میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیر اعظم کے آنسو

وزیر اعظم کے آنسو

منتظم
اتوار, ۲۳ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb

سید عامر نجیب
اُردوکے معروف محاورے سے ہٹ کر آج کے کالم میں زیر بحث آنسو وزیر اعظم کے ہیں جو انھوں نے گذشتہ روز رحیم یار خان میں صحت کارڈ کے اجراءپروگرام کی منعقدہ تقریب میں غریب مریضوں کا ذکر کرتے ہوئے بہائے تھے ۔ فرمایا ایک غریب 200 سے 300 روپے تک کماتا ہے وہ اپنا علاج کیسے کرائے گا اور گھر کا خرچہ کیسے چلائے گا ۔ حالانکہ وزیر اعظم کو زیادہ زور اس بات پر دینا چاہئے تھا کہ ایک غریب جو بقول وزیر اعظم کے 200 سے 300 روپے روز کما رہا ہے وہ اپنے بچوں کو دال روٹی کیسے کھلائے گا ۔ وزیر اعظم اپنے سمدھی اور ملک کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ان کے عظیم کارناموں پر شاباشیاں دیتے رہتے ہیں اگر ہو سکے تو وزیر اعظم اپنے بجٹ اسپیشلسٹ وزیر خزانہ کو ایک ایسے غریب گھرانے کا بجٹ تیار کرنے کا حکم فرمائیں جس کی ماہانہ آمدنی وزیر اعظم کی معلومات کے مطابق 6000 یا 9000 روپے ہے ۔ اسحاق ڈار جو بر صغیر کے بہترین وزیر خزانہ ہونے کا خصوصی اعزاز بھی رکھتے ہیں وہ یقیناً بجٹ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے یہ اور بات ہے کہ وہ بجٹ خسارہ بیرونی قرضوں سے پورا کریں اور اُس گھرانے کی آئندہ نسل کو بھی قرض میں جکڑے جانے کا اہتمام فرمادیں ۔
وزیر اعظم کی کل کی تقریر سے یہ بھی پتا چلا کہ انھیں اس بات کی بھی فکر ہے کہ اگر وہ غریب عوام کے لئے کچھ نہ کر سکے تو آخرت میں حساب کیسے دیں گے ۔ واقعی اس حوالے سے ان کی فکر مندی بالکل بجا ہے کیونکہ آخرت میں نہ تو میڈیا گروپس اور ٹی وی اینکرز ان کے کچھ کام آسکتے ہیں نہ عوامی خدمت کا وہ عظیم ریکارڈ کچھ کام آئے گا جو ان کے بے لوث اور ہمدرد کالم نویسوں نے بڑی محنت سے مرتب کر کے اخباری صفحات میں محفوظ کر رکھا ہے اور تو اور وہاں تو عطاءالحق قاسمی صاحب بھی کام نہ آسکیں گے کیونکہ انھیں تو اپنے یورپ اور امریکہ کے رنگین سفر ناموں کی جوابدہی سے فرصت نہیں مل رہی ہوگی ۔لفافے ،بریف کیس اور چمک بھی آخرت میں ساتھ نہیں دے سکتے کیو نکہ یہ بھی مسلمانوں میں مسلمہ ہے ۔آخرت میں اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر بھی انھیں سہارہ نہیں دے سکیں گے ۔ اپنے وزیروں ، مشیروں اور ایم این ایز ، ایم پی ایز کا تجربہ تو وہ دنیا میں ہی کر چکے ہیں جو دنیا میں کام نہ آسکے وہ آخرت میں کیا کام آئیں گے اگر آخرت کی عدالت میں وعدہ معاف گواہ کی کوئی صورت بن سکتی تو یہ سب لوگ لائینیں لگا کر اپنے آپ کو پیش کر دیتے ۔ باقی رہ جاتے ہیں آصف علی زرداری جن کے قیمتی مشورے دنیا کے اقتدار کے ہر مشکل مرحلے میں کام آئے تھے ان سے بھی میاں نواز شریف کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکیں گے کیونکہ زرداری صاحب کے مشورے انتہائی قیمتی ہوتے ہیں اور حساب کتاب والے دن وزیر اعظم کے پاس اُن مشوروں کی قیمت ادا کرنے کے لئے کچھ نہ ہوگا ۔
آنسووں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ایک وہ جو آنکھوں سے بہہ نکلتے ہیں اور دوسری وہ جو آنکھوں سے بہائے جاتے ہیں ۔ ان دونوں آنسووں میں اتنا فرق ہے جتنا حقیقت اور افسانے میں ہوتا ہے بہہ جانے والے آنسو اختیار میں نہیں ہوتے اور بہائے جانے والے آنسو کنٹرول میں ہوتے ہیں ،بہہ جانے والے آنسو احساس کے سرچشمے سے نکلتے ہیں اور بہائے جانے والے آنسو ضرورت کے ۔ بہائے جانے والے آنسووں میں ٹائمنگ کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ ماں بچے کو سارا دن ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی ہے بچے سہم کر دبک جاتے ہیں لیکن جیسے ہی باپ گھر آتا ہے ماں کی معمولی سی ڈانٹ پر آنسو بہانہ شروع ہوجاتے ہیں ۔ بچے سے لے کر وزیر اعظم تک بہائے جانے والے آنسووں میں حکمت عملی کا دخل ہوتا ہے ۔
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کے لیئے اقتدار کوئی نیا نہیں ہے 1985 سے اقتدار میں کسی نہ کسی طرح کی شراکت موجود رہی ہے البتہ صدرمشرف کے ابتدائی چند سالوں کو استثناءحاصل ہے ۔ کم و بیش 9 سال تو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے علاوہ ازیں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ اُن کے خاندان یا ان کی پارٹی کے پاس کم و بیش 20 سال رہی ہے اب بھی اگر وہ صرف عوامی خدمت کے وعظ سنائیں اور غریب عوام کی حالت زار کے ذکر پر محض آبدیدہ ہوں تو کیا یہ کافی ہوگا ؟ سالوں سے علاج معالجے کے لئے دھکے کھاتے عوام ، پینے کے صاف پانی کو ترستے لوگ ، ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار بننے والے ووٹرز ، وہ لاکھوں گھرانے جو اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے سے محروم ہیں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اپنے بچوں کو ضروری غذائیت فراہم کرنے کے قابل نہیں جنھیں صاف ستھرا ماحول میسر نہیں ۔ مہنگائی نے جن کی کمر توڑ رکھی ہے جن کے گھروں میں کئی کئی تعلیم یافتہ بے روزگار بیٹھے ہیں ۔ کتنے یتیم بچے معاشرے میں در بدر ہیں کتنی جوان بیوائیں بے آسرا ہیں ، گھرانوں کی کتنی بیٹیاں تنگدستی کے باعث بابل کی دہلیز پر رخصتی کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں ، کیا وزیر اعظم کے آنسو ان کے دکھوں کا مداوا ہیں ؟ سیدنا عمر فاروق ؓ کو فکر تھی اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مرگیا تو کیا جواب دوں گا اور اس فکر میں اتنا اخلاص تھا کہ ان کا کھانا ان کا لباس ان کی رہائش اس دور کے غریبوں سے گئی گزری تھی ۔ عوام کا درد نہ سنانے سے ظاہر ہوتا ہے نہ آنسو بہانے سے عوام کا درد حکومتی کارکردگی ، پالیسیوں اور اقدامات کی صورتوں میں نظر آنا چاہیئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو رخصت کرتے ہوئے نصیحت فرمائی فرمایا” مظلوم کی بد دعا سے ڈرو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں“ ۔ مظلوموں کی آہیں اور بد دعائیں بعض اوقات دنیا میں بھی نشان عبرت بنا دیتی ہیں اور آخرت میں تو ظلم کا بدلہ دیا جانا اللہ کے انصاف کا تقاضہ ہے ہی ۔ اور ہاں بہہ جانے والے اور پری پلان بہائے جانے والے آنسووں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ بہہ جانے والے آنسو دلوں کی نرمی کی علامت ہوتے ہیں اور بہائے جانے والے سیاسی آنسو دلوں کی سختی کا اظہار ۔
آخر میں ایک لطیفہ جو سوشل میڈیا کے دانشوروں کی اختراع ہے ” نواز شریف غریبوں کی حالت دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے شہباز شریف ہسپتالوں کی حالت دیکھ کر روپڑے! کیا حال کردیا ہے وزیر اعظم عمران خان نے اس ملک کا ۔“


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں