میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کسی بھی صوبے کے تمام سیاست داں دودھ کے دھلے نہیں

کسی بھی صوبے کے تمام سیاست داں دودھ کے دھلے نہیں

جرات ڈیسک
منگل, ۱۲ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

نگراں وزیرِ داخلہ سندھ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہا ہے کہ سندھ میں کسی سیاستدان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی۔ صرف نیب اور کریمنل کیسز چل رہے ہیں۔نگراں وزیرِ داخلہ سندھ کا کہنا ہے کہ سندھ میں کوئی اسٹاپ لسٹ میں بھی نہیں، دوسری طرف نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے سامنے خفیہ ایجنسیوں اورسول حساس ادارے کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں ایرانی تیل کے کاروبار میں 29 سیاستدانوں کو بھی ملوث قرار دیاگیاہے جن میں مبینہ طورپر سندھ کے بعض بااثر افراد اور سیاست دانوں کے نام بھی شامل ہیں، رپورٹ میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 90 سرکاری اہلکارورں اور 29 سیاستدانوں کی طرف سے سہولت کاری کا انکشاف کیاگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ایران سے پاکستان کو سالانہ 2 ارب 81 کروڑ لیٹر سے زیادہ تیل اسمگل ہوتا ہے، جس سے ملک کو سالانہ 60 ارب روپے سے زیادہ نقصان ہورہا ہے۔پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبارمیں ملوث ہیں، سب سے زیادہ 205 ڈیلر پنجاب، خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں۔سول حساس ادارے نے ایرانی تیل کی اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کے کاروبار میں ملوث ڈیلروں کی رپورٹ اور ہر صوبے میں یہ کاروبار کرنے والوں کی تفصیلات وزیراعظم سیکریٹریٹ میں جمع کروایں۔رپورٹ میں سالانہ تقریباً 3 ارب لیٹر ایرانی تیل پاکستان اسمگل ہونے اور اس میں سہولت کاری کرنے والے سیاستدانوں اور سرکاری حکام کی تعداد بھی بتائی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ایرانی بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں 76 ڈیلرز تیل اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور یہ تیل ملک بھر میں 995 پیٹرول پمپس پر فروخت ہوتا ہے۔
عوامی حلقوں میں آرمی چیف کی جانب سے احتساب کا عمل تیز کرنے اور کرپٹ سیاستدانوں،تاجروں اور اشرافیہ کو شکنجے میں لانے کیلئے کی جانے والی کارروائیوں کو تحسین کی نظر سے دیکھا گیاہے اور اس بات پر اطمینا ن کا اظہار کیاگیاہے کہ بالآخر عوام کا خون چوس کر تجوریاں بھر نے والوں پر بھی ہاتھ ڈالنے کی ابتدا کی گئی ہے۔عوام کیلئے یہ امر حوصلہ افزاہے کہ ملک کی معاشی بدحالی کے ذمہ داروں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے، بدعنوانی کے الزامات کے تحت اہم شخصیات کو بیرون ملک جانے سے روکنے کیلئے تیار کی گئی اسٹاپ لسٹ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسٹاپ لسٹ میں شامل ناموں کی تعداد اب ایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ ابتدائی طور سٹاپ لسٹ میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز شخصیات کے بجائے ان کے قریبی ساتھیوں اور ان کے ساتھ تعینات سرکاری افسران کے نام شامل ہیں۔ لسٹ میں مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار سے منسلک شخصیات، کرنسی، چینی اور پیٹرولیم کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے نام بھی شامل ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی کی فنڈنگ کرنے والی شخصیات کے نام بھی ا سٹاپ لسٹ میں شامل ہیں، اس کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کے حامی متعدد اعلیٰ سرکاری افسران کے نام بھی اسٹاپ لسٹ میں درج ہیں۔دوسری جانب ا سٹیٹ بینک سمیت متعلقہ اداروں کی جانب سے زر مبادلہ کے لین دین، داخلی و خارجی راستوں کی سخت نگرانی، ڈالر کی ا سمگلنگ اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، گرفتاریوں سے ڈالر ریورس گیئر میں آگیا ہے اور ڈالر کے انٹربینک ریٹ کم ہو رہے ہیں۔ کریک ڈاؤن کی وجہ سے حوالہ ہنڈی آپریٹرز روپوش ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بینکاری چینل سے ترسیلات زر کی آمد بڑھنے کے امکانات ہیں۔ دوسری طرف سونے کی فی تولہ قیمت میں بھی روزانہ کی بنیاد پرکمی آئی ہے۔یہ اقدامات اگر شہباز حکومت کے وزیرخزانہ کے دور ہی میں اٹھائے جاتے تو آج ملک کی معاشی صورتحال اس نہج پہ آکھڑی نہ ہوتی اگرچہ اب پانی سرسے اونچا ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود دیر آید درست آید کے مصداق بہتری کی امید وابستہ کرنے کی گنجائش ہے۔ تاہم احتساب کے حوالے سے نگراں وزیرِ داخلہ سندھ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کے اس بیان سے کہ سندھ میں کسی سیاستدان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی ہے،اور اس رپورٹ سے کہ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی اسٹاپ لسٹ میں عمران خاں کی تحریک انصاف کو فنڈ فراہم کرنے والی شخصیات اور پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے افسران کے نام بھی شامل ہیں اس پورے عمل کی غیر جانبداری اور شفافیت پر سوال اٹھنا لازمی ہیں کیونکہ یہ بات قطعی ناممکنات میں ہے کہ سندھ کا کوئی سیاستداں کسی غیر قانونی عمل میں ملوث نہ ہو اور تمام تر خرابیاں صرف پنجاب،خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے سیاستدانوں ہی میں ہو،اسی طرح کسی ایک سیاسی پارٹی کو فنڈ فراہم کرنے والی شخصیات یا کسی مخصوص پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے سرکاری افسران کو نشانہ بنانا بھی کیا صریح ذمہ داری ہے،پاکستان کے آئین کے تحت کسی بھی مخصوص سیاسی پارٹی کو فنڈ فراہم کرنا کسی طرح کا جرم نہیں ہے،دنیا میں ہر جگہ لوگ اپنی پسند کی پارٹی کو فنڈ فراہم کرتے ہیں لیکن ان سے کبھی کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی،اگر کوئی پارٹی اپنے حامیوں سے وصول کئے گئے فنڈ کا غلط استعمال کرتی ہے تو اس پر متعلقہ پارٹی کے کرتا دھرتاؤں کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے لیکن فنڈ فراہم کرنے والے کو اس پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا،پھراگر کسی سیاسی پارٹی کو فنڈ فراہم کرنا جرم ہے تو پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی جمعیت علمائے اسلام اور دیگر پارٹیوں کو فنڈ فراہم کرنے والوں کو شکنجے میں لایاجانا چاہئے، اس وقت ملک جن حالات سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ مزید پنڈورا بکس کھولنے سے گریز کیا جائے اور احتساب کے اس عمل کو کسی مخصوص سیاسی جماعت کی طرف نہ موڑا جائے اور بلا امتیازکارروائی ہونی چاہئے چونکہ گزشتہ پانچ سال کے دوران رہنے والی دو حکومتوں میں تقریباً ساری سیاسی جماعتوں کی قیادت اور نمائندگی شامل رہی ہے اور نہ ہی کوئی خاص سیاسی جماعت میں شامل افراد ہی قصور وار ہیں اور باقی دودھ کے دھلے ہیں بلکہ تقریباً ساری سیاسی جماعتوں میں محولہ قسم کے عناصر موجود ہیں اور وقت کا تقاضا اور ملک کو مشکلات سے نکالنا بھی یکساں سخت سلوک کا متقاضی ہے، توقع کی جانی چاہئے کہ آنے والے دنوں میں بڑی مچھلیاں اور ان کے معاونین قانون اور کڑے احتساب کی گرفت میں آئیں گے نیز اس کا مقصد گزشتہ کے ناکام تجربوں سے مختلف ہونا چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں