میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
روک سکتے ہو تو روکو،مجھے کیوں نکالا گیا،ہمیں کیوں روکا گیا

روک سکتے ہو تو روکو،مجھے کیوں نکالا گیا،ہمیں کیوں روکا گیا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

روک سکتے ہو تو روکو،مجھے کیوں نکالا گیا اور ہمیں کیوں روکا گیا۔یہ گردانیں تواتر سے نون لیگ کے نااہل وزیر اعظم نواز شریف صاحب،کرپشن میں ملوث ان کی بیٹی مریم نواز شریف صاحبہ، ان کے بیٹے حسن اور حسین نواز صاحبان اور ان کی فوج ظفر موج وزیر اور کارکن ایک عرصے سے پاکستان کے عوام کو سناتے رہے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور فوج پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ آئیں آج اس واویلہ کا تجزیہ کرتے ہیں کہ ان میں کہاں تک سچائی ہے۔ اور عوام کو انصاف مہیا کرنے والی ملک کی اعلیٰ عدالت اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والی پاکستان کی بہادر فوج کو کسی دشمن کے ایجنڈے پر نشانہ تو نہیں بنایا جارہا؟ سیدھی سی بات تھی کہ آپ پر کرپشن کا مقدمہ قائم ہوا۔ آپ ملک کی اعلیٰ عدالت کے سامنے اپنی سچائی ثابت نہیںکر سکے اور کورٹ نے اس بنا پر آپ کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس میں کون سی ان ہونی بات ہے۔ تاریخ حکمرانوں کے خلاف ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ مگر نہ نواز شریف اور نہ ان کی اولاد اور نہ ہی ان کے وزیروں اور کارکنوں کی سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس میں پاکستان کے بے بس عوام کا کوئی قصور نہیں جن کو تم یہ گردانیں تواتر سے سنا رہے ہو۔
یہ اللہ کی طرف سے پکڑ ہے جو نواز شریف اور ان کے خاندان اور ان کی مورثی پارٹی نون لیگ پر آئی ہے۔نون لیگ نے واویلہ کیا کہ نوازشریف کے بعد جمہورت ڈی ریل ہو جائے گی۔ مگر جمہوریت آئین کے مطابق چل رہی ہے۔ نون لیگ کے ایک ناہل وزیر اعظم کے بعد ایک نئے وزیر اعظم آگئے ہیں جو ملک کا جمہوری نظام چلا رہیں۔ فوج اور عدلیہ نے کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ اس سے آپ کی یہ بات چھوٹی ثابت ہوئی کہ نواز شریف کے ہٹانے سے جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی ۔ بلکہ چند دن پہلے فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر کے ڈاریکٹر نے کسی قسم کے مارشل لا کی سختی سے تردید بھی کردی۔ہم نے اپنے ایک کالم میں تفصیل بیان کی تھی کہ آسمان گرانہ زمین پھٹی، نواز شریف کے جانے کے بعد بھی جمہوریت چل رہی ہے اور چلتی رہے گی صرف کرپٹ سیاستدانوں کی نہیں چلے گی۔
اللہ کی پکڑ کیسے آئی ۔ہوا یوں کہ دنیا کے کچھ نامور صحافیوں کی تنظیم نے آف شور کمپنیوں کا سراغ لگایا۔ اور دنیا کے سامنے رکھا کہ حکمران اور سرمایا دار اپنے ملک کے عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے کرپشن کر کے اور ناجائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت اور پھر اس پر ٹیکس چھپانے کے لیے، کیسے اپنا سرمایا آف شورکمپنیوں میں رکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی کی آبادی کاپچاس فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ملک کا ہر شہری بیرونی سودخور اداروں کاایک لاکھ پچیس ہزار کا مقروض بنا دیا گیا۔ ویسے پاکستان کے عوام شریف خاندان کے مغل شہنشاہوں کی طرز کی رہائش اور ان کی دولت پر باتیں کرتے رہتے تھے۔مریم صاحبہ کے پروٹوکول کے لیے حکومت کی پچاس پچاس گاڑیاں ساتھ چلتی ہیں۔ مگر کسی کے پاس کرپشن کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ثبوت صرف یہ تھا کہ نواز شریف اپنے انکم ٹیکس میں اپنے آمدنی کے حساب سے ٹیکس نہیں دے رہے تھے۔ اپنی دولت چھپا رہے ہیں۔نواز شریف کے پاس 1985 میں جب وہ پنجاب کے وزیر خزانہ بنے تھے تو صرف ایک اسٹیل کی بھٹی تھی جس کا نام اتفاق فوئنڈری تھا۔یہ کیسے ممکن ہوا کہ بقول عمران خان کہ اب شریف خاندان کے پاس بائیس فیکڑیاں ہیں۔
پاکستان میں شریف خاندان کی کرپشن کی تکرار چل رہی تھی کہ حسن اتفاق کہ ان آف شور کمپنیوں میں نواز شریف کے بچوں کا بھی نام نکلا۔مروجہ جمہوری طریقے سے اپوزیشن نے حکمران شریف خاندان سے معلوم کرنا چاہا کہ آپ اپنی آف شور کمپنیوں میںچھپائے گئے سرمایا کی وضاعت کریں اور عوام کے سامنے سچ لائیں۔ اس پر نواز شریف نے دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور ایک دفعہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ) میں وضاحت بیان کی۔ دبئی کی اسٹیل مل اور جدہ کی اسٹیل مل کی کہانی بیان کرنے کے بعد کہا کہ جناب یہ ہے وہ ذریعہ ہے جس نواز خاندان نے سرمایا کمایا۔ نواز شریف نے اپوزیشن کی دبائو پر عدلیہ کو خط بھی لکھا کہ آپ اس پر تحقیق کر کے سچائی عوام کے سامنے لائیں۔ معزز جج نے واپس کہا کہ پاکستان کے موجودہ قانون کے مطابق اگر تحقیق کی گئی تو عدالت سالوں سچ تک نہیں پہنچ سکتی ۔ اس کے لیے پاکستان کی پارلیمنٹ نئے ٹی آر اوبنائے تو عدالت کیس سن کرکس سچ تک پہنچ سکتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی او آر پر کئی ماہ مذاکرات چلتے رہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگتے رہے ۔مگر وقت پر ٹی او آر نہ بن سکے۔ اپوزیشن نے حکومت پر ٹال مٹول کا الزام لگایا اور جوابا حکومت نے کہا کہ اپوزیشن کے نکتہ نظر کے مطابق ٹی او آر نہیں بنا سکتے۔ اس دوران جماعت اسلامی جو پاکستان میں پچھلے کئے مہینوں سے کرپشن کے خلاف مہم چلا رہی تھی نے سپریم کورٹ میں کرپشن کے خلاف مقدمہ درج کر دیا۔ اس کے بعد تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے بھی مقدمہ درج کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ اپوزیش عوام میں بھی کرپشن کے خلاف آگاہی مہم چلا رہی تھی۔مقدمہ شروع ہونے سے پہلے سپریم نے تمام فریقوں سے تحریری حلف نامے لے لیے کہ سب فریق سپریم کورٹ کا فیصلہ من وعن تسلیم کریں۔ کیس سن کرپہلے پانچ ججوں کی بینچ میں سے دو ججوں نے فیصلہ دیا کہ نواز شریف پاکستان کے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نا اہل ہے۔جبکہ باقی تین ججوں نے کہا کہ ساٹھ دن تک ایک جے آئی ٹی بنا کر مذید تحقیق کر لی جائے۔ اس فیصلہ پر نواز لیگ نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور کہا صرف دو ججوں نے نا اہل قرار دیا باقی ججوں نے صرف مذید تحقیق کا کہا ہے۔ کیسے اپنے آپ کو اور پاکستان کے عوام کو دھوکا دیا گیا؟ کیا باقی ججوں نے نواز شریف کو امین اور صادق کہا ہے کہ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں؟ ذرائع اس نکتہ پر پہنچے کہ عوام کو بے خبری میں رکھ کر بیرون ملک دوستوں سے مدد کی تدبریں کی جارہی تھیں۔
جیسے پہلے ایک ہیلی کاپٹر والے کیس میں دبئی سے خط منگوایا تھا اور کورٹ سے جان چھوٹی تھی۔ اب کی بار قطر سے اسی طرز کا خط منگوا کر مقدمہ لڑا جانے کا پروگرام تھا۔ سپریم کورٹ نے خود جے آئی ٹی کے ممبران کے نام فائنل کیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں پیشیاں ہوتی رہیں۔ ہر پیشی پر نواز شریف،مریم نواز،حسن نواز،حسین نواز اور وزیر فوج اور عدلیہ پر الزام تراشی کرتے رہے۔ کہتے رہے روک سکتے ہو تو روکو۔ سپریم کورٹ نے لندن کے فلیٹس اور اسٹیل مل کی منی ٹرائل کے ثبوت مانگے تو نواز شریف نے طے شدہ پروگرام کے مطابق ایک قطری شہزادے کا خط پیش کیا اور کہا کہ ہمارے والد صاحب نے قطرے شہزادے کے والد کے ساتھ پراپرٹی کے کاروبار میں رقم لگائی تھی اور اس کی کمائی سے ہم نے لندن کے فلیٹ خریدے۔ جدہ کی اسٹیل ملزفروخت کر کے جائداد بنائی۔سپریم کورٹ کی ہر طرح کی تمام سہولتیں دینے کے باوجودقطری شہزادہ گوائی دینے نہ آئے اور نہ ہی نواز شریف نے اسٹیل مل لگانے کے لیے پاکستان سے سرمایا کی منی ٹرریل کے ثبوت پیش کیے ۔ سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے نواز شریف کو تا عمر نااہل قرار دے دیا۔ فیصلہ کے مطابق وہ کسی سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی نہیں بن سکتے۔
سپریم کورٹ کی پیشیوں پر سپریم کورٹ کے باہر میڈیا مہم چلائی گئی کہ ہم کو فوج اور عدلیہ نے حکومت سے نکالا۔ ایسا نہیں ہے ۔یہ بات غلط ہے آپ نے اقتدار میں رہ کر کرپشن کی ۔آپ نے عدالت میں جعلی دستایزات جمع کیں۔ آپ کے میڈیا ،پارلیمنٹ اور عدالت کے بیانات میں تضادات ہیں۔دونوں بیٹوں کے بیانات میں بھی تضادات تھے۔ مریم نواز کہتی رہی ہیں کہ باہر کیا میرا تو پاکستان میں بھی گھر نہیں ۔ میں تو اپنے والد کے ساتھ رہتی ہوں۔میاں نواز شریف صاحب آپ کو عدالت نے کرپشن اور جھوٹ بولنے کی بنیاد پر روکا اور نا اہل قرار دیا۔آپ اور آپ کے خاندان کی دولت کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے ملک کی اعلیٰ عدالت نے کیس احتساب عدالت کو بھیجا جہاں مقدمہ چل رہا ہے۔ احتساب عدالت میں سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ آپ کے وزیر داخلہ کہتے ہیں ہمارے وزیروں کو احتساب عدالت میں جانے سے کیوں روکا گیا۔ تو جناب ملک کے ہر شہری کے لیے قانون موجود ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ڈاریکٹر نے اپنی پریس کانفرنس میں اس با ت کی کیا خوب طریقے سے وضاعت کر دی ہے کہ اگر ملک کا سپہ سالار بھی سیکورٹی حکام کو اجازت کا کارڈ نہیں دیکھائے گا تو سپاہی اسے اندر جانے سے روک دے گا۔ آپ بھی قانون پر عمل کرتے ہوئے قانونی تقاضے پورے کرتے تو سیکورٹی والے آپ کو نہ روکتے۔ یہ کوئی مغلیہ سلطنت نہیں ہے۔یہ ایک جمہوری ملک ہے اس میں ہر شہری کوقانون کا پابند ہو ناہوتا ہے۔
ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ دیا کہ ایک نااہل وزیر اعظم کسی سیاسی پارٹی کا صدر نہیں بن سکتا مگر نون لیگ کی ایک تہائی ممبران والی دنیا کی واحد پارلیمنٹ ہے جس نے نا اہل کو اپنا صدر بنانے کا قانون پاس کر دیا۔گو کہ اس فیصلہ کو کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔کیا جھوٹ کو سچ کہنے والے پارلیمنٹ کے ممبران نے کبھی سوچا ہے کہ جھوٹ اسلام میں بڑے گناہوں میں شامل ہے ۔کیا پارلیمنٹ نے اللہ کے غضب کو دعوت نہیں دی ہے؟پھر اسی پارلیمنٹ نے قادیانوں کے لیے بنائے گئے حلف نامے کو ختم کر دیا۔ الحمد اللہ جماعت اسلامی کے صرف چار ممبران قومی اسمبلی نے اس کی مخالف کی اپنی ترمیم پیش کیں۔پاکستان کے عوام جو اپنے نبی ؐ کے جان دینے سے گریز نہیں کرتے وقت پر احتجاج کر حکومت کا پول کھول دیا۔ جس پر حکومت نے واپس حلف نامہ داخل کیا اور پارلیمنٹ کے تمام ممبران نے اس کو یک زبان منظور کر لیا۔یہ در اصل اس وقت بیرونی آقائوں سے مدد لینے کے لیے کیا گیا تھا جو واپس ان کی خلاف ہی ثابت ہوا۔ یہ صحیح کہ نواز شریف فیملی اس وقت اللہ کی پکڑ میں آئی ہوہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو کرپشن کرنے سے روک لیا گیا۔ آپ کو حکومت جھوٹ بولنے کی وجہ سے حکومت سے ہٹا دیا گیا۔ آپ کو غیر قانونی طور پر احتساب عدات میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ اللہ ہم سب پاکستانیوں کو صادق و امین اور قانون کا پابند بننے کی توفیق عطا فرمائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں