگریس کی سیڑھیوں میں کسی عورت کی مدد کی اور کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ اس کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جیسا اس کے ساتھ ہوا۔انہوں نے فسادیوں کے بارے میں کہا، ’’امریکا میں بہت سارے گمراہ لوگ ہیں۔‘‘ ’’آپ امریکاکے ہر گمراہ شخص کو سمجھا نہیں سکتے۔‘‘یہ کسی ایسے شخص کی طرف سے انتہائی رحمدلانہ گفتگو ہے جو ٹرمپ کے ’’امن و امان‘‘ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے کبھی بھی پوری طرح تندرست نہیں ہو سکتا، اس کی شائستگی اور مستقل مزاج اخلاقی برتری ٹرمپ کی منافقت اور کانگریس اور دائیں بازو کے میڈیا میں اس کے حمایتیوں کے لیے تازیانہ ہے۔

اس سے قبل دارالحکومت میں امن شکنی کے دو بڑے واقعات میں 1812 کی جنگ کے دوران برطانوی فوجیوں کی طرف سے ذریعہ عمارت کو جلایا گیا تھا اور 1954 میں پورٹو ریکن قوم پرستوں نے حملہ کیا تھا جنہوں نے ایوان کے پانچ اراکین کو گولی مار دی تھی۔ پورٹو ریکن قوم پرستوں نے کسی کو ہلاک نہیں کیا لیکن ہر ایک کوئی دو دہائیوں سے زیادہ قید میں رہا۔امکان ہے کہ ٹرمپ اس مہلک حملے کو اْکسانے کی کوئی قیمت ادا نہیں کریں گے، جس میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ملک کی بنیادیں ہلا دینے والا ٹرمپ کسی بھی آفت سے کم نہیں۔ داخلی طور پر، وہاں نگرانیاں موجود ہیں، لیکن اگر وہ چاہتا ہے تو اپنی آخری 11 روزہ مدت کے دوران وہ ایران پر حملہ کر سکتا ہے یا چین پر جوہری میزائل چلا سکتا ہے اور دنیا کو خاکستر کر سکتا ہے۔لہٰذا کابینہ کو 25 ویں ترمیم کے تحت انہیں اقتدار سے ہٹا دینا چاہئے لیکن ایساکہہ دینا آسان ہے اور اس کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔ ٹرمپ کے چاپلوس ایسا کرنے نہیں دیں گے۔اسی طرح، ایوان ٹرمپ کا مواخذہ کر سکتا ہے لیکن سینیٹرز شاید 20 جنوری سے قبل یا اس کے بعد، انہیں سزا سنانے کے لیے ووٹ نہیں دیں گے۔ پچھلی بار جب ان کا مواخذہ کرنے کی کوشش کی گئی توہ وہ ناکامی سے دوچار ہوئی اور وہ اس میں سرخرو رہے تھے۔اب بھی بہت سارے ریپبلکن اس کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں؟ جنوبی کیرولائنا کے سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹرمپ سے اختلاف کیا تو مشتعل ہجوم نے جمعہ کے روز ایک ہوائی اڈے پر اسے گھیر لیا، اسے لعنت ملامت کی، اسے غدار قرار دیا اور کہا کہ ’’جہاں کہیں بھی جائو، ہمیشہ کے لیے ایسا ہی ہو گا۔

‘‘
لہٰذا یقینا آپ یہ نہیں سننا چاہیں گے لیکن مجھے ڈر ہے کہ دنیا اگلے 11 دن تک دنیا کے طاقتور ترین شخص کی حیثیت کے حامل ایک دیوانے کے ساتھ پھنس گئی ہے۔ ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، اور یہ حد درجہ ناکافی ہے، ان اصولوں کو دوبارہ سے قائم کرنے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے کہ ٹرمپ نے اپنے چاہنے والوں سے کتنی غداری کی ہے۔بدھ کی صبح، ٹرمپ نے مختصر وقت میں فسادیوں کو اْکسا لیا، انہیں کانگریس جانے کی ہدایت کی اور انہیں یقین دلایا، ’’میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔

‘‘
یہ ایک اور جھوٹ تھا۔ ٹرمپ بحفاظت وائٹ ہائوس میں مقیم رہے جب ان کے ہجوم نے حملہ کیا، ایک کیپٹل پولیس افسر کو ہلاک کیا اور فوٹو جرنلسٹوں پر حملہ کیا۔ نیبراسکا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن، سینیٹر بین ساسے نے ہیو ہیوٹ کے ریڈیو شو میں کہا کہ ٹرمپ ٹیلی ویڑن پر حملے کو ہوتا دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میرے خیال میں ایشلی بیبٹ نے جب ایوان نمائندگان پر حملہ کیا تو اسے گولی مار دی گئی جس سے وہ ہلاک ہو گئی۔ انہوں نے صدر باراک اوباما کو ووٹ دیا تھا لیکن پھر ٹرمپ نے اسے ورغلا لیا، اس نے فاکس نیوز کے ٹکر کارلسن کو مقدس جانا اور سمجھا کہ وہ کانگریس پر دہشت گردوں کے حملے میں شامل ہو کر اپنے ملک کا دفاع کر رہی ہے۔اس سب کا ذمہ دار صرف ٹرمپ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کانگریس میں اس کے حمایتی اور دائیں بازو کا میڈیا بھی ہے۔ زہر االود خبریں کیوں پھیلائی گئیں۔ فیس بک نے پھر سے ٹرمپ کو نفرت پھیلانے کا موقع کیوں دیا؟ اب تک، ٹرمپ کو ملک میں فسادات کی آگ بھڑکانے کے الزام میں سب سے سنگین پابندی کا سامنا کانگریس، کابینہ یا عدالتوں سے نہیں بلکہ ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم، ٹویٹر سے ہوا ہے، جس نے کہا ہے کہ اس نے ان کا اکاو?نٹ مستقل طور پر معطل کر دیا ہے۔ اور جیسا کہ کینساس سٹی اسٹار نے سینیٹر جوش ہولی کی طرف سے عوام کے جذبات برانگیختہ کرنے کے بارے میں ایک سخت ایڈیٹوریل میں کہا ہے، ’’جلوس کو پہاڑی کے کنارے لے جانے کے بعد، ہولی ریاکاری کرتے ہیں کہ آگے کیا ہوا۔‘‘ اسٹار نے کہا کہ ہولی کو یا تو استعفیٰ دے دینا چاہئے یا اسے سینیٹ سے ہٹا دینا چاہئے۔

ٹرمپ سیاسی طور پر جسم میں ایک گہرا زخم چھوڑ جائیں گے، اور اس کا مندمل ہونا مشکل ہو جائے گا۔ مارٹن گوگینو کے لیے یہ سچ ہے جب وہ چلنے کی کوشش کرتے ہیں، ٹرمپ کے جنونیوں نے جو بائیڈن کو بطور صدر اپنی قوم کے لیے منتخب کیا۔ یہ بات رائے عامہ میں ہموار ہو رہی ہے کہ ٹرمپ شاید اس سے معافی لے کر فرار ہو جائیں گے یہاں تک کہ ان کے کچھ پْر خلوص حامی ان کے لیے جیل پہنچ گئے تھے۔ یہ ایک خطرناک اتائی کا آخری عمل ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں