سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوشن میں میگا کرپشن اسکینڈل
شیئر کریں
ؔسندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوشن میں میگا کرپشن کا اسکینڈل سامنے آگیا، 25 کروڑ کی لاگت سے شروع کئے گئے منصوبوں میں 5 کروڑ روپے اڑا دیے گئے، کرپشن الزامات کے زد میں آنے والے افسر انجینئر فاروق پر مقدمہ درج نہ ہوسکا۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سندھ نے 2020 میں محکمہ لیبر کے ماتحت سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوشن کی انجینئرنگ ونگ سے کراچی، گھوٹکی اور شہید بینظیر آباد میں صحت کے منصوبوں کا ریکارڈ طلب کیا، سیسی افسران کی جانب سے طلبی کے باوجود ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا جس پر اینٹی کرپشن حکام نے سیسی ہیڈ آفس کراچی پر چھاپہ مار کر ریکارڈ قبضے میں لے لیا، اینٹی کرپشن نے 2022 میں دوبارہ تحقیقات کی گئی جس میں بھی انجینئر محمد فاروق سمیت دو افسران اور 7 جعل ساز کنسٹرکشن کمپنیوں کو ملوث قرار دے دیا گیا، ملوث کمپنیوں میں ایم ایس غوری انٹر پرائز، ایم ایس سعودی انٹر پرائز، ایم ایس سلمان شریف شکور کنسٹرکشن کمپنی، ایم ایس عبدالرشید بھٹو، ایم ایس جاوید برادرس اینڈ کنسٹرکشن اینڈ ادھر برادرس شامل ہیں۔ محکمہ اینٹی کرپشن نے دو بار انجینئر فاروق سمیت دو افسران اور 7 جعل ساز کنسٹرکشن کمپنیوں کے خلاف ایف درج کرکے ملزمان کو گرفتار کرنے کی سفارش کی، ڈائریکٹر اینٹی کرپشن آفس نے تحقیقات کی سفارش اینٹی کرپشن کمیٹی ون میں تاحال پیش نہیں کی، سفارش اینٹی کرپشن کمیٹی ون میں پیش نہ کرنے کے باعث کروڑوں روپے کی رقم انجینئر فاروق کیلئے مال غنیمت بن گئی، سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹوٹ کے ادارے کا سربراہ احمد بخش ناریجو بھی بے بس ہوگئے ہیں، ادارے کا سربراہ گریڈ 17 کے انجینئر فاروق کے سامنے بے بس ہو گیا ہے، سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوٹ 2017 میں میگا کرپشن کے بعد کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کر سکا۔میگا کرپشن کے باعث وزیر محنت و افرادی قوت سعید غنی نے تحقیقات مکمل ہونے تک ترقیاتی منصوبے روک دیے ہیں، کرپشن اسکینڈل کی تحقیقات مکمل ہوگئی اور ذمہ داران کا تعین ہوگیا لیکن کارروائی نہیں ہو سکی۔