پاکستان کے سیاستدانوں کے نام کھلا خط
شیئر کریں
ہم یہ زمانے سے دیکھتے، پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں کہ اہل قلم نے ہمیشہ اپنے قلم کو زحمت دی اور اپنے ہر سیاستدان کو توجہ دلائی کہ یہ ملک دنیا کا عظیم ملک ہے، یہ ہے تو ہم ہیں اور خدانخواستہ یہ نہیں تو پھر ہم بھی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اہل قلم نے سچائی اور صداقت کی روشنائی سے سیاسی ذمہ داروں کو باور کرایا کہ اگر سیاست کے راستہ پر آگئے تو پاکستان کی حفاظت، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمیں احتساب دنیا سے پہلے احتساب نفس کرنا ہوگا اور اگر ہم نے صرف دوسروں پر تنقید اور انگلیاں اٹھانے کا بیڑہ اٹھالیا تو پھر اس صداقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا کہ ہم قدرت کے احتساب سے نہیں بچ سکتے!
آج ہمیں نظر آرہا ہے کہ ہمارے پاس کوئی سیاسی کلیہ قاعدہ نہیں اور نہ ہی اصول، جس کی وجہ سے اپوزیشن کے تمام تر دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ سیاسی جنگ و جدل میں جو کچھ ہورہا ہے وہ قومی بقاء کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔ سیاستدان آج دو ہی طبقات میں تقسیم ہوچکے ہیں جن میں ایک وہ طبقہ ہوتا ہے جو دامن اقتدار سے وابستہ ہوکر ایوان اقتدار میں براجمان ہوچکا ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو اقتدار تک کی رسائی کی جنگ لڑرہا ہوتا ہے اور یہ دنیا خوب جانتی ہے کہ اقتدار والے کرپشن کا نیا کاروبار اور بازار لگاتے ہیں اور اسی طرح جب سیاسی متقی، پرہیز گار اور محب وطن کہلانے والے اقتدار حاصل کرلیتے ہیں تو وہ بھی سیاست اور اقتدار کے حمام میں ننگے نظر آتے ہیں، اس حقیقت کے پیش نظر میری آج کی نشست میں کھلے خط سے ہی کام لیا ہے اور اس حسن تصور میں ہوں کہ شائدکہ اتر جائے کسی کے دل میں میری بات۔
اے سیاستدانو!!ہمارے ملک کو وجود میں آئے ہوئے تقریباََ70 سال گزرچکے ہیں لیکن کب تک آپ اور ہم اس سچائی پر پردہ ڈالتے پڑیں گے، چھپاتے رہیں گے یا اپنے ہی ضمیر کے صحن میں دفن کرتے کہ ہم من حیث السیاستدان ناکام، فیل اور نا اہل ثابت ہوچکے ہیں، آج اس کا اعتراف ہمیں کرنا پڑتا ہے کہ قدرت نے ہمیں اعلیٰ اور تمام تر صلاحیتوں سے تو نوازا مگر ہم خود ساختہ مفاداتی نظام میں کھوکر یہ تمام صلاحیتیں ضائع کرچکے ہیں، ہم قوم کو وہ نظام نہ دے سکے جس کی بنیاد اور اساس پر ملک دنیا و اسلام کے نقشہ پر ابھرا تھا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اعزاز پایا، ہمیں اخوت و بھائی چارگی، افہام و تفہیم اور صبر و تحمل کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا، ہمیں یہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم الزام تراشیوں پر اس قدر آمادہ اور ماہر ہوچکے ہیں کہ جیب تراش بھی اپنی جیب تراشیوں کے فن پر شرمندہ ہونگے، آپ کسی بھی سیاستدان کی گفتگو سے پردہ اٹھائیں تو یہ محسوس ہوگا کہ یہ وقت کا سیاسی ولی اللہ ہے اور جب اس کی طبیعت اور مزاج کا دروازہ کھولیں گے تو عجیب سے تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔ آج کل میاں نواز شریف اور عمران خان کی جنگ جاری ہے، اس میں کون شکست کھاتا ہے اور کون فتح یاب ہوتا ہے یہ وقت از خود فیصلہ کرے گا، ہمیں میاں نواز شریف سے کوئی ذاتی عناد اور مخاصمت نہیں اور نہ ہی عمران خان سے کوئی عداوت اور بغاوت ہے ۔ہمیں صرف ان سے یہ کہنا ہے کہ جنگ کا یہ انداز اور طریقہ قطعاََ قومی مفادات کے لیے درست نہیں اور اگر آپ قومی مقاصد کو ترجیح دینا چاہتے ہیں تو اپنے اسلوب سیاست کے انداز بدل دو ۔قوم کو ایسے موڑ پر مت لے جائو کہ پھر آپ کہیں کے نہیں رہیں گے، کردار و عمل سے ہی اگر درست راستہ نصیب نہیں ہوتا ہے تو پھر ایسے راستے پر چلنے سے پرہیز کرنا ہوگی جو ذلت اور رسوائی کی طرف جاتا ہے، قوم ہوشمند اور بیدار بھی ہوتی ہے اور وہ خوب جانتی ہے کہ سچ اور جھوٹ کا فرق کیا، آج بھارت کشمیر میں ظلم و بربریت کا پہاڑ ڈھارہا ہے اور مودی کی حکومت دھمکیوں اور سازشوں میں مصروف ہے لیکن ہم ادھر اقتدار کی جنگوں میں مصروف ہیں۔ ہمیں اقوام عالم کو یہ بتانا اور پیغام دینا ہے کہ ہم ہوشمند، دور اندیش، غیرتمند اور محب وطن قوم ہیں اور جب ملک پر کوئی آنچ آئے تو ہم وہ تاریخ رقم کرتے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔