میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
متنازعہ ڈیموں پر ثالثی،بھارت عالمی بینک پر برہم کیوں؟

متنازعہ ڈیموں پر ثالثی،بھارت عالمی بینک پر برہم کیوں؟

منتظم
هفته, ۱۲ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ریاض احمد چودھری
پاکستان کو آزاد ہوئے 68 سال بیت چکے ہیں۔ آزادی کے ان 68 برسوں کا مختصر جائزہ لیا جائے تو یہ بات معلوم ہو گی کہ پاکستان نے جہاں بہت سے شعبوں میں تاریخ ساز کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں بعض شعبے ایسے بھی ہیں جن میں ہم باقی دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ پانی کو زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جہاں پانی کے آثار نہ ہوں اس زمین کو بنجر کہا جاتا ہے۔ پانی ایک طرف فصلوں اور غذائی اجناس کیلیے اہمیت رکھتاہے وہیں بجلی پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہائیڈل پلانٹ کیلیے بھی یہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے آزادی کے بعد سے اب تک صرف دو ڈیم منگلا اور تربیلا ہی بن سکے ہیں جبکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونیوالے بھارت نے آزادی کے بعد 102 ڈیم بنا لیے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس شعبہ میں ہم بھارت سے بہت پیچھے ہیں حالانکہ اب اکثر کہا جانے لگا ہے کہ آنیوالے دنوں میں دنیا میں پانی کے مسئلہ پر ہی جنگیں ہوں گی۔
ورلڈ بنک نے مقبوضہ کشمیر میں 2 متنازع ڈیموں کی تعمیر کیخلاف ثالثی کی پاکستانی درخواست قبول کی تھی جس پر بھارت شدید سیخ پا ہو گیا ۔ سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرنے پر بھارت کیخلاف ثالثی عدالت کی تشکیل کی درخواست کی قبولیت کو پاکستان کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے ورلڈ بنک کی جانب سے ثالثی کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور اسکے خلاف زبردست احتجاج کیا ہے۔ نئی دہلی نے اس حوالے سے غیرجانبدار ایکسپرٹ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان نے اگست 2015ءمیں 850 میگاواٹ کے راتلے ڈیم اور 330 میگاواٹ کے کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر زبردست اعتراض اٹھائے تھے۔ یہ پراجیکٹ دریائے چناب اور جہلم پر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے مطابق ان ڈیموں کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم کے فارمولے کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستانی عہدیدار نے کہا کہ بھارت مذاکرات کی پیشکش کر کے صرف وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس دوران ڈیموں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے تھا۔ اسی بنا پر پاکستان نے عالمی بنک سے ثالثی عدالت قائم کرنے کی درخواست کی تھی۔ ورلڈ بنک ثالثی عدالت میں بیٹھنے کیلیے 3 امپائرز مقرر کریگا۔ ورلڈ بنک نے تکنیکی مسائل کا جائزہ لینے کیلیے ایک غیر جانبدار ماہر منتخب کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔ ہم نے ورلڈ بنک کی تجویز منظور کرلی ہے اور یہ پاکستان کی فتح ہے۔ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ورلڈ بنک نے عالمی ثالثی عدالت قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے جسے ہم نے خوش آمدید کہا ہے۔ ہیگ کی مستقل ثالثی عدالت نے 2013ءمیں کشن گنگا پراجیکٹ پر ورلڈ بنک کو براہ راست ثالثی عدالت بنانے کی اجازت دی تھی تاہم بھارت نے کہا تھا کہ عالمی بنک سندھ طاس معاہدے کی شرائط کے مطابق ایسا نہیں کرسکتا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوراپ نے کہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے سے مطابقت نہ رکھنے والی کسی عالمی ثالثی کی پارٹی نہیں بن سکتا، تاہم ماہرین کا کہنا ہے بھارت اپنے موقف کو درست مانتا ہے تو وہ مسئلے کے حل کی طرف جانے سے کیوں ہچکچا رہا ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر میں دریاو¿ں پر 22 ہزار میگاواٹ کے بجلی کے پراجیکٹ لگانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بھارت نے اب تک 330 میگاواٹ کا دال ہاستی، 450 میگاواٹ کا بگلیہار پراجیکٹ تعمیر کرلیا ہے۔ کشن گنگا منصوبہ کی تعمیر مکمل ہونے والی ہے اور راتلے ڈیم پر کام ابھی شروع ہونا ہے۔
پاکستان کی ملکیتی دریاو¿ں پر بھارت نے تقریباً 14 ڈیم بنائے ہیں۔ دریائے ستلج پر بھارت نے بھاکر ڈیم، دریائے راوی پر چمبر ڈیم، ہماچل پردیش کے ماندی ڈسٹرکٹ دریائے بیاس پر پانڈو ڈیم اسی دریا پر پونگ ڈیم پنجاب کے گورداسپور ڈسٹرکٹ میں دریائے بیاس پر رنجی ساگر ڈیم، شمالی ڈوڈا ڈسٹرکٹ میں دریائے چناب پر گلبہار ڈی، کشتوار ڈسٹرکٹ میں دریائے چناب پر دستی ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ، اس دریا پر سالال ہائیڈروک الیکٹرک پراجیکٹ،بارہ مولہ ڈسٹرکٹ میں یوری کے قریب دریائے جہلم پر یوری ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ، دریائے جہلم پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، دریائے چناب پر کرتھائی ڈیم، اسی دریا پر سوالگوٹ ڈیم پر پکڈل ڈی، ڈسٹرکٹ شیوپوری میں دریائے سندھ پر میدیکھیدا ڈیم سمیت کئی ڈیم بنائے ہیں جبکہ درجنوں میگا پراجیکٹ زیر التواءہیں جن پر کام ہورہا ہے۔
بھارت دریائے سندھ کا 40 فیصد پانی ایک خفیہ سرنگ کے ذریعے چوری کر کے دریائے برہم پترا میں ڈال رہا ہے اور اس سے بھی معاہدے کی روح پر بھلا کیا اثر پڑے گا کہ وہ دریائے سندھ کے اوپر کارگل کے مقام پر ایک بہت بڑا کارگل ڈیم بنا رہا ہے جو دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم ہو گا جس کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ کی حیثیت ایک برساتی نالے سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔ بھارت دریائے سندھ میں گرنیوالے ندی نالوں پر بھی 14 چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے۔ اسی طرح جہلم سے ایک اور بگلیہار سے دو نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جا رہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایا جا رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاﺅں چناب اور جہلم پر ناقص بھارتی ڈیزائن کے ساتھ 330میگا واٹ کے کشن گنگا ڈیم اور 850میگا واٹ کے رٹل ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی جاری تعمیر سے پاکستان کوبھارتی آبی جارحیت سے خطرہ ہے۔ بھارت نے لداخ میں دریائے سندھ پر دنیا کے تیسرے بڑے ڈیم کی تعمیر مکمل کر لی توہماری فصلیں اور آبادیاں غیر محفوظ ہو جائیں گی۔لہذاپاکستان کی جانب سے غیر جانبدار ماہر کی متفقہ نامزدگی کی پیشکش پر دی گئی مدت میں بھارتی جواب نہ آنے پر اسلام آباد نے مزید وقت ضائع کئے بغیر نئی دہلی کے خلاف بین الاقوامی پلیٹ فارم پر قانونی جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور اس کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔
بھارت سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازع ڈیموں کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ہر سال باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دریاو¿ں میں پانی چھوڑ کر پاکستان کی فصلوں اور آبادیوں کو ڈبویا جاتا ہے۔ ہماری برآمدات کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ اگر زرعی زمینیں سیلاب کی زد میں رہیں گی تو پاکستان کی معیشت غیر مستحکم رہے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں